انٹر سال اول کے متنازع نتائج؛ کالج ایجوکیشن کی انکوائری کمیٹی فعال

صفدر رضوی  بدھ 24 جنوری 2024
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

کراچی: انٹر سال اول کے سالانہ امتحانات کے متنازع نتائج کی جانچ پڑتال کے لیے محکمہ کالج ایجوکیشن سندھ کی “فیکٹ فائنڈنگ” کمیٹی نے کام شروع کردیا ہے۔

کمیٹی نے انٹر بورڈ کراچی سے امتحانی پرچے بنانے اور کاپیوں کی اسسمنٹ کرنے والے اساتذہ کے ساتھ ساتھ بورڈ کے ان ملازمین کے بچوں کے انٹر سال اول کے نتائج بھی مانگ لیے ہیں جو سال 2023 میں انٹر سال اول کے پرچوں میں شریک ہوئے تھے کراچی کے 6 بڑے سرکاری کالجوں میں فیل طلبہ کی تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔

مزید براں کوویڈ کے علاوہ سال 2017 سے تاحال جاری ہونے والے پری میڈیکل، پری انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس گروپ کے نتائج کا ریکارڈ بھی مانگا گیا ہے۔ ریجنل ڈائریکٹر کراچی پروفیسر مصطفی کمال کی سربراہی میں چھ رکنی کمیٹی بدھ کو اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی پہنچی اور بورڈ کے قائم مقام ناظم امتحانات زاہد رشید سمیت دیگر افسران سے تفصیلی اجلاس کیا۔

اجلاس میں قائم مقام سیکریٹری انٹر بورڈ کے علاوہ سابقہ کنٹرولر آف آیکزامینیشن زرینہ راشد اور آئی ٹی منیجر شہیر وقار بھی شریک تھے اجلاس میں شریک ایک افسر کے مطابق محکمہ کالج ایجوکیشن کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے انٹر بورڈ سے کہا ہے کہ کمیٹی کو انٹر سال اول کے “پیپر سیٹرز ، ہیڈ ایکزامنر اور ایکزامنر” کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور یہ بتایا جائے کہ ان تینوں ٹائیٹلز پر کتنے افراد ریٹائر افراد کام کررہے ہیں جبکہ کتنے افراد کا تعلق پرائیویٹ سیکٹر کے کالجوں اور سرکاری کالجوں سے ہے۔

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے انٹر بورڈ سے مزید کہا کہ ’’اسی طرح یہ بھی بتایا جائے کہ جو نتائج متنازع ہوئے ہیں ان امتحانات میں کتنے بورڈ افسران و ملازمین کے بچے بھی شریک ہوئے تھے ان بچوں کے انٹر سال اول کے نتائج بھی کمیٹی کے سپرد کیے جائیں اور بتایا جائے کہ بورڈ افسران و ملازمین کے بچے اگر ان نتائج میں کامیاب ہوئے ہیں تو کس گریڈ میں پاس ہوئے ہیں کمیٹی فیل طلبہ کے ساتھ ان بچوں کی کاپیاں بھی دیکھے گی۔

مزید براں انٹر بورڈ کراچی سے گزشتہ کئی برسوں کے انٹر سال اول پری میڈیکل، پری انجینئرنگ اور کمپیوٹر سائنس گروپ کے نتائج کے تناسب کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں اور کوویڈ کے دو برسوں کے علاوہ سال 2017 سے تاحال جاری نتائج طلب کیے گئے ہیں جبکہ اس امر کا جائزہ بھی لیا جارہا ہے کہ سینٹرلائز اسسمنٹ کیوں نہیں کروائی گئی اور ہیڈ ایکزامنر نے ایکزامنرز کو کاپیاں گھر لے جاکر جانچ کرنے کی اجازت کس قانون کے تحت دی بورڈ انتظامیہ نے اساتذہ کو ایسا کرنے سے کیوں نہیں روکا۔

اجلاس میں شامل ایک افسر نے بتایا کہ کمیٹی نے کراچی کے ان 6 بڑے سرکاری کالجوں کے فیل ہونے والے طلبہ کا ریکارڈ بھی مانگا ہے جہاں انٹر سال کے داخلے اے ون گریڈ پر بند ہوتے ہیں ان کالجوں میں ڈی جے سائنس کالج، آدم جی سائنس کالج، پی ای سی ایچ ایس کالج، گورممنٹ کالج ایس آر ای مجید اور گورنمنٹ کالج ملیر کینٹ شامل ہیں ادھر۔

بورڈ ذرائع کے مطابق منگل کی سہ پہر تک پیرنٹ ٹیچر ایسوسی ایشن کی جانب سے بورڈ انتظامیہ کو ان 10 طلبہ کے رول نمبر حوالے ہی نہیں کیے گئے تھے جس کی گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی اور ان 10 رول نمبرز کے حامل طلبہ کی کاپیوں کی تفصیلی اسکروٹنی کے احکامات کمشنر کراچی کو دیے گئے تھے۔

ریجنل ڈائریکٹر کالجز کی جانب سے بھی اس بات کی تصدیق کی گئی کہ بورڈ کو اب تک مذکورہ ایسوسی ایشن کی جانب سے طلبہ کی اسکروٹنی کے لیے کسی قسم کا ڈیٹا فراہم نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ انٹر سال اول کے متنازعہ نتائج پر سیکریٹری کالج ایجوکیشن سندھ صدف شیخ کی تشکیل شدہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی ایسے وقت میں فعال ہوئی ہے جب انٹر بورڈ انتظامیہ ان نتائج کی جانچ پڑتال پر پس و پیش سے کام لے رہی ہے اور کمشنر کراچی کی جانب سے اب تک کسی قسم کی اعلی اختیاراتی کمیٹی تشکیل نہیں دی گئی واضح رہے کہ نتائج میں 65 فیصد یا اس سے بھی زائد طلبہ فیل ہوگئے ہیں جو دستیاب تاریخ میں پہلی بار ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔