ریاستی وسائل اور اشرافیہ

زمرد نقوی  پير 25 مارچ 2024
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

وزیر اعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ مٹھی بھر اشرافیہ 90فیصد وسائل پر قابض ہے انھوں نے کہا کہ کیا جواز ہے کہ غریب مہنگائی میں پسے اور اشرافیہ کو سبسڈی ملے۔ یہ بھی بتایا کہ گیس بجلی کا گردشی قرضہ 5ہزار ارب سے زیادہ ہو گیا ہے اور سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادھار لے کر دے رہے ہیں۔

دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ پاکستان پر واجب الادا قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لئے پاکستان کو مزید قرض لینا پڑ رہا ہے۔ یعنی حالت یہ ہے کہ پاکستان اب اس قابل بھی نہیں رہا کہ وہ اپنے وسائل سے سود کی ادائیگی کر سکے۔ 1947سے 2008 تک 61سالوں میں پاکستان 6127ارب روپے کا مقروض تھا۔ لیکن 2008 سے 2023 تک صرف 15سالوں میں یہ قرضے 62000 ہزار ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ قرضے گئے کہاں ۔ کیا عوام خوش حال ہوئے کیا عوام کا معیار زندگی بلند ہوا۔ کیا ان کو صحت تعلیم کی معیاری سہولیتیں میسر آئیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ عالمی بینک کے مطابق پاکستان کی نصف سے زائد آبادی یعنی 12کروڑ 66لاکھ عوام غربت کا شکار ہیں۔ 90لاکھ مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان جن ملکوں اور عالمی اداروں کا مقروض ہے ان میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشائی بینک، پیرس کلب اور دوست ممالک چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سر فہرست ہیں۔

عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ان دس ملکوں میں شامل ہے جنھوں نے عالمی سطح پر سب سے زیادہ قرض لے رکھا ہے اگر آئی ایم ایف کے سب سے بڑے مقروض ملکوں کی بات کی جائے تو ان میں ارجنٹائن، مصر ، یوکرین اور ایکوا ڈور کے بعد پانچویں نمبر پر پاکستان ہے۔ جب کہ ایشائی ملکوں میں آئی ایم ایف سے حاصل کردہ قرضوں میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے۔ قرضے مختلف ادوار میں مختلف حکومتیں لیتی رہی لیکن ان قرضوں کی ادائیگی سودسمیت عوام کو ہی کرنی ہے۔

اب عوام کو خوش خبری یہ سنائی جا رہی ہے کہ پاکستانی عوام ان قرضوں کی ادائیگی کے لئے پیٹ پر پتھر باندھ لیں۔ لیکن یہ قربانی پاکستان کے غریب عوام ہی کیوں دیں۔ جو طبقے پاکستان کے وسائل سے سب سے زیادہ مستفیض ہوئے زیادہ قربانی انھیں ہی دینی چاہیے۔ پاکستانی عوام اپنی سکت سے زیادہ قربانی دے چکے۔ ان کی رگوں سے بہت زیادہ خون نچوڑا جا چکا ۔ جب کہ مٹھی بھر اشرافیہ جو90فیصد وسائل پر قابض ہے جو 5000 ہزار ارب سے زیادہ کی سالانہ مراعات حاصل کرتی ہے۔ آخر یہ اشرافیہ کون ہے؟ یہ اشرافیہ دہ ہے جس نے برٹش سامراج کے ہندوستان پر قبضے کے لئے ہر ممکن مدد کی۔

انعام کے طور پر انگریزوں نے یہاں سے جاتے وقت22ہزار افراد میں جاگیریںتقسیم کیں۔ آج وہی خاندان اس ملک کے وسائل پر قابض اور سیاہ سفید کے بلا شرکت غیرے مالک چلے آرہے ہیں۔ یہی لوگ دوسری مراعات کے علاوہ بینکوں سے بڑے بڑے قرضے لے کر باآسانی معاف کرا لیتے ہیں جب کہ یہ عوام کے پیسے ہوتے ہیں جو کھربوں کی مقدار میں بینکوں میں جمع ہیں۔ اول تو قرضے عام آدمی کو ملتے ہی نہیں۔ اگر کسی طرح مل بھی جائیں تو سود سمیت ایک ایک پیسہ وصول کر لیا جاتا ہے۔

انگریز سامراج بہت دور اندیش تھا۔ کم از کم اگلے سو سال کی سوچتا تھا۔ جانے کے باوجود اس کا تمام اسلامی ملکوں پر قبضہ برقرار ہے۔ صدقے جاؤں اس آزادی کے۔ آج تمام اسلامی ممالک پہلے سے زیادہ سامراج کے غلام ہیں۔ غزہ جنگ اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ پہلے اکہری غلامی تھی۔ اب یہ دوہری تہری کئی طرح کی غلامی ہے۔ غلامی کا شکنجہ پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو گیا ہے۔ اس غلامی کے مختلف النوع شکنجے سے نکلنا ناممکن سا ہو گیا ہے۔ آزادی خیرات میں نہیں ملتی۔ اس کے لیے خون دینا پڑتا ہے۔ تب جا کر حقیقی آزادی کا سورج طلوع ہوتا ہے۔

اس مارچ سے بہت ہی عجیب وقت شروع ہو رہا ہے۔ جو پوری دنیا پر اثر انداز ہوگا۔ 25مارچ کو چاند گرہن ہوگا۔ اس دفعہ نہ صرف شمالی امریکا بلکہ جنوبی امریکا بھی متاثر ہوگا۔ امریکا کی کئی ریاستیں فلوریڈ اکیلیفو رنیا سمیت کئی ریاستیں متاثر ہوں گی۔ برطانیہ سمیت یورپ کے کیے ممالک متاثر ہوں گے دور دراز آسٹریلیا نیوزی لینڈ بھی نہیں بچ سکیں گے۔ کیونکہ یہ چاند گرہن 18سال بعد ایک خاص جگہ اور ایک خاص ڈگری پر لگ رہا ہے۔

مشروق وسطی بھی متاثر ہوگا۔ پاکستان بھارت ہر طرح کی قدرتی آفات کی لپٹ میں آئیں گے۔ سویلین بے چینی اپنے عروج پر ہوگی۔ 8اپریل کو بھی مکمل سورج گرہن ہوگا جس کے بدترین اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے۔ دنیا میں حکومتیں لرزہ براندام رہیں گی۔گرہنوں کے اثرات ایک مہینہ یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہ سکتے ہیں ۔دو گرہنوں کے درمیان کا وقت ۔ اﷲ خیر کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔