آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت آج تک کسی کا ٹرائل نہیں ہوا وکیل عمران خان

1923ء کے اس ایکٹ کے میں کہیں بھی سائفر کا ذکر نہیں، سو سال تک اس ایکٹ میں ترمیم نہیں کی گئی اور اچانک ترمیم کردی گئی


ویب ڈیسک October 09, 2023
(فوٹو : فائل)

سائفرکیس میں ضمانت کے لیے عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے عدالت میں کہا ہے کہ ماضی میں کبھی بھی آفیشل سیکریٹ کے تحت کسی کا ٹرائل نہیں ہوا، 1923ء کے اس ایکٹ کے میں کہیں بھی سائفر کا ذکر نہیں، سو سال تک اس ایکٹ میں ترمیم نہیں کی گئی اور اچانک عمران خان پر مقدمہ درج کرکے ترمیم کردی گئی جو کہ بدنیتی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی سائفر کیس میں درخواست ضمانت پر چیف جسٹس عامر فاروق کے روبرو سماعت ہوئی۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی اہلیہ بشری بی بی اور ہمشیرہ علیمہ خان بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ پٹیشنر چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔ اسپیشل پراسیکیوٹرز راجہ رضوان عباسی، ذوالفقار عباس نقوی اور شاہ خاور سمیت ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ الزام ہے کہ ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ کے حقائق کو ٹوئسٹ کیا گیا، ایف آئی آر کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے سیکریٹری اعظم خان کو میٹنگ منٹس تیار کرنے کا کہا، سائفر کو غیر قانونی طور پر پاس رکھنے اور غلط استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا، کہا گیا کہ اسد عمر اور محمد اعظم خان کے کردار کو تفتیش کے دوران دیکھا جائے گا، ایف آئی اے نے سیکرٹری داخلہ کے ذریعے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ مقدمے کے چالان میں کتنے افراد کو ملزم بنایا گیا ہے؟ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ چالان میں سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کو ملزم بنایا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سائفر کوڈڈ فارم میں آتا ہے اگر سائفر دہلی اور واشنگٹن سے آ رہے ہوں گے تو انہیں ڈی کوڈ کرنے کا کیا طریقہ ہوتا ہے؟ اس پر وکیل نے کہا کہ ہر ایمبیسی میں ایسے تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں جو سیکرٹ کوڈز سے واقفیت رکھتے ہیں، سائفر فارن آفس میں آتا ہے اور ڈی کوڈ ہونے کے بعد اس کی کاپیز بنتی ہیں، سائفر کی کاپیز پھر آرمی چیف سمیت چار آفسز میں تقسیم ہوتی ہیں، یہ سیکرٹ ڈاکومنٹ کی سیکرٹ کمیونی کیشن ہوتی ہے۔

اسپیشل پراسیکیوٹر ذوالفقار عباس نقوی نے کہا کہ یہ فارن سیکریٹری کی ڈومین ہوتی ہے کہ سائفر کس کس کو بھجوانا ہے اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کوئی اسٹینڈرڈ پریکٹس نہیں کہ کس کس آفس کو لازمی جاتا ہے؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ جی یہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ سائفر کا پیغام کس نوعیت اور کس magnitude کا ہے، آخر میں اوریجنل سائفر رہ جاتا ہے جس کا ڈی کوڈڈ ٹیکسٹ نہیں۔

یہ پڑھیں : سائفر کیس ٹرائل کا آغاز؛ چیئرمین پی ٹی آئی پر 17 اکتوبر کو فرد جرم عائد ہوگی

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ 1923ء کا سو سال پرانا قانون ہے، اس ایکٹ کے اندر کسی جگہ سائفر کا ذکر نہیں، میں اگر کہوٹہ پلانٹ کی تصاویر لے کر دشمن ملک کو دے دوں تو اس پر لگتا ہے جب کہ یہاں کلبھوشن جادیو، ابھی نندن یا کہوٹہ پلانٹس کے نقشے بنانے کا واقعہ نہیں ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور اس آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں سیکشن پانچ اے کی سزا 14 سال قید یا سزائے موت ہے۔

وکیل عمران خان نے کہا کہ سو سال تک ضرورت پیش نہیں آئی کہ اس ایکٹ کی مرمت کی جائے لیکن اس مقدمہ درج کرنے کے تین دن کے بعد ہی اس میں ترمیم لے آتے ہیں یہ ترمیم بدنیتی کی بنیاد پر کی گئی یہ اس قانون کے تحت تبدیلی لے آئے لیکن اس کا اطلاق اس کیس پر نہیں ہوتا جب کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترامیم چیلنج بھی کی جا چکی ہیں۔


عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ کسی دشمن ملک سے سائفر شیئر نہیں کیا، قومی سلامتی کے حوالے سے ایسا کچھ نہیں کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ دشمن ملک کس کو کہیں گے؟ عموما جنگ کے موقع پر ہوتا ہے کہ یہ فلاں دشمن ملک ہے۔

بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ماضی میں کبھی بھی صرف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل نہیں ہوا ہمیشہ آرمی ایکٹ، نیوی یا ایئر فورس کے قوانین کے ساتھ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق کیا گیا، یہ کیسز آرمی افسران کے خلاف ڈیفنس معاملات میں چلائے گئے۔ اس دوران چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل کی جانب سے سات مختلف کیسز کے حوالہ جات پیش کیے گئے۔

عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ اس کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کو دو ماہ ہو گئے ہیں، چیئرمین پی ٹی آئی کو سائفر کیس میں پندرہ اگست کو گرفتار کیا گیا تھا، پٹیشنر ایک سیاسی قیدی ہے، بیس سے زائد مقدمات میں ضمانت ملی کیونکہ وہ کیسز بدنیتی کی بنیاد پر بنائے گئے تھے، چیئرمین پی ٹی آئی کی عمر 71 سال ہے، بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، سیاسی مخالفین کی ایما پر مقدمات درج کیے گئے، چالیس کیسز صرف اسلام آباد اور دو سو کے قریب ملک بھر میں مقدمات درج کیے گئے۔

سلمان صفدر نے دلائل میں کہا کہ جس مقدمے میں ٹرائل کورٹ ایک دن کا بھی فزیکل ریمانڈ نہ دے تو یہ بھی ضمانت کا گرؤانڈ ہے ، پراسیکیوشن نے ٹرائل کے فزیکل ریمانڈ نہ دینے کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا، مجھ سے کسی قسم کی کوئی ریکوری نہیں ہوئی، فزیکل ریمانڈ نہ دینے کا ٹرائل کورٹ کا فیصلہ حتمی شکل اختیار کر چکا ہے، 16 اگست کو دئیے جانے والے ریمانڈ کے وقت نہ ہماری حاضری ہے نہ ہمیں پتا چلا، 16 اگست کا ریمانڈ ہمیں 30 اگست کو پتا چلا۔

سماعت میں عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل مکمل نہ ہوسکے جس کے بعد عدالت نے جمعرات تک سماعت ملتوی کردی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں