میٹھی غذاؤں سے اجتناب کیوں ممکن نہیں
جرمنی اور امریکا کے محققین نے تحقیق میں بتایا کہ زیادہ چکنائی اور مٹھاس والی غذاؤں کو فوقیت کیوں دی جاتی ہے
ایک تحقیق میں معلوم ہوا ہے کہ فرینچ فرائز، کرسپ اور چاکلیٹ بار کے زیادہ کھائے جانے کا تعلق قوتِ ارادی کم ہونے سے زیادہ دماغ سے ہے جس کی وجہ سے ہم زیادہ چکنائی اور مٹھاس والی غذاؤں کو فوقیت دیتے ہیں۔
جرمنی کے میکس پلانک اِنسٹیٹیوٹ اور امریکا کی ییل یونیورسٹی کے محققین کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر ہم مستقل بنیادوں پر اس قسم کے کھانے کھاتے رہیں چاہے چھوٹی مقدار میں کیوں نہ ہوں، ہمارا دماغ مستقبل میں ان ہی کھانوں کی طلب کرتاہے۔
تحقیق کی دوران محققین نے ایک گروپ کو آٹھ ہفتوں تک ان کی معمول کی غذا کے علاوہ تھوڑی مقدار میں زیادہ چینی اور چکنائی سے بنی پوڈنگ کھلائی۔
محققین کی جانب سے ایک دوسرے کنٹرول گروپ کو اتنی ہی کیلوریز پر مشتمل پوڈنگ کھلائی گئی لیکن اس میں چکنائی کم تھی۔ آٹھ ہفتوں پر مشتمل اس تحقیق کی شروعات سے قبل اور اس کے درمیان میں رضا کاروں کی دماغی کارکردگی کی پیمائش کی گئی۔
تحقیق کے مطابق صحت مند، درمیانے وزن کے شرکاء میں انٹروینشنل اسٹڈی(جس میں شرکاء پر کسی دوا، طبی آلے، سرگرمی یا عمل کا استعمال کیا جائے) کا استعمال کرتے ہوئے یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ چکنائی اور زیادہ چینی والی غذائیں وزن میں اضافے اور تحولی عوامل میں تبدیلی کے علاوہ کم چکنائی والے کھانے کی طلب میں کمی کر دیتی ہیں۔
یہ چیز دماغ کے انتہائی کثیف غذا کی طلب میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور نیورنل انکوڈنگ(ایک نظام جس میں نیورونز برقی سرگرمی کے ذریعے خلیوں تک پیغام رسانی کرتے ہیں) عمومی طور ہر اثر انداز ہوتی ہے۔
تحقیق میں معلوم ہوا کہ وہ گروپ جس کو زیادہ چکنائی اور مٹھاس والی پوڈنگ کھلائی گئی ان کے دماغ کے ردِ عمل میں بڑی حد تک اضافہ ہوا تھا۔ ان شرکاء میں اس غذا نے ڈوپیمِنرجک نظام کو فعال کر دیا تھا۔ یہ دماغ کا وہ حصہ ہوتا ہے جو تحرک اور بدلے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔