- بجلی 2 روپے 75 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی گئی
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی نسبت روپیہ تگڑا
- حکومت نے 2000 کلومیٹر تک استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دیدی
- کراچی: ڈی آئی جی کے بیٹے کی ہوائی فائرنگ، اسلحے کی نمائش کی ویڈیوز وائرل
- انوار الحق کاکڑ، ایمل ولی بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب
- جناح اسپتال میں خواتین ڈاکٹروں کو بطور سزا کمرے میں بند کرنے کا انکشاف
- کولیسٹرول قابو کرنیوالی ادویات مسوڑھوں کی بیماری میں مفید قرار
- تکلیف میں مبتلا شہری کے پیٹ سے زندہ بام مچھلی برآمد
- ماہرین کا اینڈرائیڈ صارفین کو 28 خطرناک ایپس ڈیلیٹ کرنے کا مشورہ
- اسرائیل نے امن کا پرچم لہرانے والے 2 فلسطینی نوجوانوں کو قتل کردیا
- حکومت نے آٹا برآمد کرنے کی مشروط اجازت دے دی
- سائفر کیس میں امریکی ناظم الامور کو نہ بلایا گیا نہ انکا واٹس ایپ ریکارڈ لایا گیا، وکیل عمران خان
- سندھ ہائیکورٹ میں جج اور سینئر وکیل میں تلخ جملوں کا تبادلہ
- حکومت کا ججز کے خط کے معاملے پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان
- زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر مستحکم
- پی ٹی آئی کا عدلیہ کی آزادی وعمران خان کی رہائی کیلیے ریلی کا اعلان
- ہائی کورٹ ججز کے خط پر چیف جسٹس کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس
- اسلام آباد اور خیبر پختون خوا میں زلزلے کے جھٹکے
- حافظ نعیم کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس
- خیبر پختونخوا کے تعلیمی اداروں میں موسم بہار کی تعطیلات کا اعلان
نقار خانہ میں طوطی کی آواز
ہماری پیدائش چونکہ 1940 کی دہائی کی ہے ، اس لیے اِس سے قبل کے زمانہ کے حالات کے بارے میں کچھ کہنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے، البتہ بزرگوں کی کہی ہوئی باتوں سے اُس وقت کے حالات کے بارے میں قیاس آرائی کی بِنا پر ہی کچھ کہا جاسکتا ہے۔
تاہم یہ حقیقت اپنی جگہ پر100 فیصد درست یا بجا ہے کہ سُنی سُنائی باتوں پر کوئی اعتبار نہیں کیا جاسکتا لیکن اِس حقیقت سے بھی انکار کرنا مناسب نہیں کہ ماضی بعید کے لوگ بہت باکردار ہوا کرتے تھے اور سچائی اور نیکی اُس زمانہ کا عام چلن تھا۔ لوگ بُرائی کو بُرائی اور اچھائی کو اچھائی سمجھتے تھے۔
آدمی کو انسان سمجھنا اُس دور کا خاصہ تھا۔ انسان اُسی شخص کو مانا جاتا تھا جس میں انسانیت ہو۔ اِس تناظر میں مرزا غالب کا یہ شعر برجستہ یاد آرہا ہے۔
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
اِس کے بعد بیسویں صدی کا آغاز ہوا اور اصلی نقلی کی اصطلاحیں عام ہوگئیں اور ایک نئے دور کی شروعات ہوئی۔ گھی صرف گھی ہوا کرتا تھا اور اِس کے علاوہ بھی کچھ اور ہوسکتا ہے۔
کوئی شخص اِس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ، پھر یوں ہوا کہ ایک نیا گھی متعارف ہوا جس کے مضمرات ناقابلِ بیان تھے تب کسی سیانے نے یہ بات کہی تھی کہ اِس گھی کے استعمال کے بعد آنے والی چوتھی نسل اندھی پیدا ہوگی۔
وقت نے اِس بات کو درست ثابت کردیا اور آج عالم یہ ہے کہ صرف بڑوں ہی نہیں بلکہ کم سِن بچوں کی آنکھوں پر عینکیں لگی ہوئی ہیں۔
اخلاقیات کا دیوالیہ نکل چکا ہے اور ہر طرف نفسا نفسی کا دور دورہ ہے ، اخلاقی قدریں پامال ہوتی چلی گئیں۔ انسان جسے اشرف المخلوقات کہا گیا ہے گرتے گرتے حیوانوں سے بھی آگے نکل گیا ہے۔
بزرگوں کا احترام ناپید ہوگیا ہے اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ بیٹا سر ِعام باپ کے ساتھ منہ زوری کررہا ہے۔ اِس پر ہمیں ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔
ہوا یوں کہ ایک لڑکا جو اپنے گاؤں سے نکل کر شہر میں آباد ہوگیا اور اُس کے مالی معاملات بہتر ہوگئے تو وہ اِس قدر جامہ سے باہر ہوگیا کہ جب اُس کا باپ جذبہ پدری سے مجبور ہو کر اُس سے ملنے کے لیے شہر پہنچا ، اتوارکی شام تھی جو ہفتہ وار تعطیل کا دن تھا اور بیٹے کے گھر دوستوں کی ایک زور دار محفل جمی ہوئی تھی جونہی باپ نے گھر کے دروازے پر دستک دی اور بیٹے نے دروازہ کھولا تو باپ فرط جذبات سے مغلوب ہو کر بیٹے کی جانب بڑھا۔
اِس سے پہلے کہ باپ بیٹے سے لپٹتا بیٹے نے لپَک کر باپ کا بازو پکڑا اور اُسے لے کر گھر کے دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ اُس نے باپ سے کہا کہ وہ وہیں بیٹھا رہے ، جب بیٹا پلٹ کر اُس کمرے میں آیا جہاں محفل جمی ہوئی تھی تو دوستوں کے اصرار پر اُس نے کہا کہ میرا پرانا نوکر تھا جسے کوئی تمیز نہیں۔ یہ کہنے کے بعد بیٹا باپ کے پاس آیا اور کہا کہ تم یہاں سے ہلنا نہیں اور جب تک میں واپس نہ آؤں یہیں بیٹھے رہنا۔
بیچارے باپ کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ صبر کرے۔ کچھ عرصہ بعد معلوم ہوا کہ بیٹا رشوت خوری کے الزام میں پکڑا گیا اور اُس کی ملازمت بھی ہاتھوں سے گئی اور کئی سال کی قید کی سزا الگ سے ملی۔
یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں ہے بلکہ اخبارات میں اِس قسم کے واقعات آئے دن شایع ہوتے رہتے ہیں کہ بیٹے نے باپ کو قتل کردیا اور ماں کو گھر سے نکال دیا۔ شوہر کے ہاتھوں بیوی اور بیوی کے ہاتھوں شوہر کے قتل کی وارداتیں عام ہوگئی ہیں۔
اکبر الہ آبادی نے بہت پہلے کہہ دیا تھا۔
ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
نئی تہذیب کے نام پر بد تہذیبی پروان چڑھ رہی ہے۔ علامہ اقبالؔ اِس صورت حال سے اتنے پریشان ہوئے کہ اُنہیں مجبوراً یہ کہنا پڑا۔
اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
ہمارے زمانہ کا یہ دستور عام تھا کہ بچوں کی جرات نہیں تھی کہ وہ گلی محلہ کے کسی بھی بزرگ کی ڈانٹ ڈپٹ کی شکایت گھر میں آکر بیان کریں ، مگر آج عالم یہ ہے کہ اگر کوئی بزرگ کسی بچہ کی اصلاح کے لیے کوئی لفظ بھی منہ سے نکال دے تو والدین کا منہ چڑھ جاتا ہے۔
اِس لیے ہر شخص محتاط رہتا ہے۔ ہم نے تو یہ تک سُنا ہے کہ ایک بچہ کے والدین نے ایک بزرگ کو محض اِس بات پر قتل کردیا کہ اُس نے بچہ کو کسی بُری حرکت پر ٹوک دیا تھا۔ اشیاء خورونوش کا بہت بُرا حال ہے۔
مصالحہ جات میں ملاوٹ تو دھڑلے سے ہورہی ہے اور کوئی فوڈ انسپکٹر نہیں کہ جو روک ٹوک کرے ، اگرچہ ٹی وی چینلز پر بعض جرات مند اینکرز اپنی عزت اور جان ہتھیلی پر رکھ کر ایسے پروگرام پیش کر چکے ہیں کہ جن میں ملاوٹ کرنے والوں کو رنگِ ہاتھوں دکھایا گیا ہے لیکن اِس کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ملاوٹ مافیا کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں کہ اُنہیں کسی کا ڈر یا خوف نہیں ہے۔
منشیات کا کاروبار عام ہے اور پولیس اِس قدر نااہل اور ناکارہ ہوچکی ہے کہ منشیات فروش بے خوف و خطر دھندناتے پِھرتے ہیں کہ جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ جرائم میں نہایت تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اور میڈیا میں اِس کی خبریں روز مرہ رپورٹ بھی ہوتی رہتی ہیں لیکن نقار خانہ میں طُوطی کی آواز سننے والا کوئی نہیں ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔