ملک کا جمہوری مستقبل

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 26 مئ 2023
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کو دنیا میں ایک عوامی جمہوری ملک کے طور پر متعارف کروایا تھا لیکن ہمارے موقع پرست سیاست دانوں اور بیوروکریسی نے بہت جلد قائد اعظم محمد علی جناح کی متعارف کردہ جمہوریت کو نظر اندازکر دیااورمن مرضی کرتے رہے۔

اس کے بعد کی پاکستان میں جمہوریت مختلف راہوں سے گزرتی ہوئی اب موجودہ صورتحال پر آ کر رکتی ہے‘اس کی اب جو حالت ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

جمہوریت خواہ کسی پیراہن میں ہو جب تک اس میں عوام کی بالادستی نہ ہو، کسی حوالے سے بھی اسے جمہوریت نہیں کہا جاسکتا۔ جمہوری نظام کا مطلب ہی عوام کی حکمرانی ہوتا ہے۔ دنیا کے مہذب ملکوں میں ایسی ہی جمہوریت کا چلن ہے۔

پاکستان کو بنے 75 سال ہوچکے،قیام پاکستان کی تحریک بھی سیاسی اور جمہوری بنیادوں پر استوار تھی ‘بانیان پاکستان نے کبھی غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے اور نہ ہی اپنے کارکنوں کو قانون ہاتھ میں لینے کی تلقین کی۔

قائداعظم اور ان کے ساتھیوں نے مسلح جدوجہد کی ہر فورم پر مخالفت کی ‘ آزادی کی جدوجہد کو سیاسی اور جمہوری انداز میں آگے بڑھایا ‘ انگریز حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بھی بیٹھے اور اپنے مطالبات سے بھی پیچھے نہیں ہٹے ‘ اسی طرح آل انڈیا کانگریس کے لیڈروں کے ساتھ بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھے لیکن یہاں بھی اپنے ایجنڈے سے پیچھے نہیں ہٹے ‘اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پر امن انداز میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ وطن حاصل کرنے میں سرخرو ہو گئے۔

قیام پاکستان کے بعد انھوں نے اپنی پہلی تقریر میں بھی سب پر واضح کر دیا تھا کہ یہ ایک عوامی جمہوری ملک ہو گا۔ لیکن بدقسمتی سے ابھی تک پاکستان میں جمہوریت کا پودا جڑ نہ پکڑ سکا۔ عوام کی رائے بنیادی اصول کی طرح قبول نہیں کی جاتی۔ آئے دن کسی نہ کسی حوالے یا بہانے سے طالع آزماؤں نے جمہوریت کے نام پر ایسے ایسے نظام متعارف کرائے کہ اصل جمہوریت پتا نہیں کدھر چلی گئی۔

قائداعظم کی رحلت کے بعد اقتدار کی رسہ کشی شروع ہو گئی ‘ سیاسی قیادت اپنے اپنے مفادات کے طابع ہو کر فیصلے کرنے لگی ‘ ایک دوسرے کی کھینچنے کا عمل شروع ہوا اور اس کا فائدہ بیوروکریسی نے اٹھایا اور غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا‘ پھر سکندر مرزا سے ہوتا ہوا ایوب خان کی آمریت کا دور شروع ہوا ۔اس طرح جمہوری بنیادوں پر قائم ہونے والا ملک اپنے قیام کے چند برسوں کے اندر اندر آمریت کے شکنجے میں چلا گیا۔

جمہوریت کی بنیاد عوام کی اکثریت سے ہوتی ہے، ہماری جمہوریتوں میں عوام کو جمہوریت پر چلنے کا پانچ سال میں ایک بار موقعہ ملتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا؟ اس حوالے سے سب سے زیادہ قصور وار ہماری اشرافیہ ہے جس نے عوام کے ذہنوں میں جمہوریت کا پودا لگایا ہی نہیں۔ ایک آیا 10 سال تک اپنی مرضی کی جمہوریت چلاتا رہا، دوسرا آیا، اس نے اپنی من مانی جمہوریت عوام کے سروں پر منڈھتا گیا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان جمہوریت کا مربہ بن کر رہ گیا، اگر اسے ہم چوں چوں کا مربہ کہیں تو زیادہ مناسب ہے۔

ہمارے ملک کی آبادی لگ بھگ چوبیس کروڑ ہے۔ اس کی اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے جہاں کا نظام ابھی تک سو سال پرانا ہے۔

ہماری سیاسی جماعتیں اس ایک بات کو بنیاد بنا سکی کہ ووٹ کا حق عوام کے لازمی حق ہے اگر صرف ووٹ کے حق کو عوام اپنی بنیادی سیاسی ضرورت کو مان لیں تو مسائل خود بخود حل ہوتے چلے جائیں گے ۔ آئیں، بائیں، شائیں کا نام اگر جمہوریت ہے تو ہمارے ملک کا بہت بڑا حصہ جمہوریت کے ثمرات سے محروم ہے۔

بے چارے عوام نہ ادھر کے رہے، نہ ادھر کے خدا کا شکر ہے جو جمہوریت لائی گئی ہے وہ اس قدر توانا ہے کہ ساری جمہوری پارٹیاں مل کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔

پاکستان، قائد اعظم نے بنایا تھا اور بڑی امیدوں سے پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد ڈالی تھی۔ اصل میں بے چارے عوام اس حوالے سے کسی طرح کے الزام اپنے سر نہیں لے سکتے کیونکہ ہمارے ملک میں جمہوریت ہمیشہ عوام کے سروں کے اوپر سے گزرتی رہی۔ مشکل یہ ہے کہ جمہوریت کو متعارف کرانے والا عوام کے سروں پر لانے والا خود جمہوریت کے معنوں سے واقف نہیں، بدقسمتی سے نام نہاد جمہوریت آدھے سے زیادہ حصہ فوجی حکومتوں کے زیر سایہ رہا۔ پاکستان کی تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لیاقت علی خان کے بعد ملک میں جو جمہوریت نافذ کی گئی وہ جاگیرداروں اور ان کے طبقاتی ساتھیوں کی عطا کردہ تھی۔

یہ جمہوریت آج تک کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہمارے حکمران جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے رات دن محنت کر رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کم ازکم اس صدی میں عوام جمہوریت کے فوائد سے بہرہ ور ہوں گے۔ دنیا کے اور ملکوں میں جمہوری حکومتیں کام کر رہی ہیں جہاں عوام میں شعور ہے اور جو عوام ووٹ کی اہمیت سے واقف ہیں، وہاں جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہیں ۔

بلاشبہ جو لوگ ملک میں جمہوریت کے لیے کوشاں ہیں یقینا وہ کامیاب رہیں گے۔ پاکستان ایک پسماندہ ملک ہے اندرونی اور بیرونی بھاری قرضوں میں جکڑا ہوا ہے ہماری موجودہ حکومت بڑی حد تک جمہوریت کے لیے سرگرم ہے اور امید ہے کہ آخر ایک نہ ایک دن وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جائے گی۔

بے چارے عوام ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں کسی طرح کوئی سر پھرا ایسا آئے جو ان ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک مضبوط جمہوریت کی بنیاد رکھے۔ یہ بڑا طویل سلسلہ ہے، جن عذابوں سے ہم عوام گزر رہے ہیں، اس کا واحد حل جمہوری نظام میں مضمر ہے، ہمارے ملک میں بھی جمہوری ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں، بات صرف خلوص نیت کی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔