- انٹر کی داخلہ پالیسی تبدیل، داخلے میرٹ کے بجائے ضلعی بنیادوں پر ہوں گے
- پاکستان جونیئر ایشیا کپ کے فائنل میں پہنچ گیا، بھارت سے مقابلہ ہوگا
- کراچی: 9 مئی کے متاثرین کو نئی موٹرسائیکل لینے کیلیے مقدمہ درج کرانا ہوگا
- دراز قد کیلئے سرجری کرانے کے رجحان میں اضافہ
- حکومت کا پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 8 روپے کمی کا اعلان
- ٹک ٹاک کی بیوٹی ٹِپ نے خاتون کو اسپتال پہنچا دیا
- جن ججز کیخلاف ریفرنسز زیر التوا ہیں وہ میرٹ پر فیصلہ نہیں کرتے، پاکستان بار کونسل
- پیپلزپارٹی کسی کو مائنس کرنے کے حق میں نہیں اور مذاکرات کی حامی ہے، گیلانی
- جہانگیر ترین سے پی ٹی آئی کے 60 سے زائد اراکین اور رہنماؤں کے رابطے
- کچھ لوگوں کی انا اور ضد ملک سے بڑی ہوگئی ہے، چوہدری شجاعت
- واٹس ایپ اسٹیٹس پر اب وائس نوٹ بھی شیئر کیے جاسکیں گے!
- جنوبی پنجاب سے پی ٹی آئی کے سابق اراکین نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی
- ٹرینوں میں مسافروں کو نشہ آور چیزیں کھلا کر لوٹنے والا ملزم گرفتار
- اسٹیٹ بینک نے کریڈٹ کارڈز کی ادائیگیوں کے لیے ڈالر خریدنے کی اجازت دے دی
- افغانستان میں جنگی جرائم؛ آسٹریلوی فوجیوں کے شراب پینے پر پابندی عائد
- صحت کارڈ کا اجرا: بلوچستان کے شہریوں کو دس لاکھ روپے تک کے مفت علاج کی سہولت ہوگی
- پہاڑی سے پنیر کی لڑھکتی گیند پکڑنے کے مقابلے کا دوبارہ انعقاد
- عمران خان کو فوجی قوانین کے تحت سزا دے کر مثال بنانا چاہیے، سردار تنویرالیاس
- جنگ کا امکان؟ چین اور امریکا کے لڑاکا طیارے آمنے سامنے
- خاتون کی قابل اعتراض ویڈیو اور تصاویر شیئر کرنے والے ملزمان گرفتار
استعفا دے کر مُکر جانا، پاکستانی عوام کیساتھ مذاق ہورہا ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ

(فوٹو فائل)
اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے دوران اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ پہلے استعفا پھر مکر جانا،پاکستان کی عوام کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے؟۔
پاکستان تحریک انصاف کے سابق رکن اسمبلی شکور شاد کی استعفا منظوری کے خلاف درخواست کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے استعفا دیا، اس پر دستخط کیے تھے؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ جی ہمارے دستخط تھے لیکن وہ استعفا پارٹی دباؤ میں دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا دستخط بس ایسے ہی کیے گئے؟ کیا کوئی مذاق ہے یہ ؟۔ کیا ہو رہا ہے، آج آپ یہ کر رہے ہیں، کل آپ ملک کے لیے کیا کریں گے؟۔ آپ آرٹیکل 62 پر کیسے پورا اتریں گے ؟۔ آپ اپنے لوگوں اور ووٹرز کے امانت دار ہیں، آپ کیا کر رہے ہیں؟۔9 مارچ کا آرڈر تھا کہ آپ نے اپنے استعفے سے انکار کیا، وہ لیٹر ہے آپ کے پاس ؟۔
وکیل نے جواب دیا کہ 29 جولائی کو استعفا منظور ہوا، اس عدالت نے ستمبر میں فیصلہ معطل کیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ کے دستخط اصلی نہیں تھے؟، جس پر وکیل نے کہا دستخط تو اصلی تھے، مگر پارٹی پالیسی پر استعفا دیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ استعفے پر پارٹی پالیسی کے خلاف جانے سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ وہ تو منی بجٹ بل اور عدم اعتماد پر فرق پڑتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پارٹی پریشر پر استعفا دے دیا، آپ ملک کے لیے کیسے اسٹینڈ لے سکتے ہیں ؟۔پہلے استعفا، پھر مکر جانا،پاکستان کی عوام کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے؟۔کیا آپ سسٹم کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں،آپ سسٹم کو فن سمجھ رہے ہیں۔وکیل نے جواب میں کہا کہ ہم مانتے ہیں اصل اسٹیک ہولڈر عوام ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر مذاق بھی تو عوام ہی کے ساتھ ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسی طرح کی دیگر رِٹ پر بھی ابھی آنا ہے ہم نے کہ اس ملک میں کیا ہورہا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کو کہا کہ پارٹی پریشر پر استعفا دیا، مگر اسپیکر نے کہا کہ وہ جواب سے مطمئن نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اسپیکر نے ایسا کوئی لیٹر جاری کیا ہے؟چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ 3 مارچ 2023 کے لیٹر کو ریکارڈ پر لے کر آئیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارٹی لیڈر شپ نے آپ کو پریشرائز کیا، اس کے خلاف دعویٰ دائر کریں۔ رِٹ میں شہادتیں نہیں لے سکتا ۔ ہر چیز کو ہم نے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے، آپ نے پورے ملک کے لیے قانون سازی کرنی ہوتی ہے۔ اس پر کیا سب کو شاباش ملنی چاہیے؟ آپ قبول کریں کہ آپ نے غلط کیا ہے۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل اختر چھینہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی عدالت میں پیش ہوگئے۔ عدالت نے شکور شاد کے استعفے منظوری کا اسپیکر کا آرڈر طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 28 اپریل تک ملتوی کردی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس ایسے کیسز آجاتے ہیں اور اہم کیسز رہ جاتے ہیں۔قتل کی اپیلیں التوا میں ہیں اور ایسے کیسز آجاتے ہیں عدالت کا وقت ضائع کرنے ۔ وکیل نے کہا کہ ہم تو اس عدالت کے حکم پر عمل درآمد کروانے آئے ہیں جو اسپیکر نے مانا ہی نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی پر تنقید نہ کریں، پہلے اپنا کنڈکٹ درست کریں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔