بانی پی ٹی آئی سے بھی ملیں

محمد سعید آرائیں  پير 4 مارچ 2024
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

8فروری کے الیکشن کے بعد پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنماؤں نے اپنے بانی کی ہدایت پر اپنے مخالفین سے ملنا شروع کیا تھا جس کے بعد حکومتی اتحادی بھی مولانا فضل الرحمن سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے۔

ان کی یہ ملاقات الیکشن کے بیس روز بعد ہوئی جو پہلے ہونی چاہیے تھی مگر تاخیر سے ہوئی جس کے بعد میاں نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پھر بانی پی ٹی آئی پر کڑی تنقید کی کہ کچھ بھی کر لیں ،ان مخالفین کا رویہ ایسا ہی رہے گا جب کہ ہمارا مقابلہ ایسے لوگوں سے ہے جو لاجک نہیں سمجھتے۔ بانی پی ٹی آئی جب الیکشن مہم میں زخمی ہوئے تھے، میں ان کی عیادت کے لیے گیا تھا اور اپنی انتخابی مہم بھی بند کر دی تھی۔

اپنی حکومت بننے کے بعد میں ان کے گھر بھی گیا اور انھیں اس بات پر قائل کیا کہ ساری سیاسی طاقتوں کو اپنے اپنے کسی خاص ایجنڈے پر کام کرنا چاہیے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اس موقع پر یہ بھی کہا کہ پاکستان آج اتنی زیادہ زخمی حالت میں ہے کہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ ملکی مسائل کا حل آج مشکل نظر آ رہا ہے۔

شہباز شریف کے عشائیے میں پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نئی حکومت کے سامنے میثاق معیشت، قومی اتفاق رائے، انتخابی اور عدالتی اصلاحات پر عمل درآمد کی تجاویز پیش کیں۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جو پی ٹی آئی کے علاوہ دوسری پارٹیوں سے مل کر اپنے امیدواروں کے لیے ووٹ مانگے گی۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کے چیئرمین سے رابطہ کرنے یا پی ٹی آئی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے سلسلے میں کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ پی پی چیئرمین نے اس موقع پر جو تجاویز دیں ان سے ہر محب وطن اتفاق کرے گا مگر اس کے برعکس پی ٹی آئی کے بانی نے اپنی ضد پوری کی اور ان کی ہدایت پر آئی ایم ایف کو جو خط لکھا گیا وہ بھی منظر عام پر آ گیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان کے ساتھ معاہدے سے قبل 8 فروری کو ہونے والے الیکشن کا آڈٹ کرایا جائے اور صرف منتخب حکومت سے مذاکرات کیے جا سکتے ہیں۔

پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں عمر ایوب اور گوہر خان بضد ہیں کہ جو لوگ حکومت بنانے جا رہے ہیں ان کے پاس عوامی نہیں چوری شدہ مینڈیٹ ہے۔

پی ٹی آئی کو موجودہ انتخابات میں دیگر پارٹیوں سے زیادہ نشستیں ملیں مگر وہ تنہا وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے جب کہ کے پی کے میں اسے اکثریت حاصل ہے۔ الیکشن میں پی ٹی آئی کو جو کامیابی ملی اس کی توقع پی ٹی آئی سمیت کسی کو نہیں تھی مگر پھر بھی پی ٹی آئی، مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پر ووٹ چوری کے الزامات لگا رہی ہے اور اس کا خیال ہے کہ اس نے سو فیصد کامیابی حاصل کی ہے اور اس کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے جب کہ ایسا ہے نہیں۔

پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محرومی کے بعد خود پریشان تھی اور اسے کامیابی کی امید نہیں تھی مگر پھر بھی پی ٹی آئی مطمئن نہیں اور اس کامیابی پر شکر ادا کرنے کے بجائے اب بھی اپنے بڑے مخالفین پر اپنے ووٹ چوری کرنے کے الزامات لگا رہی ہے۔

ووٹ چوری کے جھوٹے الزام پر میاں شہباز شریف و دیگر رہنماؤں نے کہا کہ اگر الیکشن میں اتنی ہی دھاندلی ہوتی تو پی ٹی آئی کو نوے سے زیادہ قومی اسمبلی کی نشستیں اور کے پی میں واضح اکثریت کیسے حاصل ہوئی۔ کیا کے پی کے میں الیکشن چیف الیکشن کمیشن کے بجائے کسی اور نے کرائے ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے متعدد اہم مخالف رہنما الیکشن ہار گئے اور متعدد نے اپنی اپنی شکست تسلیم کی۔ ان میں جہانگیر ترین، نواز شریف، سعد رفیق، رانا ثنا اللہ، خرم دستگیر، عابد شیر علی بھی شامل ہیں جنھوں نے ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لیے تھے۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین صرف لاہور سے ہارے اور سندھ میں پی پی کا کوئی بھی رہنما نہیں ہارا جب کہ کے پی کے اور بلوچستان میں عمران خان کے مخالف اہم لیڈروں مولانا فضل الرحمن، اختر مینگل، ڈاکٹر عبدالمالک، آفتاب شیرپاؤ اور اے این پی کے متعدد رہنماؤں کو شکست ہوئی مگر وہ پی ٹی آئی پر اپنے ووٹ چوری کرنے کا الزام نہیں لگا رہے البتہ دھاندلی کا الزام ضرور لگا رہے ہیں ۔

ملک کو جن مشکل حالات کا سامنا ہے اس کا اظہار میاں نواز شریف اور بلاول بھٹو بھی کر چکے ہیں مگر بانی پی ٹی آئی کو صرف اپنی شکست اور اقتدار نہ ملنے کی فکر ہے کیونکہ وفاقی حکومت اگر پی ٹی آئی بنانے کی پوزیشن میں آ جاتی تب ہی عمران خان کی جیل سے رہائی اور مقدمات سے نجات ممکن ہو سکتی تھی اور اس بات کا اقرار پی ٹی آئی رہنما کر بھی رہے تھے۔

سینئر سیاسی رہنما جاوید ہاشمی بھی کہہ رہے ہیں کہ ہر الیکشن میں ایسا ہی ہوتا رہا ہے اسی لیے ماضی کی طرح انتخابی نتائج تسلیم کر لیے جائیں اور سیاستدانوں کو ملک کے مستقبل کا سوچنا چاہیے۔

بانی پی ٹی آئی سے توقع ہی نہیں کہ وہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی طرف مفاہمت کے لیے ہاتھ بڑھائیں گے۔ انھوں نے ماضی میں ایسی اچھی روایت بھی قائم نہیں کی جب کہ میاں نواز شریف اور آصف زرداری میں یہ خوبی ہے اور نواز شریف اس کا عملی ثبوت بھی دے چکے ہیں۔

بانی پی ٹی آئی میں تو اتنی اخلاقی جرأت نہیں ہے کہ وہ مخالفین سے مفاہمت پر راضی ہوں اس لیے نواز شریف اور آصف زرداری ہی ابتدا کریں اور بانی پی ٹی آئی کی طرف نہ صرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھائیں بلکہ خود جا کر اڈیالہ جیل جا کر ان سے ملاقات کریں اور ملک و قوم کی خاطر ان سے ساتھ مل کر چلنے کی دعوت دیں۔

ممکن تو ایسا نہیں ہے کہ اسیر بانی ان سے ملنے پر آمادہ ہو جائیں مگر متوقع صدر اور وزیر اعظم کو اس سلسلے میں پہل ضرور کرنی چاہیے یہ ان کی ذمے داری ہوگی اور عوام میں بھی اچھا پیغام جائے گا اور عوام بھی اپنے رہنماؤں کا خیر سگالی کا رویہ دیکھ لیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔