ایک عظیم ریسرچ اسکالر کی رخصتی پر چند آنسو

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 22 دسمبر 2023
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

11 دسمبر 2023 !اسپتال کے یاس انگیز اور سنسان بستر پر پڑے پڑے یہ دل شکن خبر پڑھی کہ ہمارے دیرینہ دوست، ادیب، شاعر، اخبار نویس، مترجم، احمد سلیم، 78برس کی عمر میں اللہ کو پیارے ہو گئے ہیں۔

خبر پڑھتے ہی اُن سے وابستہ دل کو کہانیاں سی یاد آ کر رہ گئیں۔ آنکھیں اشک بار ہیں اور بیمار دل مزید بیمار۔ آنکھیں سکیڑ کر بات کرنے کے خوگر احمد سلیم کی محنت و تحقیق سے مزین زندگی کے کئی اوراق کھل گئے ہیں۔

گجرات کے ایک قصبہ، میانہ گوندل،سے نکل کر لاہور، کراچی، اسلام آباد، مشرقی پاکستان اور ناروے میں قدم دینے کے بعد احمد سلیم کی بیقرار اور متجسسانہ رُوح کو بالآخر قرارآگیا ۔ سات بہن بھائیوں میں سے صرف احمد سلیم نے قومی اُفق پر نام پایا ۔

مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ مَیں احمد سلیم کو کس نام سے پکاروں، لکھوں؟انھوںنے پاکستان کی سیاست و صحافت پر ایسی معتبر اور موقر کتابیں ( مثلاً :ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں) لکھی ہیں کہ اُنہیں ایک بے مثال محقق اور ریسرچ اسکالر ہی کے نام سے یاد کیا جانا چاہیے ۔

احمد سلیم نے پنجابی اور اُردو میں منفرد اسلوب کی شاعری بھی کی(مثلاً:کونجاں موئیاں اور تتلیاں تے ٹینک) جس میں پاکستان کے خاک نشینوں اور بھوک کے ماروں کے مصائب اور مسائل کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔اِس حوالے سے اُنہیں بائیں بازو کا ممتاز شاعر بھی کہنا چاہیے۔ وہ شاعروں میں بطور ایک نامور شاعر کے خود کو اس لیے بھی نمایاں نہ کر سکے کہ وہ پبلک ریلشنز کے باریک فن سے ناآشنا تھے ۔ انھوں نے جتنے ادبی اور مزدور پیشہ جرائد( مثلاً: جفاکش) کی ادارت کی، اِس پس منظر میں وہ ایک بہترین مدیر بھی کہلائے جا سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں بروئے کارمعروف این جی اوSDPI کے تحت شائع ہونے والے تحقیقی میگزین ( پائیدار ترقی)میں احمد سلیم نے اپنے متعدد ریسرچ مضامین میں بھٹہ مزدوروں، گھریلو ملازمین، خاص طور پر گھروں پر کام کرنے والی ماسیوں، بانڈڈ لیبر کی زنجیروں میں جکڑے مزدوروں کے بارے میں مسائل و مصائب کو اُجاگر کیا اور ان مصائب کو حکومت کے آرام دہ ایوانوں میں بیٹھے صاحبانِ اقتدارو اختیار تک پہنچانے کی کوشش کی ۔

اُن کا ناخنِ تدبیرو تحقیق کبھی آرام و چَین سے نہیں بیٹھتا تھا۔ ہر وقت اوربیک وقت کئی کئی موضوعات پر کتابیں مرتب کرنے کی آندھیاں اُن کے دماغ میں غُل مچائے رکھتی تھیں ۔ اُن کا جوشِ جنوں و جوشِ تحقیق ہر لمحہ موجیں مارتا رہتا تھا ۔ چونکہ وہ ایک بہترین آرکائیوسٹ (Archivist) بھی تھے،اس لیے دُنیا بھر کے کئی نامور تحقیق نگار، پروفیسرز اور محققین اُن کے قیمتی Archiveسے استفادہ کرنے کے لیے اُن کی جان ہلکان کیے رہتے تھے ۔

اپنے Archiveکو زیادہ سے زیادہ وقیع اور معتبر بنانے کے لیے احمد سلیم نے بڑا سرمایہ خرچ کیا تھا ۔ کئی بار دورانِ گفتگو انھوںنے اظہارِ تاسف کرتے ہُوئے مجھ سے کہا تھا:’’ لوگ امریکا اور برطانیہ سے مہنگے اخراجات کرکے میرے آرکائیو سے استفادہ کے لیے آ تو جاتے ہیں لیکن مجھے فیس دیتے ہوئے ان کی جان نکل جاتی ہے ۔ اور اگر دل کڑاکرکے فیس دے بھی دیں تو یوں لگتا ہے جیسے مجھ پر احسان کررہے ہوں ۔‘‘

اُن کا یہ انتہائی قیمتی اور گرانقدر Archive پہلے لاہور میں تھا ۔ چوبرجی سے جو بغلی سڑک سمن آباد کی طرف جاتی ہے، احمد سلیم کا یہ دلکشا اور حیرت انگیز آرکائیو اِسی سڑک پر دائیں جانب ایک کرائے کے مکان میں واقع تھا ۔ تاریخ، ادب، سیاست، صحافت کی دستاویزات کے نایاب اور اوریجنل نسخے اِس آرکائیو میں پائے جاتے تھے ۔ احمد سلیم نے اس کی تنظیم، صفائی اور اَپ گریڈیشن کے لیے چند ملاز مین بھی رکھے تھے ۔ اِس کے باوجود لوگ کئی قیمتی نسخے سرقہ کر لینے میں کامیاب ہو جاتے تھے ۔

مجھے خود احمد سلیم نے ایک معروف پاکستانی محقق اور مصنف ( جو نیویارک میں رہتی ہیں اورقائد اعظم پر ایک کتاب کی مصنفہ بھی ہیں)کے بارے میں دکھ بھرے لہجے میں بتایا کہ یہ محترمہ میرا ایک نادر پمفلٹ( جو قیامِ پاکستان سے قبل کا تھا) چند دنوں کے لیے عاریتاً لے گئیں لیکن بعد ازاں واپس کرنے سے انکار کر دیا۔

بعد ازاں جب بہ امرِ مجبوری احمد سلیم لاہور سے اسلام آباد منتقل ہو گئے تو تحقیق و دستاویزات کی یہ دولت (آرکائیو) بھی اِدھر ہی آ گئی ۔ اوّل اوّل وہ اسلام آباد کے سیکٹر جی ٹین وَن میں رہائش پذیر ہُوئے تھے ۔ مَیں ملاقات کو گیا تو اِس دولت کی ایک جھلک بھی دیکھی۔

احمد سلیم چند بار مشرقی پاکستان بھی گئے ۔ یہ دَورے محض سیر سپاٹے کے لیے تھے اور نہ ہی ’’سنار بنگلہ‘‘ کے ملکوتی حُسن کی باز دید ۔یہ دَورے خالصتاً ریسرچ کے نقطہ نظر سے کیے گئے۔ احمد سلیم اِس کھوجِ مسلسل میں تھے کہ مشرقی پاکستان کی خونریز علیحدگی کا اصل سبب اور موجب کیا تھا ؟وہ خود مشرقی پاکستان جا کر متعلقہ اداروں، شخصیات اور محققین سے براہِ راست یہ سوال پوچھ کر اصل نتیجے پر پہنچنا چاہتے تھے۔ مرتے دَم تک احمد سلیم کی یہ کھوج اور تجسس قائم رہا۔

مشرقی پاکستان میں اُن کے بے شمار دوست تھے ۔ زیادہ تر بائیں بازُو کے ۔وہ اپنی سخت تحقیق و جستجومیں اِس بات کے بھی متجسس رہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں اصل اور مرکزی کردار کس کا تھا ؟ زیڈ اے بھٹو کا، جنرل یحیٰی خان کا، حکومتِ پاکستان کی نااہلیوں کا یا بھارتی وزیر اعظم مسز اند را گاندھی اور ’’را‘‘ کی شیطانیاں کا ؟اِس حوالے سے وہ بہت سا تحقیقی مواد اکٹھا کر چکے تھے اور اِس موضوع پر ایک تفصیلی اور مبسوط کتاب مرتب کرنا چاہتے تھے لیکن زندگی کے دیگر جھمیلوں اور موت کے مہلک وار نے موقع ہی فراہم نہ کیا ۔

لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر وہ ایک شاندار اور چشم کشا کتاب ضرور لکھ گئے ۔ اِس تصنیف کا نام ہے: ’’مَیں علیحدگی نہیں چاہتا تھا ۔‘‘ یہ کتاب بھی اُن کے منفرد ریسرچ اسکالر ہونے کی دلیل ہے ۔ یہ کتاب دراصل شیخ مجیب الرحمن کے نصف درجن سے زائد انٹرویوز پر مشتمل ہے جو شیخ صاحب نے پاکستانی اور غیر ملکی اخبارات کو وقتاً فوقتاً دیے اور اخبار نویسوں کے سامنے اپنے دل کا احوال رکھا۔

اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ یہ کتاب پڑھنے کے بعد خود فیصلہ کرے اور نتیجہ نکالے کہ اگر شیخ مجیب الرحمن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمے دار نہیں تھے تو پھر کون تھا ؟ ہمیں افسوس تو اس امر کا ہے کہ احمد سلیم نامی جو ریسرچ اسکالر مشرقی پاکستان بارے بے پناہ معلومات رکھتا تھا، وہ ایسے مہینے میں ہم سے جدا ہُوا ہے جب مشرقی پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بن گیا تھا ۔

اگر یہ کہا جائے کہ احمد سلیم سرتا پا قلم کے مزدور تھے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا ۔ ویسے تو انھوں نے ایک سرکاری بینک کی نوکری بھی کی تھی، سندھ کی کئی سرکاری این جی اوز سے وابستہ بھی رہے، دو سندھی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے بھی رہے لیکن اِس آزاد منش رُوح کو چَین، ہر قسم کی پابندیوں کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہو کر، آزاد منش قلم کی مزدوری میں ہی ملا ۔ چونکہ وہ ایک متحرک ادبی و سیاسی شخصیت بھی تھے، اس لیے پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش کے لاتعداد ادیبوں،شاعروں، سیاستدانوں، مزدور لیڈروں سے اُن کی گہری دوستیاں تھیں۔

دوستی اور محبت کے یہ چشم کشا قصے ہمیں اُن کی دو انتہائی وقیع اور شاندار کتابوں(میری دھرتی، میرے لوگ اور ملاقاتوں کے بعد) میں بکھرے ملتے ہیں۔ جب وہ SDPI میں ملازم تھے، راقم نے اُن کا ایک قومی اخبار کے لیے تین صفحات پر مشتمل مفصل انٹرویو کیا تو مجھے بعد ازاں بتایا: ’’اَب انٹرویو کے لیے ہر نئے آنے والے سے مَیں یہی کہتا ہُوں، وہی انٹرویو پڑھ لیں، اب میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں رہا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔