ترکی وشام کے زلزلہ میں بھی ہارپ ٹیکنالوجی کی بازگشت

ڈاکٹر آصف چنڑ  اتوار 14 مئ 2023
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

یہ 6 فروری 2023ء کی صبح کی بات ہے، جب ریکٹر اسکیل پر 7.8 کی شدت کے زلزلہ نے ترکی اور ہمسایہ ملک شام کو برف باری اور سردی میں شدید متاثر کیا۔

امریکن جیولوجیکل سوسائٹی اور ترک ڈیزاسٹر اینڈ ایمرجنسی مینجمنٹ اتھارٹی (اے ایف اے ڈی) کے مطابق زلزلے کا مرکز علاقے کے جنوب وسطی حصے میں پایا گیا۔ اس زلزلے سے ترکی کے دس شہر بری طرح متاثر ہوئے ہیں، جس پر ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے 7 روزہ سوگ کا اعلان کیا اور ساتھ ہی 3 ماہ کے لیے قومی ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا۔

اس شدید نوعیت کے زلزلے نے 1700 سے زائد عمارتوں کو مکمل طور پر مسمار کر دیا۔ اس بڑے جھٹکے کے بعد 9 گھنٹوں کے بعد 7.5 شدت کا ایک اور جھٹکا لگا جس کے نتیجے میں مزید نقصان ہوا اور نامکمل طور پر تباہ شدہ عمارتیں موم کی طرح منہدم ہوگئیں۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہ تاریخ کے بدترین زلزلوں میں سے ایک ہے، جس میں اب تک 59ہزار سے زائد افراد ہلاک اور ایک لاکھ 35ہزار سے زائد زخمی جبکہ کئی ملین افراد بے گھر ہوئے۔ زلزلے کے درمیان ہی ایک بار پھر ایک سازشی تھیوری کی بازگشت سنائی دی گئی کہ زلزلے کے پیچھے امریکی ایجاد کردہ جدید و انوکھی ہارپ (HAARP)ٹیکنالوجی ہے۔

ہارپ (HAARP)سے مراد ہائپر ایکٹو ایکوسٹک ریسرچ پروگرام ہے جو امریکہ کی ریاست الاسکا میں 1993ء میں امریکی فضائیہ، بحریہ اور متعلقہ ایجنسیوں کی مالی اعانت سے شروع کیا گیا تھا۔ اسے بہتر مواصلات، نیوی گیشن اور سکیورٹی مقاصد کے لیے لانچ کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ دشمن کی نقل وحرکت پر نظر رکھنا اس کے مقاصد میں شامل تھے۔ یہ پروگرام 2014ء میں مکمل ہوا اور بعد میں 2015ء میں اسے الاسکا یونیورسٹی کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ہارپ ٹیکنالوجی کی برقی مقناطیسی لہروں کو مقامی موسم اور آب و ہوا کی تبدیلیوں کو لانے کے لئے دنیا کے کسی بھی ملک کے آئنواسفیئر یا کرہ ارض کے اردگرد ایک غلافIonosphere پر مرکوز کیا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ ان لہروں کو فضا یعنی آئنواسفیئر سے واپس منعکس کرکے زمین کی گہری ٹیکٹونک پلیٹوں میں داخل کیا جا سکتا ہے، جو ان میں ارتعاش کا باعث بنتی ہیں اور اس طرح بڑے پیمانے پر زلزلے اور سمندروں میں سونامی کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ ترکی میں آنے والے موجودہ شدید زلزلے کے بارے میں قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ہارپ ٹیکنالوجی ممکنہ طور پر زمینی توازن میں خلل ڈال سکتی ہے، زمین کے برقی مقناطیسی میدان خاص طور پر بیرونی آئنوسفیئرکی پرت میں آئینز کی سرگرمیوں میں اضافہ کرتی ہے اور یہاں تک کہ اس میں سوراخ کا سبب بن سکتی ہے، لہذا یہ بیک وقت اوزون کی کمی جیسی خطرناک صورت حال سے بھی ذیادہ مہلک ثابت ہو سکتی ہے، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر سونامی، سیلاب، زلزلے، خشک سالی اور شدید موسمی حالات وغیرہ پیدا ہوسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ اس کی برقی مقناطیسی لہریں کسی بھی علاقے میں تعینات فوجی دستوں کے دماغ کو متاثر کرتی ہیں جس سے ذہنی الجھن،کنفیوژن اور تناو پیدا ہوتے ہیں اور وہ بروقت، درست اور مناسب فیصلے کرنے کی صلاحیت سے قاصر ہوجاتے ہیں۔

ایک اور منفی اثر پرندوں اور جانوروں کے بایو سینسرز پر ہے جو خاص طور پر ان کی حرکات و سکنات کو درست سمت میں رکھتے ہیں، بھی متاثر کرتے ہیں اور ان کی حیات بھی اس سے متاثر ہوتی ہے۔

ترکی میں اس غیر معمولی زلزلے کے بارے میں قیاس آرائیاں تقویت پکڑتی جا رہی ہیں کہ اسے قدرتی آفت کے بجائے ایک سوچی سمجھی انسانی یا تکنیکی آفت اور دہشت گردی قرار دیا جائے کیونکہ بہت سے سائنسدان اس پر گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔

خاص کرترکی میں بہت سے لوگوں نے زلزلے سے پہلے آسمان پر بجلی کی ایک واضح جھلک دیکھی ہے جس کی کچھ ویڈیوز بھی وائرل ہوئی ہیں۔

زلزلے کے اوقات کار اور ملک و خطے کی جغرافیائی سیاسی صورتحال کی وجہ سے بھی شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں کیونکہ ہالینڈکے کچھ تھنک ٹینکس 3 فروری 2023 سے خطے میں ان بڑے واقعات کی پیش گوئی کر رہے تھے اور ان کے مطابق اگلے مرحلے میں چین، پاکستان، ایران، افغانستان، نیپال بھی ان زلزلوں سے متاثر ہوسکتے ہیں اور یہ ایک پریشان کن معاملہ ہے لہذا انہیں ہر طرح سے تیار رہنے کی تنبیہ کی جاتی ہے۔

اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مذکورہ زلزلے نے خطے کے دیگر ممالک شام، اردن، لبنان، قبرص کو متاثر کیا جیسے کہ زلزلے عام طورے پرایک خطے کے کئی ہمسایہ ممالک پر اثر انداز ہوتے ہیں لیکن حیران کن طور پراس نے اسرائیل کی سرحدوں کونہیں چھوا اور اسرائیل اس کی زد سے کیوں مکمل طور پرمحفوظ رہا ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔

علاوہ ازیں روس اور یوکرین کے درمیان تقریبا ایک سال سے جاری جنگ کے باوجود دنیا کی جانب سے مذمت اور روس پر پابندیاں عائد نہیں ہو رہیں اور امریکہ نے نیٹو کی سر پرستی کرتے ہوئے خطے میں اپنی بالادستی اور گرفت برقرار رکھی ہوئی ہے اورمبصرین کے مطابق امریکہ نے اس موجودگی کانا جائز فائدہ اٹھایاہے اور وہ اسے اس زلز لے و تباہی کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ ہارپ ٹیکنالوجی اس کی پاس ہے اور قریب سے اس کا استعمال ذیادہ آسان اور موثر ہے۔

ساتھ ہی یہ روس کے لیے بھی ایک اشارہ یا وارنگ بھی ہو سکتی ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ ترکی ان چند مسلم ممالک میں شامل ہے جو مسلم اتحاد کے حامی ہیں اور طیب اردوان دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی آواز ہے۔

ان کا امریکہ مخالف اور مسلم نواز نظریہ بالکل واضح ہے اور امریکہ اور مغرب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔جو امریکہ اور یورپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ مزید برآں ترکی میں اگلے عام انتخابات مقررہ وقت سے ایک ماہ قبل 14 مئی 2023 ء کو ہونے والے ہیں اور طیب اردوان کا گزشتہ دو دہائیوں سے ملک میں مضبوط سیاسی کرداررہا ہے اور وہ ایک بار پھر صدر منتخب ہو سکتے ہیں۔

لہذا یہ ترکی میں حکومت کی تبدیلی پر اثر انداز ہونے کا صحیح وقت ہو سکتا ہے کیونکہ امریکہ کو دنیا میں سماجی، اقتصادی اور سیاسی جوڑ توڑ کے ذریعے حکومتوں کو گرانے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے لیکن اس بار اس پر مشتبہ ہارپ ٹیکنالوجی کے ذریعے ترک سیاست پر اثر انداز ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

مزید برآں ایک غیر مستحکم ترکی، کمزورمسلم اتحاد کی حامی نئی قیادت ان طاغوتی سامراجی اور استحصالی قوتوں کے وسیع تر مفاد میں ہو سکتا ہے۔ ایک اور خاص بات جو اس زلزلے کی قیاس آرائیوں سے جڑی ہے کہ زلزلے کے دوران امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے سفارت کار اس خطے میں موجود نہیں تھے اور نہ ہی کوئی سفارت کار اس میں متاثر ہوا ہے۔

ایک تکنیکی نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ زلزلوں کے آفٹر شاکس صرف انہں فالٹ زون میں آتے ہیں جن فالٹ زونز میں پہلا زلزلہ آتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر تمام آفٹر شاکس خطے کے نئے فالٹ زونز میں آئے جو تکنیکی بنیادوں پرممکن نہیں ہوسکتے اور اس زلزلہ کو متنازع بناتے ہیں۔

یہ بات بھی بڑی تشویش کے ساتھ نوٹ کی گئی ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران دنیا بھر میں تمام قدرتی آفات شدت اور مدت کے لحاظ سے بڑھ رہی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ قدرتی طور پر نہیں بلکہ موسم اورآب و ہوا کے کنٹرول یا تبدیلی کے ذریعہ رونما ہو رہی ہیں، مثال کے طور پر2010ء میں ہیٹی کا زلزلہ،چلی کازلزلہ اور سونامی، 2011 ء میں جاپان کا زلزلہ اور سونامی، 2006 ء میں فلپائن میں بڑے پیمانے پر سونامی، 2010ء اور 2023ء میں پاکستان میں آنے والے سیلاب بھی مشکوک اور متنازع ہو چکے ہیں۔

اس حوالے سے ایران کے سابق وزیر اعظم محمود احمدی اور وینزویلا کے صدر ہوگو شاویز نے پہلے ہی واضح طور پر ان آفات اور مستقبل میں سنگین نتائج کے لئے ہارپ ٹیکنالوجی کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ اس کے علاوہ یہ زلزلہ مستقبل میں کسی بھی ملک یا خطے کے خلاف ممکنہ طور پر بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی ہارپ ٹیکنالوجی کا ایک تازہ عملی مظاہرہ ،نمونہ یا نیٹ پریکٹس ہوسکتی ہے بلکہ چین، ایران، پاکستان، افغانستان وغیرہ کے لئے ایک پوشیدہ لیکن خود وضاحتی پیغام اور آنکھیں کھولنے یا بیدار ہونے والا والا بھی ہے۔

دنیاکو ان مشترکہ واقعات کی گہری جانچ و تحقیق کی اشد ضرورت ہے۔ ابھی ترکیہ اور شام میں آنے والے بدترین زلزلے کی تباہی کو چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ 21مارچ 2023ء کو پاکستان اور افغانستان میں ریکٹر سکیل پر6.8کی شدت کا زلزلہ آیا جس سے تقریباً38افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے اس کے ساتھ ساتھ تقریبا100 سے زیادہ عمارتوں کو نقصان پہنچا ۔

امریکن جیولوجیکل سروے کے مطابق زلزلے کا مرکز افغانستان کے قصبے جرم سے 40کلومیٹر جنوب مشرق میں پاکستان اور تاجکستان کی سرحدوں کے قریب تھا۔ یورپین میڈی ٹرینین سیزمولوجیکل سنٹر کے مطابق زلزلے کو پاکستان ،ازبکستان ،تاجکستان ،قازقستان،کرغستان ،افغانستان، ترکمانستان اور چین کے تقریباً 285ملین افراد نے ہزار کلومیٹر کے علاقوں تک محسوس کیا۔

اس زلزلے کے فوراً ہی بعد افغانستان کے علاقے کوہ ہندوکش کے مرکز سے ریکٹر سکیل کے مطابق 3.7 شدت کے آفٹر شاک محسوس کیے گئے ۔اس کے ساتھ ساتھ ضلع سوات میں لینڈ سلائڈنگ کے واقعات بھی منظر عام پر آئے ۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ زلزلے پاکستان کے تقریباً تمام شہروں میں محسوس کیے گئے۔

زلزلے بنیادی طور پر زمین کے ارتعاش کا نام ہے جوکہ زمین کے اندر پائے جانے والی قدرتی پلیٹیوں کی اچانک غیر معمولی حرکات کی وجہ سے پیش آتے ہیں، زلزلے معمولی نوعیت سے لے کر شدید نوعیت کے ہو سکتے ہیں اور بعض اوقات اتنے خفیف ہوتے ہیں کہ عام آدمی کو اس کو پتہ ہی نہیں چلتا، زلزلے کی سٹڈی کو(seismology) سیزمالوجی کہتے ہیں اس سٹڈی میں زلزلے کی وجوہات شدت ، دورانیہ اور اقساموغیرہ کو جانچا جاتا ہے زلزلے کی شدت کو ریکٹر سکیل سے ناپا جاتا ہے جو چارلس فانسس ریکٹر (Charles Fancis Riciter) نامی شخص نے 1935 میں ایجاد کیا۔ اگر زلزلے کی شدت 5 یا 5 سے زیادہ ہو تو پھر زلزلہ تباہی پھیلا سکتا ہے۔

عام طور پر ایک بڑے زلزلے کے آنے سے پہلے چھوٹا زلزلہ آتا ہے جس کو Mini Shock منی شاک یا فار شاک کہتے ہیں اس کے بعد بڑا زلزلہ آتا ہے جو کہ بڑی تباہی پھیلاتا ہے اس کے بعد Aftershockآفٹر شاک کا زلزلہ آتا ہے جو کہ بڑے زلزلے کے بعد نمودار ہوتا ہے، آفٹر شاک اسی علا قے میں وقوع پذیر ہوتا ہے لیکن شدت میں بڑے زلزلے سے کم ہوتا ہے اور یہ زلزلے کے بعد زمین کے اندر پائے جانے والی پلیٹوں کی ری ایڈجسٹمنٹ کی صورت میں ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہارپ ٹیکنالوجی دنیا کے کسی بھی خطے کے موسم ،آب و ہوا کو کنٹرول کرنے اور تبدیل کرنے کا ایک بہترین آلہ ہے جس سے ممالک کی سیاسی،سماجی، اقتصادی اور جغرافیائی جہت کو قابو کیا جاسکتا ہے لہذا یہ بڑے پیمانے پر تباہی کا زیادہ طاقتور ہتھیار (ڈبلیو ایم ڈی) ہوسکتا ہے۔یہ ففتھ جنریشن اور سائبر وار فیئر سے زیادہ مہلک ہے، لہٰذا اس ایشو پر دنیا کو یک زبان ہونے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔