کلیاتِ ’’سراج الدین ظفر‘‘ فن و شخصیت کے آئینے میں

صدام ساگر  اتوار 1 اکتوبر 2023

ہمارے دوش پہ کِھلتی تو تیری زلف سے ہم
نسیمِ صبح کے لہجے میں گفتگو کرتے

دنیا میں بہت سے انسان ہیں مگر ان میںسیکڑوں شاعر اور ادیب ہیں، جو اپنی قومی، فکری، معاشی، سماجی، سیاسی، نفسیاتی اور شعوری مشاہدات و روز مرہ زندگی کے تجربات کو صفحہ قرطاس کی زینت بنانے میں مگن ہیں،کیوں کہ ہر انسان شاعری نہیں کر سکتا، شاعری ودیعت الٰہی ہے، شاعر اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے، وہ اپنے اردگرد کے ماحول کو لکھتا ہے،وہ اپنی شاعری میں فکری آگہی پیدا کرتا ہے اور ہر لمحہ تغیر پذیر زندگی کے نئے زاویے، معاشرتی، سماجی، سیاسی، فکری و شعوری تجربات و مشاہدات کے ساتھ اپنے منفرد اسلوب اور چنیدہ استعارات و تشبیہات کے ساتھ لا محدود ماورائی خیالات کی کائنات کو سنوارتا ہے، وہ غم جاناں اور غم دوراں کا تذکرہ بھی کرتا ہے، اس کے علاوہ وہ شاعر ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔

بیسوی صدی کے ممتاز غزل گو شعرا میں سراج الدین ظفر کا شمار بھی ہوتا ہے۔جن کے شاعرانہ اسلوب میں فارسی لب و لہجہ ان کی شاعری کے انگ انگ میں چہکتا اور بولتا ہے اور یہ لب و لہجہ برصغیر کے ادب میں سب سے مہذب سمجھا جانے والا ہے ۔ان کا پیدائشی نام سراج الدین ہے جب کہ وہ تخلص ’’ظفر‘‘ لکھنا پسند کرتے، وہ میاں عبدالقادر کے ہاں ۲۱۹۱ء میں جہلم پیدا ہُوئے۔ ان کا تعلق ایک علمی وا دبی خانوادے سے ہیں، انھیں ادب سے محبت ورثے میں ملی۔شخصی خوبیاں انھیں اپنے والد کے خاندان سے ملی۔

سراج الدین ظفر ؔ نے جس ماں کے بطن سے جنم لیا اُ س کی وجہ شہرت افسانہ نگاری اور ادب سے بے پناہ محبت تھی۔ ان کی والدہ زینب ادبی حلقوں میں مسز عبدالقادر کے نام سے اپنی پہچان رکھتی تھی۔ان کے نانا مولوی فقیر محمد ایک فاضل دیوبند اور متعدد اسلامی کتب کے مصنف تھے، یوں ان کو علم وادب سے دلچسپی ننھیال سے ودیعت ہوئی۔جہلم کا پہلا اخبار بھی مولوی فقیر محمد نے اپنے کم سن بیٹے محمد سراج الدین کے نام پر ۵ جنوری ۵۸۸۱ء کو جہلم سے پہلا ہفتہ وار اخبار’’سراج الاخبار‘‘ جاری کیا۔جسے اُس وقت کا سب سے مقبول ترین اخبار سمجھا جاتا تھا۔

سراج الدین ظفر نے شاعری کا آغاز ۰۳۹۱ء سے کیا اور ا بتدا میں نظم گوئی کی طرف متوجہ رہے۔ انھوں نے غزل، مثنوی، رباعی اور قطعات میں طبع آزمائی کی،مگر بعد میں انھوں نے غزل گوئی میں اپنی صلاحیتیں صرف کیں اور نامور غزل گو کی حیثیت سے اردو غزل کی روایت کو فروغ دیا۔ان کا کلام زبان و بیان کی خوبیوں سے مزین ہے۔ انھوں نے ابتدائی کلام میں ہندوستانی فضا اور لفظیات کا استعمال کیا تاہم وقت کے ساتھ ساتھ فارسی اور اردو سے ان کی وابستگی بڑھتی گئی۔

بقول شمیم احمد کہ’’سراج الدین ظفرؔ موجودہ اردو شاعروں میں وہ واحد شاعر ہیں جو اپنی شاعری کی اس خصوصیت اور مزاج سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری تمام و کمال عجمی مزاج و لب و لہجہ کی شاعری ہے اور یہی وجہ ہے کہ ظفرؔکی شاعری کان میں پڑتے ہی بول اٹھتی ہے کہ میں اس دور کے ’’اپنے رنگ‘‘ کے واحد شاعر کی آواز ہوں۔ جس کی پہچان اس لیے آسان ہے کہ اس کی علامتیں، کردار، مقامات اور الفاظ سب عجمی روح کے غماز ہیں لیکن اس کو جس سلیقے سے ظفرؔ استعمال کرتے ہیں وہی ان کے فن کا اعتبار اور اعتماد قائم کرتا ہے۔ ان کی خوش ذوقی جمالیاتی حیات اور تخلیقی طباعی سب ظفرؔ کی اہلیت، ذوقِ نظر اور عربی عجمی مزاج سے کامل ہم آہنگی اور قطعیت کی ولالت کرتے ہیں۔‘‘

سراج الدین ظفر نے برصغیر پاک و ہند کے اُستاد شاعر سیماب اکبر آبادی سے فن عروض سیکھا۔ ان کی غزلیات کا مطالعہ کرنے سے ان کی پسندیدہ اوزان و بحور سے واقفیت کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔ ان کی پسندیدہ بحور اور اوزان میں بحر مضارع، بحرِ مجتث، بحرِ ہزج، بحرِ رمل اور بحرِ متقارب شامل ہیں۔اشعار میں بحور کے استعمال کو فن عروض کہتے ہیں۔

سراج الدین ظفرؔ کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر شبانہ امان اللہ رقم طراز ہے کہ’’یہ بحور اپنی فروعی شکلوں اور اوزان کی تبدیلیوں کے ساتھ ظفرؔ کے کلام کا حصہ بنیں۔ سب سے زیادہ بحر مضارع مثمن اخرب مکفوف مقصود محذوف کا استعمال ملتا ہے۔ جب کہ بحرِ مجتث مثمن مخبوں محذوف مکسن کا دوسرا نمبر ہے۔ تیسرے نمبر پر بحرِ رمل مثمن اور مسدس ہیں۔ ظفرؔ کا زیادہ رحجان مثمن بحروں کی طرف ہے۔ اگرچہ ظفرؔ کی پہچان اور مرتبہ و مقام ان کی غزلیات کے بدولت ہے لیکن ظفرؔ کی نظم گوئی کا معیار بھی کسی طرح سے کم نہیں۔ ‘‘

سراج الدین ظفر نے غزل اور نظم کی طرح ان کی رباعیات فنی اور فکری اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں۔ نثر نگاری میں بھی ظفر نے اپنی صلاحیتوں کا خوب اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کئی شاہکار افسانے تخلیق کیے ہیں، جن میں طنز زیادہ اور مزاح کم ہے۔ ان کے افسانوں میں معاشرے کی جیتی ،جاگتی، روتی، مسکراتی تصویریں باتیں کرتی دکھائی دیتی ہیں۔

وہ افسانے میں کردار کے زندہ رکھنے ،آنکھوں دیکھے حقائق کی حقیقت کا پردہ فاش کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ ان کے افسانوں میں جملوں کی برجستگی، مکالماتی انداز سنجیدہ اور شوخی نمایاں ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی کے کئی رنگ نظر جھلکتے ہیں۔ان کے یہ افسانے ’’آئینے‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں منظر عام پر آئے۔ جس میں آٹھ افسانے شامل ہیں۔

اس کتاب کا مقدمہ شوکت تھانوی کا تحریر کردہ ہے۔ اس مقدمہ کی تمہید مجھے ذاتی طور پر بہت پسند ہے۔ اپنے اس مقدمہ میں شوکت تھانوی لکھتے ہیں کہ’’سراج الدین ظفرکو میں بحیثیت شاعر کے جانتا تھا اور سراج الدین ظفر مجھ کو بحیثیت ایک مزاح نگار کے جانتے تھے۔ یہ قصہ ہے اُس وقت کا جب وہ لاہور میں تھے اور میں لکھنو میں۔ لاہور آ کر اور قریب سے مل کر ہم دونوں پر عجیب راز منکشف ہوئے۔ یعنی انھوں نے مجھ کو اپنے مزاحیہ مضامین سنائے۔ میں نے اُن کے اپنے شعر۔ اس معاصرانہ بتادلہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تو میرے اشعار پر ’’واہ‘‘ کر کے رہ گئے اور ’’آہ‘‘ مجھ کو یہ مقدمہ لکھنا پڑا۔‘‘اس کتاب میں شامل یہ مقدمہ بڑے خاصے کی چیز ہے۔

سراج الدین ظفر نے بہت سے شعری مجموعے تخلیق کرنے کے ساتھ بہت سی کتب کی ترتیب و تدوین کی۔ ان کے شہرہ آفاق شعری مجموعوں میں ’’غزال و غزل‘‘ اور ’’زمزمہ حیات‘‘ شامل ہیں۔ ڈاکٹر فہیم شناس کاظمی کے بقول ’’ظفر اپنے دور اور اپنے مزاج کے آخری شاعر تھے۔ اب ان جیسا دوسرا ممکن نہیں۔ کلیات سراج الدین ظفر کی تدوین و ترتیب کا خیال باقی صدیقی کی کلیات کی تدوین و ترتیب کے دوران آیا۔اپنے پیش لفظ میں انھوں نے سراج الدین ظفر کے شعری مجموعہ ’’غزال و غزل کے پیش لفظ کا ایک ٹکڑا یوں شامل کیا ہے۔ ’’جس طرح میرے خیالات بیشتر لوگوں سے جدا ہیں۔ میرا سلوب شاعری بھی جدا ہے۔

میں نے غزل کے روایتی قالب کی حدود میں رہ کر غزل کی دوسری سب روایتوں کے تانے باتنے کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ندی اپنے کناروں کی حدود میں ضرور رہتی ہے، لیکن اُس کا اشتیاق کسی حد کا پابند نہیں ہے۔ میرا سلوب غزل کا اسلوب نہیں ہے، میرے فرط شوق کا اسلوب ہے۔ میرا اشتیاق، الفاظ کے لغتی معانی کا اسیر نہیں۔ یہ انھیں اپنے واضع کردہ معانی دیتا ہے۔‘‘’’کلیاتِ سراج الدین ظفر ‘‘ میں مطبوعہ شاعری اور افسانوں کے علاوہ رسائل و جرائد سے ان کے مدون کلام شامل کیا گیا ہے۔

اس کلیات کے بعد بھی تحقیق کے کئی در کھلے پڑے ہیں ابھی بہت سا کام ان کے حوالے سے کیا جانا باقی ہے۔ اس ضخیم کلیات کو کراچی کے معروف اشاعتی ادارے رنگ ِ ادب‘‘ نے مطبوعہ شکل عطا کی ہے۔ ’’رنگ ِ ادب‘‘ کے روحِ رواں منفرد اسلوب کے شاعر ، نثر نگار شاعر علی شاعر اور ان کے فرزند شیرازی شاعر ہے۔ سراج الدین ظفر کی شخصیت اور فن میں بیک وقت کئی خوبیاں تھیں۔ اُردو ادب کا یہ نامور ستارہ ۵ مئی ۲۷۹۱ء کو کراچی گورا قبرستان کے عقب میں فوجی قبرستان میں آسودئہ خاک ہوا۔ ان کے لوحِ مزا پر انھی کا یہ شعر یوں درج ہے ۔

ظفرؔ سے دور نہیں ہے کہ یہ گدائے الست
زمیں یہ سوئے تو اورنگ کہکشاں سے اُٹھے

سراج الدین ظفرنے زندگی میں بہت طویل عرصے تک اپنے قلمی جوہر دکھائے اس دوران وہ بہت سے ادبی اداروں کے عہدوں پر بھی فائز رہے، بہت سے سرکاری سطح پر اعزازات بھی اپنے نام کیے۔ ان کے فن و شخصیت پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے کئی مقالات جات تحریرکیے جا چکے ہیں۔ کلیات سراج الدین ظفرؔ بھی ڈاکٹر فہیم شناس کی خوبصورت تحقیق و تدوین ہے جس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہے۔ آخر میں سراج الدین ظفرؔ کی اس کلیات سے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:

یارو کوئی ایسا غلط اقدام کہ جس سے
آیندہ زمانوں میں ہمیں یاد کیا جائے

……

ارژنگِ دلبری تھی کسی کی قبائے ننگ
کیا کیا نظر شہید خطوطِ بدن ہوئی

……

عکس جمالِ یار بھی کیا تھا کہ دیر تک
آئینے قمریوں کی طرح بولتے رہے

……

اے دوست اس زمان و مکاں کے عذاب میں
دشمن ہے جو کسی کو دعائے حیات دے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔