انسانیت کے دشمن

شکیل فاروقی  منگل 19 دسمبر 2023
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

برطانوی دورِ حکومت میں لفظ ’’ بھارت ‘‘ نام کا کوئی نام و نشان نہیں ملتا، ہر جگہ صرف ایک ہی لفظ استعمال کیا گیا ہے اور وہ لفظ ہے’’ انڈیا۔‘‘ 1947 کے ایکٹ میں بھی لفظ ’’انڈیا ‘‘ ہی استعمال کیا گیا ہے، اگر اِس لفظ کو تبدیل کردیا جائے تو بہت سی تکنیکی پیچیدگیاں پیدا ہوجائیں گی۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جس سیاسی جماعت نے آزادی کے لیے جدوجہدکی تھی اُس کا نام بھی انڈین نیشنل کانگریس تھا۔

یہ بات بھی کچھ کم اہم اور غور طلب نہیں ہے کہ جس آئین ساز اسمبلی نے آئین سازی کی تھی اُس کے دستاویزات میں بھی لفظ ’’ انڈیا ‘‘ ہی استعمال کیا گیا ہے اور اِس کے علاوہ اور کوئی نام نظر نہیں آتا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ’’ بھارت‘‘ کی اختراع انتہا پسند ہندو جماعتوں ہندو مہاسبھا راشٹریا سوئم سَنگھ وغیرہ کی عصبیت اورکَج ذہنی کی پیداوار ہے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انڈین نیشنل کانگریس کے مرکزی رہنماؤں موہن داس کَرم چندگاندھی اور بالخصوص پنڈت جواہر لال نہرو سیکولر ازم کے نظریہ اور سوچ کے حامی تھے اور وہ چاہتے تھے کہ ملک ہمیشہ سیکولر ہی رہے۔

کسی بھی دھرم، مذہب اور عقیدہ کی اِس میں کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی اوّلین سیاسی جماعت کانگریس نے اِسی نظریہ پر سختی سے عمل کیا ہے اور آج تک کر رہی ہے۔ آئین کی رُو سے بھی اِس رَوِش سے ہٹ کر چلنا خلافِ آئین ہے۔

مزید برآں آئین کا بنیادی تقاضہ بھی یہی ہے کہ سیکولر ازم سے گریز آئین کی قطعی خلاف ورزی ہے۔ اِس زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے توکانگریس پارٹی ہی ملک کی واحد سیاسی جماعت قرار پاتی ہے جو ملک کے آئین کی پابندی کررہی ہے۔

2 دسمبر کو انتر راشٹریا ہندو پریشد کے صدر پراوین توگاڈیا نے دنیا بھر کے مسلمانوں کی کھُلم کھُلا نسل کُشی کا مطالبہ کیا۔ ہریدوار میں بھگتوں یعنی سادھوؤں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اُس نے انتہائی مضحکہ خیز انداز میں تاریخ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پورا یورپ اور عرب عیسائیت اور اسلام سے قبل ہندو تھا۔

اُس نے یہ ہرزہ سرائی بھی کی کہ اسلام اور عیسائیت دونوں نے ہندوؤں کا رفتہ رفتہ صفایا کیا اور یہ مطالبہ کیا کہ جو راستہ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اختیارکیا ہمیں بھی اِسی طرزِ عمل کو اپنانا چاہیے۔

بہت سے انڈین شہروں اور جگہوں کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں، تاکہ مسلم تاریخ کو مٹایا جاسکے۔ نصاب کی کچھ کتابوں میں ہندوؤں کی دیو مالائی داستانوں کی تعریف کی گئی ہے اور مسلمان بادشاہوں کو ظالم بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔

اِس کی ایک انتہائی مضحکہ خیز مثال یہ ہے کہ ایک ہندو اسکول میں طالبعلم بچے گا گا کر یہ کہہ رہے تھے کہ ’’ بندر ہمیں بنادے رام چھوٹی پونچھ لگا دے رام۔‘‘ دراصل بندر سے مراد ہنو مان نامی دیوتا تھا۔کئی سال سے اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کے خلاف نفرتی جرائم کی پشت پناہی کی جا رہی ہے بلکہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اِن جرائم میں ملوث مجرموں کو سزا دینے کے بجائے چشم پوشی کی جا رہی ہے۔

چند سال پہلے آنند پٹوردھن کی تیارکردہ ایک دستاویزی فلم بعنوان ’’رِیزن‘‘ میڈیا میں منظرِ عام پر آئی تھی جس میں دکھایا گیا تھا کہ آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے سانھتن سنستھا، وشوا ہندو پریشد، ہندو جنجاگرتی سمیتی اور ابھیناو بھارت کو اختلاف رکھنے والے آزاد خیال آوازوں کو قتل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔

پٹوردھن کی دستاویزی فلم آزاد خیال اور سیکولر مزاج رکھنے والوں کی متعصب ذہنیت کے خلاف آخری کوشش تھی۔ انڈیا کے موجودہ عام انتخابات سے صاف ظاہر ہے کہ ہندوتوا کے جراثیم ملک کے کونے کونے میں پھیل چکے ہیں اور مودی کی حیثیت ’’ مہا پُروش ‘‘ سے’’ مہاتما ‘‘ تک جا پہنچی ہے، جس کے انتہائی ظالمانہ رویے اور نازی سوچ کے باوجود دیوتا کی طرح پوجا کی جا رہی ہے۔

انڈیا کا کارپوریٹ سیکٹر مودی کی پرورش میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے اور اُس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مودی کو برسرِ اقتدار رکھ کر اپنا شکنجہ مضبوط سے مضبوط تر کر کے وارے سے نیارے کیے جائیں اور ملک کی معیشت سے زیادہ سے زیادہ مال کمایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔