سیاست کی گلکاریاں

وارث رضا  اتوار 24 ستمبر 2023
Warza10@hotmail.com

[email protected]

ہمارے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال دن بدن دلچسپ مرحلے میں داخل ہو رہی ہے، جس میں جہاں عوام اور تجزیہ کاروں کے لیے سیاست کے نئے زاویے اور حیرانیاں سامنے آ رہی ہیں، وہیں سیاست کی گتھی کہیں الجھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے توکہیں سیاست کے بدلتے ہوئے پہلو سیاسی شعور و ادراک کے لیے چیلنج ثابت ہو رہے ہیں اور سیاسی پیش بندی کرنیوالے صحافی اور تجزیہ کار دورکی کوڑی لانے میں اپنے طور سے جتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

سیاسی صورتحال کے تناظر میں آج کل تین اہم خبریں یا اقدامات پر سب کی نظریں مرکوز ہیں، جن میں پہلا سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں نیب کے مقدمات کی ازسر نو کارروائی یا زیر التوا مقدمات کا کھلنا ہے، دوسرا لاہور کے ن لیگی کنونشن میں ن لیگ کے قائد نوازشریف کی جانب سے سپریم کورٹ کیسابق چیف جسٹسز کے خلاف ممکنہ کارروائی کے مطالبے اور خدشات کے تناظر میں نواز شریف کے نئے بیانیے کی بازگشت اور لندن سے آنیوالے شہباز شریف کی فوری طلبی ایک معمہ بنی ہوئی ہے وہیں 28 ستمبر کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فروری 2019 کے دھرنا کیس کی نظر ثانی کی درخواستوں کا دو سال بعد کارروائی کا مقرر ہونا بھی عدالتی انصاف اور تبدیلی کا امتحان گردانا جا رہاہے۔

پارلیمینٹ کی جانب سے نیب ترمیمی بل کے خلاف تحریک انصاف کے چیئرمین کی جانب سے دائر درخواست پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ترمیم شدہ بل پر 19سماعتوں کے بعد پارلیمان کی جانب سے کی گئی ترامیم کو خلاف ضابطہ قرار دیتے ہوئے اسے ایک دو کی اکثریت سے رد کردیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن نے فیصلے میں لکھا کہ ’’ ترمیم شدہ بل نیب قوانین سے متصادم ہے جب کہ مذکورہ بل میں نیب کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کے ذکر سے عدالت مطمئن نہیں بلکہ عدالت کی نظر میں نیب آرڈیننس میں کسی بھی طرح ’’ انسانی حقوق‘‘ پامال نہیں کیے جا رہے، لہٰذا عدالت فروری 2022 کی سابقہ پوزیشن پر نیب کو تمام انکوائریز پر عمل درآمد کی سفارش کرتی ہے اور عدالت متعلقہ ادارے کو ہدایات دیتی ہے کہ وہ سات روز میں تمام سابقہ تحقیقات پر عمل درآمد کروائے تاکہ بدعنوانی کے مرتکب افراد کو قانون کے مطابق سزائیں دی جا سکیں‘‘، جب کہ بنچ کے تیسرے جج جسٹس منصور علی شاہ نے دو فاضل ججز سے اختلاف کرتے ہوئے اس بات پر حیرانی کا اظہار کیا کہ درخواست گذار نے بدعنوانی میں ملوث افراد یا کمپنیوں کے احتساب کرنے کی کوئی بات یا ذکر کیوں نہیں کیا جو پاکستان کے کثیر سرمائے کو غبن کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں، جب کہ نیب بلاجواز سیاسی اورکاروباری حضرات کو ڈرا دھمکا کر انتخابی بلیک میلنگ کا ادارہ ثابت ہوا ہے جو آئین میں دیے گئے ’’انسانی حقوق‘‘ کے متعدد کیسز میں صریح خلاف ورزی کا مرتکب ہوا ہے جس پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے اعتراضات فیصلوں میں درج ہیں، جب کہ یہ آرڈیننس آمر مشرف سیاسی جوڑ توڑ کے لیے لائے، جس سے ملک کی سیاسی اور جمہوری روایتوں کی دھجیاں اڑائی گئیں۔‘‘

قطع نظر اس کے کہ جہاں نیب میں بند ہونے والے مقدمات کھلنے کا عندیہ دیا جا رہا ہے، وہیں ن لیگ کے قائد نوازشریف کے بیانیے کی سختی کو بھی دیکھا جا رہا ہے،جس سے اس اظہار کو سمجھنے میں مشکل نہیں کہ نوازشریف ذاتی طور سے اداروں پر مکمل اعتبار پر خدشات کا شکار ہیں، بداعتمادی کی یہی وہ فضا ہے جس نے دوبارہ ن لیگ کی قیادت کو سر جوڑنے پر مجبورکیا ہے، اہم سوال یہ ہے کہ نوازشریف، شہباز شریف کی یقین دہانیوں پر واقعی اعتبار کرلیں گے؟ یا دیگر ہمسایہ ممالک سے’’ لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ کی مزید یقین دہانیوں کے بعد اکتوبر میں وطن واپس ہونگے؟

میرا جولائی سے یہ کہنا ہے کہ نواز شریف اداروں پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں، سو امکانی طور پر جب تک’’ بے اعتباری کے اس اونٹ‘‘ پر طاقتور ممالک حتمی مہر ثبت نہیں لگا دیں گے، اس وقت تک نوازشریف کا آناممکن نظر نہیں آتا۔ نواز شریف کے تازہ بیانیے اور احتساب کے نعرے کی گونج سیاسی فضا میں ان کے سیاسی مستقبل کو دوبارہ سے طاقتورکرنے کی جانب امکانی طور سے نظر آرہی ہے، وہیں گوجرانوالہ کے جلسے میں نوازشریف کی تقریر نے پی ڈی ایم کا حصہ رہنے والی پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کو اتحاد سے نکلنے پر مجبور کیا تھا سو، اس کے دوبارہ سے اثرات آنے والی سیاسی ہلچل میں نظر آنے کی صورت میں پیپلز پارٹی کو اپنا ’’ سیاسی بیانیہ‘‘ بنانے میں مشکل پیش آرہی ہے اور اب بھی ’’ اسٹبلشمنٹ ‘‘ کے لیے قابل قبول ہونے کا عندیہ دیتی ہوئی پیپلز پارٹی مصالحانہ کردار ادا کرتے ہوئے ’’ لیول پلیئنگ فیلڈ‘‘ دینے کا مضحکہ خیز مطالبہ ن لیگ سے کرتی نظر آرہی ہے۔

پیپلز پارٹی اپنے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ کے مطالبے میں نہایت چابکدستی سے ن لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعت قرار دینے پر جتی ہوئی ہے، جو پی پی کی سیاسی کمزوری کے علاوہ کچھ نہیں، جب کہ دوسری جانب وہ ممکنہ اتحاد کے حوالے سے حتیٰ کہ تحریک انصاف کے ساتھ بھی جانے کے عندیے کو تقویت دے رہی ہے، جس کا تجزیاتی جائزہ سوائے اس کہ کچھ نہیں نکلتا کہ پیپلز پارٹی مذکورہ ممکنہ اتحاد اور دیگر جماعتوں سے ملاقات کرکے ’’ اسٹبلشمنٹ‘‘ اور نوازشریف کو اپنی سیاسی اہمیت کو تسلیم کرنے کا پیغام دے رہی ہے، جو کسی طور سیاسی نکتہ نگاہ سے بہترین چال نہیں بلکہ پیپلز پارٹی موجودہ حالات میںسیاسی شہہ اور مات سے بچنے کی کوشش میں مصروف ہے۔

سابقہ چیف جسٹس کے بعد نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے عہدے کا حلف لینے کے چند ایام بعد ہی سے عوام اور اہل سیاست کے علاوہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ایک مثبت فرد سمجھے جا رہے ہیں کہ جنھوں نے حلف والے روز عورت کے مساویانہ حق کے تسلیم کرنے میں سرینا عیسیٰ کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے ایک خوشگوار پیغام دیا،وہیں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پارلیمان کی جانب سے اعلیٰ عدالت کو اختیارات دینے کے ضمن میں سابقہ چیف جسٹس کی جانب سے معطل شدہ قانون ’’ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ‘‘ کی پہلی ہی سماعت میں تمام ججز کو یکجا کر کے فل کورٹ بنچ بنایا اور پوری دنیا میں براہ راست اعلیٰ عدلیہ کی کارروائی دکھانے کا ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا،جس کو جہاں عوامی سطح پر پذیرائی ملی وہیں ، اسی کے ساتھ مستقبل میں اعلیٰ عدلیہ کے التوا شدہ کیسوں کو نمٹانے کے طریقہ کار پر متعلقہ تنظیموں سے مشاورت کے سلسلے کی ایک مثبت ابتدا کی گئی، جس سے انصاف کی جلد فراہمی کی امید پیدا ہونے کے امکان کو تقویت ملی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔