خوش حال خان خٹک

روخان یوسف زئی  اتوار 19 فروری 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 نیلی شکاری آنکھیں، جنگ جوُ ناک، چہرے پر دانش ورانہ جُھریاں، سر پر لمبے لمبے شاعرانہ بال، لمبی لمبی فلسفیانہ داڑھی، گال پر کالا تل جو انسانی نفسیات پر عبور رکھنے کی واضح علامت ہے۔

مضبوط توانا جسم اور دراز قدوقامت کے مالک، نابغہ روزگار شخصیت، یہ ذکر ہے پشتو زبان کے عظیم قوم پرست اور وطن پرست شاعر، ادیب، سردار، فلسفی، سیاست داں، ماہرنفسیات، شکاری، حکیم اور جنگ جُو خوش حال خان خٹک کا جو مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کے دورحکومت میں1022ھ بمطابق مئی1613ء میں خٹک قبیلے کے سردارشہبازخان کے ہاں اکوڑہ خٹک (نوشہرہ) میں پیدا ہوئے۔

وہ اپنے بھائی جمیل خان (المعروف فقیرجمیل بیگ) اور سوتیلے بھائیوں شمشیر خان اور میرباز خان سے عمر میں بڑے تھے۔ چھے سال کے تھے کہ انہیں ایک دن گھر کی خادمائیں اپنے ساتھ دریائے کابل میں سرائے اکوڑہ کے گھاٹ پر لے گئیں۔ وہ خود تو کپڑے اور برتن دھونے میں مصروف ہوگئیں، جب کہ ننھا خوش حال خان دریا کے کنارے نہانے لگا کہ اس دوران پانی کا زوردار ریلا آیا اور اسے اپنے ساتھ بہا لے گیا۔

ان خادماؤں میں ’’دولتئی‘‘ نامی خادمہ کی نظر خوش حال خان کے بالوں میں بندھے ریشم کے تاروں پر پڑی جو سطح آب پر تیرتے چلے جارہے تھے۔ دولتئی نے ریشم کا گچھا سمجھ کر جوں ہی اسے پکڑ کر زور سے کھینچا تو اس کے منہ سے ایک آہ نکلی کیوں کہ اس گچے کے ساتھ وہ خوش حال خان کو بھی پانی سے باہر نکال لائی تھی۔

دولتئی چلانے لگی۔ دوسری نوکرانیاں بھی یہ چیخ وپکار سن کر آپہنچیں۔ خان زادے کو بے ہوش دیکھ کر سب کو اپنی جان کی پڑگئی۔ خان زادے کا پیٹ دریا کے پانی سے اتنا بھر چکا تھا کہ اس کے منہ سے پانی بہہ رہا تھا۔ نوکرانیوں نے جلدی اسے گڑھے پر پیٹ کے بل ڈال دیا تاکہ اس کے پیٹ میں بھرا پانی باہر نکل سکے۔ تھوڑی دیر بعد خان زادے کو ہوش آیا۔

یہ دیکھ کر نوکرانیوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس واقعے کے دو سال بعد خوش حال خان خٹک کے ساتھ ایک اور واقعہ بھی پیش آیا۔ ایک دن وہ سخت گرمی کے موسم میں اپنے محلے کے لڑکوں کے ساتھ ایک چھپر کے نیچے کھیل رہے تھے کہ اس دوران زور دار آندھی آئی اور چھپر پر پڑی چٹائی کو جس پر کچھ بھاری پتھر پڑے ہوئے تھے۔

آندھی لے اڑی، ان پتھروں میں سے ایک پتھر خوش حال خان پر آگرا اور بالوں کی مانگ کے برابر ان کی پیشانی کو چیر ڈالا، وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے اور کئی دنوں تک مرہم پٹی کرنے کے بعد ان کا زخم ٹھیک ہوا۔

خوش حال خان نے اپنے زمانے کی رائج ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور مسجد کے اساتذہ سے حاصل کی، مگر پڑھائی سے زیادہ ان کی توجہ شکار کھیلنے کی جانب رہی کیوں کہ ان کے گھر اور حجرے میں ہر طرف نیزوں، تیر وکمان، برچھوں، تیزدھار چھریوں، تلواروں اور بندوقوں کے انبار لگے رہتے تھے۔ ان کے خاندان کے تمام افراد کے دو بڑے مشاغل تھے۔

ایک شکار کھیلنا اور دوسرا جنگ وجدال میں مصروف رہنا۔ یہی وجہ تھی کہ خوش حال خان کو بچپن ہی سے شکار کھیلنے کا چسکا پڑگیا تھا۔ وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ ’’پورے جہاں کی تعلیم اور تحصیل میری ہوتی، اگر میں شکار کے شغل میں مبتلا نہ رہتا‘‘ بچپن میں چھوٹے چھوٹے پرندوں اور جوانی میں ہرنیوں، خرگوشوں کا شکار کھیلتے تھے۔

انہیں باز پالنے کا اتنا شوق تھا کہ ’’بازنامہ‘‘ کے نام سے ایک پوری منظوم کتاب بھی لکھی ہے جس میں باز پالنے کے طور طریقوں سے لے کر اس کے جملہ امراض، علاج اور دواؤں کا بھی تفصیلی ذکر موجود ہے۔ شکار کے اتنے رسیا تھے کہ اپنی زندگی کے مصروف ترین لمحوں میں بھی اس مشغلے کو ترک نہیں کیا۔

ہزاروں اشعار پر مشتمل کلیات اور نثر کی متعدد کتابیںان کی ذہنی صلاحیتوں، وسعت مطالعہ، دنیا کے مختلف علوم اور مضامین پر ان کی کامل دسترس کی گواہی دیتی ہیں۔ وہ خود اس بات کو اپنے ایک شعر میں بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ ’’میرے باپ دادا اس دنیا سے شہید ہوکر گئے ہیں اور یہ ہمارا پشت درپشت ہنرو کمال ہے۔‘‘ خوش حال خان کی پہلی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں جولائی1631ء کو ہوئی۔

بعد میں انہوں نے کئی شادیاں کیں مگر ان شادیوں کی مستند تعداد ابھی تک سامنے نہیں آئی۔ پرتعیش زندگی اور ان کے گھر اچھی، اچھی خوب صورت دلہنوں کی آمد کا ذکر خوش حال خان کے کلام میں بکثرت ملتا ہے۔ پہلی شادی سے چند دن پہلے وہ ملیریا میں مبتلا ہوگئے۔

اردگرد کے بڑے بڑے طبیبوں سے ان کا علاج کرایا گیا مگر افاقہ نہیں ہوا جس کی وجہ سے وہ اپنے سسر کے ہاں اپنی شادی کی تقریب میں بھی شریک نہیں ہوسکے اور ان کی دلہن کو ان کی دادی قزیفہ بی بی لے کر آئیں۔ میعادی بخار کی وجہ سے دن بہ دن ان کی حالت غیر ہوتی جارہی تھی ان کی والدہ بی بی یانہ اپنے دیگر رشتہ دار خواتین سمیت ان کے سرہانے بیٹھی ہوئی تھی اس دوران گاؤں کی کسی ادھیڑ عمر عورت نے ان کی والدہ کو مشورہ دیا کہ خوش حال خان کی بیماری کی اصل وجہ ان کے پسینے کا رک جانا ہے لہٰذا ان پر ایک بھاری لحاف ڈال کر مضبوطی سے پکڑنا چاہیے تاکہ ان کے جسم سے پسینہ نکل آئے۔

اس عورت کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے خوش حال خان کے سر پاؤں کے دونوں طرف گھر کی خواتین لحاف ڈال کر بیٹھ گئیں اور ان کے پورے جسم کو لحاف میں مضبوطی کے ساتھ ڈھانپ دیا گیا جس کی وجہ سے خوش حال خان کا دم گھٹنے لگا۔

انہوں نے بہت ہاتھ پاؤں مارے کہ کسی طرح اس لحاف سے چھٹکارا پاسکیں مگر ناکام ہوکر بے ہوش ہوگئے۔ ان کی والدہ نے ان کے سر سے تھوڑا سالحاف سرکایا اور اپنے بیٹے کو بے دم پڑا ہوا پایا تو ان پر غشی کے دورے پڑنے لگے۔ گھر میں موجود مردوخواتین نے رونا شروع کردیا۔ شوروغوغا مچ گیا اور خوش حال کی موت کی خبر گاؤں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اس دوران ان کے سرہانے بیٹھی ہوئی ایک رشتہ دار خاتون نے دیکھا کہ ان کے نتھنوں سے معمولی سی سانس نکل رہی ہے۔

اس نے سب کو پکارا کہ خوش حال خان مرا نہیں زندہ ہے، جلدی سے قریبی طبیب کو بلایا گیا اس نے دوا پلائی اور اس طرح آہستہ آہستہ خوش حال خان میں دم آتا گیا۔ سترہ دنوں کے بعد انہیں ہوش آیا۔ اپنے رشتہ داروں کو پہچانا اور اپنی دلہن کو دیکھا جو ان کے سامنے گم صم بیٹھی ہوئی تھی۔

شادی کے دو سال بعد بیس سال کی عمر میں باقاعدہ شاعری شروع کی۔ اس دوران انہیں قدرت نے پہلی اولاد اکبر خان کی صورت میں عطا کی مگر وہ سات دنوں کے بعد فوت ہوگیا۔ اس کے بعد اشرف خان ہجری پیدا ہوئے جن کا شمار بھی پشتو کے چوٹی کے شعراء میں ہوتا ہے۔

انہی دنوں خوش حال خان کو اپنے والد نے علاقہ عیسیٰ خیل پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ وہاں جاکر پورے علاقے کو تخت وتاراج کرکے بہت سا روپیہ اور مال غنیمت لے کر آئے۔ کام یابی کے ساتھ لوٹنے پر ان کے والد ان سے بہت خوش ہوئے جس کے بعد ’’بلڑنالہ‘‘ کی لڑائی میں بھی اپنے بہادر بیٹے کو اپنے ساتھ لے گئے جس میں خوشحال خان کے گھوڑے جس کا نام انہوں نے ’’سیلئی‘‘ (آندھی) رکھا تھا، کی ٹانگ میں ایک تیر بھی لگا تھا اور وہ اس گہرے زخم کی وجہ سے بے کار ہوگیا تھا۔

اس لڑائی میں خوش حال خان کے والد شہباز خان کی کنپٹی میں بھی ایک تیر لگا تھا۔ خوش حال خان نے اپنے والد کو اپنا زخمی گھوڑا دکھایا تاکہ یہ حالت دیکھ کر وہ لڑائی بند کرنے کا حکم دیں مگر ان کے والد نہیں مانے اور خوش حال خان کو دوسرے گھوڑے پر سوار ہونے اور آگے بڑھنے کا اشارہ کیا مگر اس دوران ان کا گھوڑا ’’سیلئی‘‘ ٹانگ پر زخم کی وجہ سے چلنے سے معذور ہوکر زمین پر گر پڑا۔

خوش حال خان پیدل روانہ ہوئے مڑ کر پیچھے دیکھا تو ان کے بھائی جمیل بیگ بھی ہاتھ پر تیر کھا چکے تھے اور وہ بھی خوش حال خان کے پیچھے پیچھے آرہے تھے اس دوران اچانک ایک تیر خوشحال خان کی پنڈلی کی ہڈی میں لگا اور تیر کا سرا ہڈی میں اٹک کے رہ گیا۔ لڑائی میں ان کو قبیلہ یوسف زئی کے ہاتھوں شکست کھانا پڑی۔

لڑائی کے خاتمے پر ان کے والد کی حالت نازک ہوچکی تھی اور وہ گھوڑے پر سواری کی طاقت بھی کھوچکے تھے۔ چناں چہ نیزوں کا ایک ’’اسٹریچر‘‘ سا تیار کرکے اپنے والد کو وہاں سے اٹھاکر میدان جنگ سے لے گئے اس لڑائی میں ایک بھی خٹک سپاہی ایسا نہیں بچا جو بغیر زخم کھائے گھر لوٹا ہو۔ تیر کے سرے کو ان کی پنڈلی سے دو تین آدمیوں نے انبور سے پکڑ کر بڑی کوشش سے نکالنے میں کام یاب ہوگئے۔

اس لڑائی کے پانچ دن بعد ان کے والد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پاگئے۔ والد کی وفات کے بعد قبیلے کی رسم کے مطابق خوش حال خان سردار چنے گئے۔

اس وقت ان کی عمر 28 سال تھی۔ انہیں1627ء میں باقاعدہ ایک شاہی فرمان کے ذریعے شہنشاہ شہاب الدین المعروف شاہ جہاں کی طرف سے بھی سرداری اور منصب داری عطا کی گئی۔ ان کے پاؤں کے زخم کو ٹھیک ہونے میں بھی پورے چالیس دن لگ گئے۔

مکمل صحت یاب ہونے کے بعد شکار کا شغل پھر شروع کیا اور اپنے پیر ومرشد کستیر گل حضرت شیخ رحم کار المعروف کاکا صاحب سے شرف نیاز حاصل کرنے کے لیے ان کے گاؤں چلے گئے (ان کے پیر ومرشد اور پختونوں کے مشہور ولی اللہ کستیرگل المعروف کاکاصاحب نوشہرہ 1653ء کو وفات پاگئے تھے۔ خوش حال خان ان کی نماز جنازہ میں شرکت اور کندھا دینے کی سعادت بھی حاصل کرچکے ہیں)

کاکا صاحب سے ملاقات کے بعد واپس آتے ہی قبیلہ یوسف زئی سے اپنے والد کا انتقام لینے کی غرض سے خٹکوں کا لشکر تیار کرلیا اور ان پر حملے شروع کردیے۔ اگرچہ انہیں اپنے چچا بہادر خان نے بہت سمجھایا کہ انتقام لینے میں جلدبازی سے کام نہ لیں مگر وہ نہیں مانے اور یوسف زئی قبیلے کے خلاف لڑنا شروع کردیا۔

اپنی زندگی میں قبیلہ یوسف زئی کے خلاف کئی بے شمار جنگیں لڑیں اور اکثر جنگوں میں شکست کھائی۔ مغل حکم رانوں کا ساتھ دینے کے لیے بادشاہ کے حضور میں اپنی خدمات پیش کیں اور دو ہزار فوج کے ساتھ ’’مہم کانگڑہ‘‘ میں شامل ہوکر تسخیر قلعہ تازہ گڑھ میں اپنی بہادری اور کام یابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ خوش حال خان خٹک نے اپنی زندگی میں سو سے زیادہ لڑائیوں میں حصہ لیا۔ مغل حکم رانوں کو خوش کرنے کے لیے زیادہ تر اپنے ہی لوگوں کے خلاف لڑے۔ شاہ جہان بادشاہ کے دونوں بیٹوں اورنگ زیب اور دارہ شکوہ کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی میں خوش حال خان اورنگ زیب کے ساتھ اس لیے کھڑے تھے کہ دارہ شکوہ ان کے مخالف قبیلہ یوسف زئی کے سردار بہاکوخان کی طرف داری کیا کرتے تھے۔

خوش حال خان نے خود اس بات کا اعتراف یوں کیا ہے ’’میرا خیال تھا کہ مغلوں کی نوکری میں اتنا سرمایہ دار بن جاؤں گا کہ اپنے گھوڑے کے لیے سونے کی رکابیں اور چاندنی کے نعل بناڈالوں گا مگر اب میں اس پیرانہ سالی میں ایک ایسا پختون بن گیا ہوں کہ مغلوں کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دوں گا۔‘‘ خوش حال خان پشتو کے واحد صاف گو اور صاحب گفتار وکردار شاعر ہیں جنہوں نے جو کچھ کیا اس کا برملا اظہار کیا اور جو کچھ کہا وہ کرکے دکھایا۔

جس وقت اورنگ زیب عالم گیر نے سید میر خوافی المخاطب امیر خان کو کابل کا صوبہ دار مقرر کیا تو اس نے خوش حال خان کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے زمیںداروں پر ناجائز ٹیکس لگانے کا حکم نامہ جاری کردیا جس کی ادائی سے خوش حال خان نے انکار کردیا۔

بعد میں ان سے مشورہ طلب کرنے کے بہانے امیرخان نے انہیں پشاور آنے کی دعوت دی۔ جنوری کے مہینے میں1664ء کو جمعہ کے دن خوش حال پشاور پہنچ گئے مگر تین دن انتظار کرنے کے باوجود امیرخان نے انہیں اپنے دربار طلب نہیں کیا اور سپاہیوں نے انہیں گھیرے میں لے کر گرفتار کرکے ان کے پاؤں میں پانچ سیر وزنی بیڑیاں ڈال دیں۔

ان کی گرفتاری میں ان کے چچاؤں کا بھی ہاتھ تھا۔ خوش حال کی گرفتاری کے خلاف اس وقت کے بڑے بڑے زمینداروں نے بہت احتجاج کیا مگر امیرخان نہیں مانے۔ خوشحال خان نے سب کو پرامن رہنے کا پیغام بھیجا۔ انہیں دو مہینوں تک پشاور میں قید رکھا گیا۔ بعد میں ان سے پچاس ہزار روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا جسے خوش حال خان نے مسترد کردیا۔ امیرخان نے انہیں ہندوستان لے جانے کا حکم جاری کردیا۔

ہندوستان لے جاتے وقت وہ خود کہتے ہیں ’’وہ گھڑی بڑی صبرآزما تھی جب سرائے اکوڑہ سے گزرتے ہوئے میں نے اپنے صاحب زادوں عثمان، زینو اور خاندان کے دیگر افراد کو دیکھا‘‘ گرفتاری کے بعد ان کا خاندان اکوڑہ خٹک سے ’’ہنگال‘‘ نامی جگہ منتقل ہوگیا۔ خوش حال خان منزل بہ منزل سفر کرتے ہوئے1664ء کو لاہور اور وہاں سے دہلی لے جائے گئے جہاں سخت بیماری کی حالت میں ایک سال تک قید کاٹنے کے بعد قلعہ رنتھنبور منتقل کردیے گیے۔ مجموعی طور پر وہ اڑھائی سال تک پشاور، دہلی اور رنتھنبور میں قید رہے۔

ہندوستان ہی میں دسمبر 1666ء میں گھوڑے سے گر پڑے اور ٹانگ میں شدید چوٹ آنے کی وجہ سے کئی مہینے صاحب فراش رہے۔ قید کے دوران انہوں نے متعدد غزلیات، قصائد، رباعیات اور قطعات اپنی کتاب ’’فراق نامہ‘‘ کی شکل میں لکھے ہیں۔ قید کے دوران ان کے خاندان کو قبیلہ یوسف زئی نے اپنے علاقے مردان کے نواح میں پناہ دے کر آباد کردیا۔

یہی وجہ تھی کہ1668ء میں اپنی رہائی کے بعد خوش حال خان قبیلہ یوسف زئی کی تعریف میں رطب اللسان ہوگئے اور اسے اپنا محسن اور مربی تسلیم کرلیا۔ جس وقت صوبے کے گورنر اور خوش حال خان کے دوست مہابت خان نے علاقہ یوسف زئی مردان میں1669ء کو ’’لنگرکوٹ‘‘ قلعے کی تعمیر کا ارادہ ظاہر کیا تو خوش حال خان نے مہابت خان کی سخت مخالفت کرکے یوسف زئی قبیلے کا ساتھ دیا اور مرتے دم تک اسی قبیلے کے ہم درد اور بہی خواہ رہے۔

مئی 1670ء کو انہیں اسہال کی بیماری لگ گئی جس سے دو سال کے بعد شفایاب ہوئے۔ اس دوران ان کی والدہ اور ایک بیوی بھی وفات پاگئیں۔ ان سے ان کا ایک بیٹا بہرام خان اس بات پر ناراض ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی سرداری اپنے بڑے صاحب زادے اشرف خان ھجری کو کیوں سونپی؟ جس کی وجہ سے بہرام خان نے اپنے والد کے خلاف نہ صرف کئی لڑائیاں لڑیں بل کہ کئی مرتبہ اپنے والد کو قتل کرنے کے منصوبے بھی بنائے، مگر ناکام رہا۔

کابل، کشمیر، سندھ، پنجاب، بدخشاں اور بنگال سمیت خطے کا کوئی بھیکوئی بھی ایسا قابل ذکر شہر اور علاقہ نہیں جہاں کا دورہ انہوں نے نہیں کیا۔ انہوں نے ہر قبیلے اور علاقے کے رسم و رواج اور معاشرتی زندگی پر اپنا تبصرہ بھی پیش کیا ہے۔ انہوں نے اس وقت سوات کے ایک مشہور ملامیاں نور کے ساتھ مذہبی مسائل پر درخت کے نیچے مناظرہ بھی کیا جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’سوات نامہ‘‘ میں کیا ہے۔

مغل حکم رانوں کے خلاف خوش حال خان کا بھر پور ساتھ دینے والے دوستوں میں ایمل خان مومند اور دریاخان آفریدی بطورخاص قابل ذکر ہیں جو خود بھی اپنے اپنے قبیلے کے سردار اور مغل حکم رانوں کے سخت خلاف تھے۔ 1686ء کے قحط اور وبا میں خوش حال خان کی بیوی اور دو بیٹے بخت ناک اور نطام کے علاوہ ایک پوتا بھی فوت ہوا تھا۔ بہرام کی طرح خوش حال کا دوسرا بیٹا عابد خان بھی ان کے ساتھ گستاخی پر اتر آیا تھا۔

ان کا آخری دورحیات مصائب وتکالیف، طرح طرح کی آزمائشوں اور امتحانات میں گزرا۔ مغل حکم رانوں اور اپنے ہی خاندان کے چند افراد کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے تنگ آکر قبیلہ آفریدی کے علاقے ’’ڈنبرہ‘‘ میں پناہ لے لی جہاں کچھ عرصہ رہنے کے بعد قلم وتلوار کا یہ دھنی، سنسنی خیز اور حیرت انگیز کام یابیوں کے بعد 78 سال کی عمر میں 20 فروری1689ء کو ’’ڈنبرہ‘‘ میں وفات پاگیا۔ ان کی میت ان کی وصیت کے مطابق سرائے اکوڑہ (موجودہ اکوڑہ خٹک) سے چند میل کے فاصلے پر آبادی سے دور ایک پہاڑ کے کونے میں دفن کردی گئی۔

اور دارہ شکوہ کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی میں خوش حال خان اورنگ زیب کے ساتھ اس لیے کھڑے تھے کہ دارہ شکوہ ان کے مخالف قبیلہ یوسف زئی کے سردار بہاکوخان کی طرف داری کیا کرتے تھے۔ خوش حال خان نے خود اس بات کا اعتراف یوں کیا ہے ’’میرا خیال تھا کہ مغلوں کی نوکری میں اتنا سرمایہ دار بن جاؤں گا کہ اپنے گھوڑے کے لیے سونے کی رکابیں اور چاندنی کے نعل بناڈالوں گا مگر اب میں اس پیرانہ سالی میں ایک ایسا پختون بن گیا ہوں کہ مغلوں کے خلاف کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دوں گا۔‘‘

خوش حال خان پشتو کے واحد صاف گو اور صاحب گفتار وکردار شاعر ہیں جنہوں نے جو کچھ کیا اس کا برملا اظہار کیا اور جو کچھ کہا وہ کرکے دکھایا۔ جس وقت اورنگ زیب عالم گیر نے سید میر خوافی المخاطب امیر خان کو کابل کا صوبہ دار مقرر کیا تو اس نے خوش حال خان کو نشانہ بناتے ہوئے بڑے زمیںداروں پر ناجائز ٹیکس لگانے کا حکم نامہ جاری کردیا جس کی ادائی سے خوش حال خان نے انکار کردیا۔ بعد میں ان سے مشورہ طلب کرنے کے بہانے امیرخان نے انہیں پشاور آنے کی دعوت دی۔

جنوری کے مہینے میں1664ء کو جمعہ کے دن خوش حال پشاور پہنچ گئے مگر تین دن انتظار کرنے کے باوجود امیرخان نے انہیں اپنے دربار طلب نہیں کیا اور سپاہیوں نے انہیں گھیرے میں لے کر گرفتار کرکے ان کے پاؤں میں پانچ سیر وزنی بیڑیاں ڈال دیں۔ ان کی گرفتاری میں ان کے چچاؤں کا بھی ہاتھ تھا۔ خوش حال کی گرفتاری کے خلاف اس وقت کے بڑے بڑے زمینداروں نے بہت احتجاج کیا مگر امیرخان نہیں مانے۔ خوشحال خان نے سب کو پرامن رہنے کا پیغام بھیجا۔ انہیں دو مہینوں تک پشاور میں قید رکھا گیا۔

بعد میں ان سے پچاس ہزار روپے تاوان کا مطالبہ کیا گیا جسے خوش حال خان نے مسترد کردیا۔ امیرخان نے انہیں ہندوستان لے جانے کا حکم جاری کردیا۔ ہندوستان لے جاتے وقت وہ خود کہتے ہیں ’’وہ گھڑی بڑی صبرآزما تھی جب سرائے اکوڑہ سے گزرتے ہوئے میں نے اپنے صاحب زادوں عثمان، زینو اور خاندان کے دیگر افراد کو دیکھا‘‘ گرفتاری کے بعد ان کا خاندان اکوڑہ خٹک سے ’’ہنگال‘‘ نامی جگہ منتقل ہوگیا۔

خوش حال خان منزل بہ منزل سفر کرتے ہوئے1664ء کو لاہور اور وہاں سے دہلی لے جائے گئے جہاں سخت بیماری کی حالت میں ایک سال تک قید کاٹنے کے بعد قلعہ رنتھنبور منتقل کردیے گیے۔ مجموعی طور پر وہ اڑھائی سال تک پشاور، دہلی اور رنتھنبور میں قید رہے۔

ہندوستان ہی میں دسمبر 1666ء میں گھوڑے سے گر پڑے اور ٹانگ میں شدید چوٹ آنے کی وجہ سے کئی مہینے صاحب فراش رہے۔ قید کے دوران انہوں نے متعدد غزلیات، قصائد، رباعیات اور قطعات اپنی کتاب ’’فراق نامہ‘‘ کی شکل میں لکھے ہیں۔ قید کے دوران ان کے خاندان کو قبیلہ یوسف زئی نے اپنے علاقے مردان کے نواح میں پناہ دے کر آباد کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ1668ء میں اپنی رہائی کے بعد خوش حال خان قبیلہ یوسف زئی کی تعریف میں رطب اللسان ہوگئے اور اسے اپنا محسن اور مربی تسلیم کرلیا۔

جس وقت صوبے کے گورنر اور خوش حال خان کے دوست مہابت خان نے علاقہ یوسف زئی مردان میں1669ء کو ’’لنگرکوٹ‘‘ قلعے کی تعمیر کا ارادہ ظاہر کیا تو خوش حال خان نے مہابت خان کی سخت مخالفت کرکے یوسف زئی قبیلے کا ساتھ دیا اور مرتے دم تک اسی قبیلے کے ہم درد اور بہی خواہ رہے۔ مئی 1670ء کو انہیں اسہال کی بیماری لگ گئی جس سے دو سال کے بعد شفایاب ہوئے۔ اس دوران ان کی والدہ اور ایک بیوی بھی وفات پاگئیں۔

ان سے ان کا ایک بیٹا بہرام خان اس بات پر ناراض ہوا تھا کہ انہوں نے اپنی سرداری اپنے بڑے صاحب زادے اشرف خان ھجری کو کیوں سونپی؟ جس کی وجہ سے بہرام خان نے اپنے والد کے خلاف نہ صرف کئی لڑائیاں لڑیں بل کہ کئی مرتبہ اپنے والد کو قتل کرنے کے منصوبے بھی بنائے، مگر ناکام رہا۔ کابل، کشمیر، سندھ، پنجاب، بدخشاں اور بنگال سمیت خطے کا کوئی بھیکوئی بھی ایسا قابل ذکر شہر اور علاقہ نہیں جہاں کا دورہ انہوں نے نہیں کیا۔

انہوں نے ہر قبیلے اور علاقے کے رسم و رواج اور معاشرتی زندگی پر اپنا تبصرہ بھی پیش کیا ہے۔ انہوں نے اس وقت سوات کے ایک مشہور ملامیاں نور کے ساتھ مذہبی مسائل پر درخت کے نیچے مناظرہ بھی کیا جس کا تفصیلی ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’سوات نامہ‘‘ میں کیا ہے۔

مغل حکم رانوں کے خلاف خوش حال خان کا بھر پور ساتھ دینے والے دوستوں میں ایمل خان مومند اور دریاخان آفریدی بطورخاص قابل ذکر ہیں جو خود بھی اپنے اپنے قبیلے کے سردار اور مغل حکم رانوں کے سخت خلاف تھے۔ 1686ء کے قحط اور وبا میں خوش حال خان کی بیوی اور دو بیٹے بخت ناک اور نطام کے علاوہ ایک پوتا بھی فوت ہوا تھا۔

بہرام کی طرح خوش حال کا دوسرا بیٹا عابد خان بھی ان کے ساتھ گستاخی پر اتر آیا تھا۔ ان کا آخری دورحیات مصائب وتکالیف، طرح طرح کی آزمائشوں اور امتحانات میں گزرا۔ مغل حکم رانوں اور اپنے ہی خاندان کے چند افراد کی ریشہ دوانیوں اور سازشوں سے تنگ آکر قبیلہ آفریدی

کے علاقے ’’ڈنبرہ‘‘ میں پناہ لے لی جہاں کچھ عرصہ رہنے کے بعد قلم وتلوار کا یہ دھنی، سنسنی خیز اور حیرت انگیز کام یابیوں کے بعد 78 سال کی عمر میں 20 فروری1689ء کو ’’ڈنبرہ‘‘ میں وفات پاگیا۔ ان کی میت ان کی وصیت کے مطابق سرائے اکوڑہ (موجودہ اکوڑہ خٹک) سے چند میل کے فاصلے پر آبادی سے دور ایک پہاڑ کے کونے میں دفن کردی گئی۔

بیویاں اور بچے
خوش حال خان کی بیویوں کے علاوہ ان کے حرم میں کنیزیں بھی تھیں، بیویوں اور کنیزوں سے خان کے60 بیٹے اور31 بیٹیاں پیدا ہوئیں، بیٹوں میں اشرف خان ھجری، عبدالقادر خان خٹک، صدرخان، سکندرخان خٹک اور گوہرخان خٹک بھی پشتو کے صاحب دیوان شعراء گزرے ہیں۔

خوش حال خان خٹک کی کتابیں
خوش حال خان نے تقریباً 52 کتابیں لکھیں جن میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے رسالے بھی شامل ہیں۔ انہیں اپنی تمام کتابوں میں ’’بازنامہ‘‘ سب سے زیادہ عزیز تھا۔

ان کا دیوان پہلی بار 1859ء میں انگریز مستشرق ایچ ڈبلیو بیلیو کی تصحیح کے ساتھ سلطان بخش دروغہ کے زیراہتمام جیل پریس پشاور سے چھپ کر منظرعام پرآیا۔ اس کے بعد ان کے کلام کا انتخاب دیوان خوش حال خان خٹک بہ زبان افغانی و فارسی کے نام سے دیوان کھڑک سنگھ نے پشاور سے شائع کیا۔ 1929ء میں پروفیسر عبدالمجید افغانی کے مقدمے کے ساتھ ایک دیوان ہوتی مردان میں چھپ کر سامنے آیا۔ 1938ء میں عبدالحئی حبیبی کے مقدمے اور حواشی کے ساتھ قندھار (افغانستان) سے شائع کیا گیا۔

1952ء میں نام ور خوش حال شناس دوست محمد خان کامل مومند کی ترتیب اور حواشی کے ساتھ کلیات خوش حال کے نام سے منظرعام پر آیا جو تاحال سب سے زیادہ مستند نسخہ تصور کیا جاتا ہے۔ خوش حال کی نثر کی کتاب ’’دستارنامہ‘‘ 1952ء میں پروفیسر عبدالشکور رشاد کے زیراہتمام پشاور میں اور سال 1966ء میں افغانستان میں چھپ کر منظرعام پر آئی، جس کا 1980 ء میں پروفیسر خاطرغزنوی اور پردل خان خٹک نے اردو میں ترجمہ کرکے شائع کیا۔

خوشحال خان کی دیگر کتابوں میں ’’سوات نامہ‘‘ 1979ئ، فضل نامہ 1952ئ، طب نامہ 1966ئ، فراق نامہ 1983ء جب کہ فال نامہ 1985ء میں چھپ کر مارکیٹ میں آئی۔ خان بابا نے پشتو میں ایک قسم کا شارٹ ہینڈ بھی ایجاد کیا تھا جو ’’زنجیرئی‘‘ نامی کتاب کی صورت میں چھپ چکا ہے۔

خوش حال خان خٹک اور علامہ اقبال
علامہ اقبال نے خوش حال خان کی اس وصیت کو اپنی زبان میں یوں پیش کیا ہے:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اڑا کر نہ لائیں جہاں باد کو
مغل شاہ سواروں کی گرد سمند
اس طرح بہ زبان فارسی بھی علامہ اقبال نے خوش حال خان کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
خوش سروداں شاعر افغاں شناس
ہر چہ بیند باز گویدے ہراس
آں حکیم ملت افغانیاں
آں طبیب علت افغانیاں
راز قوے دیدوبے باکانہ گفت
حرف حق بازوخئی رندانہ گفت

خان بابا کے چند اشعار کا اردو نثری ترجمہ
نہ بہ زما غوندے بل ننگیالے راشی
نہ بہ زماغوندے بل جنگیالے راشی
عجم خوپریگدہ پہ درست افغان کے
عجب کہ ھسے فرھنگیالے راشی
(نہ میرا جیسا کوئی دوسرا غیرت مند، نہ جنگجو آئے گا، عجم توچھوڑو پوری افغان قوم میں شاید میرے جیسا عجیب دانا اور تہذیب یافتہ آئے)
٭ شیخ اور زاہد خفیہ طریقوں سے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں جب کہ میری خطا یہ ہے کہ میں صاف گو ہوں۔
٭ قسمت کے سود و زیاں کی پرواہ اس لیے نہیں کرتا کہ میرا وجود سرتاپا علم و ہنر ہے۔
٭ ملک میں رخنہ ڈالنے والے کو مت چھوڑیں ہرچند کہ ان کی سفارش کوئی شیخ یا ملا کیوں نہ کرے۔
٭ اگر افغان جاہل اور پست ہمت نہ ہوتے تو آج ہندوستان کی ساری دولت ان کی ہوتی۔
٭ جس کے کانوں تک میری تلوار کی جھنکار پہنچ چکی ہے اب وہ خواب میں بھی لرزتا ہوا چارپائی سے گر پڑتا ہے۔
٭ جو کنز، قدری پڑھ لے تو وہ عالم بن بیٹھتا ہے اور ہر حرام وحلال کو اپنے لیے جائز قرار دیتا ہے، لوگوں کو سخاوت کے فضائل بیان کرتا ہے اور اس آڑ میں اپنا گھر بھردیتا ہے اور دوسرے کا غارت کردیتا ہے۔
٭ اے جان من! حب وطن جز و ایمان ہے۔
٭ کہتے ہیں کہ آسمان تک پہنچنے کے لیے راستہ نہیں، میں اپنے ہنر وکمال سے یہ راستہ پیدا کرلوں گا۔
٭ بے ہنر آدمی کے قریب اس لیے مت جا کہ اس کی کوئی ہستی ہی نہیں ہوتی۔
٭ وہ باز نہیں جو کم زور چڑیوں پر جھپٹتا ہے۔
٭ بڑوں کی ہمت بلند ہونی چاہیے اور انہیں اپنے مرتبے کے مطابق کام کرنا چاہیے۔
٭ باشے کی نظر پدی کی دم پر جب کہ شہباز کی نظر مور کے تاج پر ہوتی ہے۔
٭ اے چیل! چوزوں پر جھپٹنے سے تم باز نہیں بن سکتے۔
٭ جس شخص میں شرم وغیرت، عقل اور ہنر نہ ہو اس کے مال، حسن اور ذات کو مت دیکھو۔
٭ چاہے کابل ہو کہ کشمیر، تلوار ہی کے مرہون منت ہے۔
٭ وہ بہادر نہیں جو پیٹھ پر وار کھائے۔
٭ مطلوب تک پہنچنا ضروری ہے، خواہ اس کے لیے پورا راستہ خون آلود ہی کیوں نہ ہو جائے۔

خان بابا پر مقالے
خان بابا کی زندگی، ادبی خدمات اور افکار پر تاحال ڈی لٹ کے معیار کا ایک، اور پی ایچ ڈی معیار کے دو مقالے لکھے گئے ہیں، ڈی لٹ کا مقالہ اولیت کے لحاظ سے پہلا مقالہ ہے جسے لاہور (پنجاب) کی خدیجہ فیروزالدین نامی خاتون نے شاعرمشرق علامہ اقبال کے کہنے پر لکھا، جس پر انہیں 13 دسمبر1940ء کو پنجاب یونی ورسٹی سے ڈی لٹ کی ڈگری دی گئی۔

خدیجہ خاتون مولوی فیروزالدین کی صاحب زادی تھیں، ان کے والد بنوں میں مدارس کے ضلعی افسر تھے۔ خدیجہ بیگم بنوں میں پیدا ہوئیں اور اپنی ابتدائی زندگی وہیں گزاری، انہوں نے 1928ء میں خوش حال خان پر اپنا تحقیقی کام شاعر مشرق علامہ اقبال کی تاکید پر شروع کیا تھا۔

علامہ اقبال خوش حال بابا کے ساتھ خصوصی عقیدت رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف اپنی کتاب ’’جاویدنامہ‘‘ اور ’’بال جبریل‘‘ میں خان بابا کے متعلق اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے بل کہ 1928ء میں خوش حال بابا کے بارے میں انگریزی زبان میں ایک مضمون بھی لکھا جو اسلامک کلچر حیدرآباد دکن میں چھپا تھا۔

دوسرا مقالہ افغانستان کے گل محمد نوروزی نے لکھا جس پر انہیں ماسکو یونی ورسٹی نے 1969 ء میں ڈاکٹریٹ کی سند دی۔ تیسرا مقالہ ڈاکٹر اقبال نسیم خٹک نے لکھا جس پر پشاور یونی ورسٹی نے جنوری1984ء کو انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی۔ اول اور دوئم دونوں مقالے خان بابا کی سوانح اور ادبی خدمات پر لکھے گیے ہیں۔

پہلے مقالے کی زبان انگریزی اور دوسرے کی روسی ہے جب کہ ڈاکٹر اقبال نسیم کا مقالہ ’’خوش حال او جمالیات‘‘ کے نام سے پشتو زبان میں لکھا گیا ہے۔ خان بابا کے فن اور شخصیت پر کام کرنے والوں میں چند ایک نام قابل ذکر ہیں جن میں دوست محمد خان کامل، میاں سیدرسول رسا، امیرحمزہ خان شنواری، میرعبدالصمد خان، قلندرمومند، پروفیسر پریشان خٹک، محمد نواز خٹک، ہمیش خلیل، رضاہمدانی، سرفرازعقاب خٹک، پروفیسر داورخان داود، ڈاکٹر راج ولی شاہ خٹک، ڈاکٹر یارمحمدمغموم، شیرافضل بریکوٹی، معصومہ عصمتی، تاشقند کے ڈاکٹرعثمان، سید انوارالحق، فارغ بخاری، ڈاکٹرمحمدزبیر حسرت اور انگریزمستشرقین میں میجر اورٹی، سی ای بڈلف، ہوویل ایوین، سرالف کیرو اور اوڈی میکنزی کے نام قابل ذکر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔