سیکریٹ ایکٹ عدالت کے جج کی تعیناتی پر حکومت اور وزارت قانون کو نوٹس جاری
جج ابو الحسنات کی تعیناتی کے لیے متعلقہ چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی گئی، درخواست گزار وکیل سلمان اکرم راجا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس میں عمران خان کے جیل ٹرائل اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ذوالقرنین کی تعیناتی کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل قابل سماعت قرار دیتے ہوئے وفاق، وزارت قانون اور ایف آئی اے سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں جیل ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی۔ دوران سماعت آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین کی تعیناتی درست قرار دینے کے سنگل بینچ کے فیصلے کو بھی چیلنج کیا گیا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں جج کی تعیناتی اور جیل ٹرائل کو درست قرار دیا تھا۔
اس حوالے سے وزارت قانون نے عدالت میں تحریری جواب جمع کروا دیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت قانون کی جانب سے سمری بھجوائی گئی تھی جس کی کابینہ نے منظوری دی، انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کا جج تعینات کیا گیا، کابینہ کی منظوری کے بعد تعیناتی کا نوٹی فکیشن جاری ہوا۔
عدالت نے کہا کہ 27 جون 2023ء کو وفاقی کابینہ نے انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کی تعیناتی کی منظوری دی، وفاقی کابینہ کی منظوری میں کہیں نہیں لکھا ہوا یہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت کی جج کی تعیناتی ہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت قانون کی سمری کے پیراگراف 6 کی کلاز تین میں یہ لکھا ہوا ہے۔
درخواست گزار وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ وفاقی حکومت نے اپنی مرضی سے ایک جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت کا جج تعینات کردیا، آفیشل سیکریٹ ایکٹ خصوصی عدالت جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین کی تعیناتی کے لیے متعلقہ چیف جسٹس سے مشاورت نہیں کی گئی۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے جج کی تعیناتی کی منظوری سے متعلق کابینہ کی سمری عدالت کے سامنے پیش کر دی۔
ہائی کورٹ نے جج کی تعیناتی کے خلاف انٹراکورٹ اپیل قابل سماعت قرار دیتے ہوئے وفاق، وزارت قانون اور ایف آئی اے سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے کہا کہ ہم اس کیس میں نوٹس جاری کر رہے ہیں سوموار کے لیے، آپ یاد رکھیں اوپن پالیسی کے دور میں ہیں انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے، عدالت اس نکتے کو مدنظر رکھے کہ اوپن ٹرائل اور جیل ٹرائل میں فرق ہے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ اوپن نیس کا دور ہے، اوپن کورٹ، اوپن سماعت، اگر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونے والے ٹرائل میں سزا سنا دی جاتی ہے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے۔ عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ یہ سب چیزیں آپ کو دیکھنا ہیں بعدازاں کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔