- گھٹیا مہم کسی کے بھی خلاف ہو ناقابل قبول ہے:فیصل واوڈا
- چیمپئنز ٹرافی پاکستان میں ہی ہوگی، ٹیموں کو شیڈول بھیج دیا ہے، چیئرمین پی سی بی
- پنجاب کی بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ، 49 افسران کے تبادلے
- یوم مزدور پر صدر مملکت اور وزیراعظم کے پیغامات
- بہاولپور؛ زیر حراست کالعدم ٹی ٹی پی کے دو دہشت گرد اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک
- ذوالفقار علی بھٹو لا یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے لیے انٹرویوز، تمام امیدوار ناکام
- پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان
- گجر، اورنگی نالہ متاثرین کے کلیمز داخل کرنے کیلیے شیڈول جاری
- نادرا سینٹرز پر شہریوں کو 30 منٹ سے زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا، وزیر داخلہ
- ڈونلڈ ٹرمپ پر توہین عدالت پر 9 ہزار ڈالر جرمانہ، جیل بھیجنے کی تنبیہ
- کوئٹہ میں مسلسل غیر حاضری پر 13 اساتذہ نوکری سے برطرف
- آن لائن جنسی ہراسانی اور بلیک میلنگ میں ملوث ملزم گرفتار
- انکم ٹیکس جمع نہ کروانے والے پانچ لاکھ سے زائد شہریوں کی موبائل سمز بلاک
- میئر کراچی کا وزیراعظم کو خط، کراچی کے ٹریفک مسائل پر کردار ادا کرنے کی درخواست
- رانا ثنا اللہ وزیراعظم کے مشیر تعینات، صدر مملکت نے منظوری دے دی
- شرارتی بلیوں کی مضحکہ خیز تصویری جھلکیاں
- چیف جسٹس مداخلت کاروں کی خاموش سرپرستی کے بجائے تمام تجاویز سامنے لائیں، پی ٹی آئی کا مطالبہ
- کراچی پولیس کا اسٹریٹ کرمنلز کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ
- ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں پشاور ہائیکورٹ کی تجاویز سامنے آگئیں
- آئی ایم ایف سے 1.1 ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے اکاؤنٹ میں منتقل
یہ مہر و مہ ، یہ ستارے…
رات کا ایک پہر گزر چکا ہے خنک موسم میں صاف شفاف آسمان پر ستارے جھلملا رہے ہیں، ستاروں کی کہکشاں دیکھنا تب ہی ممکن ہے ، جب آسمان صاف ہو اور صاف آسمان لاہور سے بہت دور گاؤں میں ہی ہوتا ہے۔
لاہور میں آب و ہوا اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ سانس لینا بھی دو بھر ہو جاتا ہے، آلودہ فضا میں آسمان پر تارے کیسے نظر آئیں، لاہور سے جب وادی سوں میں آبائی گاؤں پہنچتے ہیں تو سانسیں بحال ہو جاتی ہیں اور درخت دھلے دھلے نظر آتے ہیں، تازہ ہوا طبیعت کو ہشاش بشاش کر دیتی ہے۔
میرے ایک شہری دوست ایک مرتبہ مجھ سے کہنے لگے کہ آپ جب بھی گاؤں جاتے ہیں تو دیہی زندگی پر کالم لکھ دیتے ہیں، میرا مشورہ ہے، سیاست پر زیادہ لکھیںکہ قارئین یہی پسند کرتے ہیں، مقبولیت اپوزیشن کی حمایت میں لکھنے پر ہوتی ہے۔ میں نے ان کا مشورہ سن تو لیا لیکن یہ نہ کہہ سکا کہ ہم شہروں میںچاہے کتنے ہی ماہ و سال گزار لیں لیکن گاؤں ہمارے اندر سے نہیں نکل سکتا ، جب موقع ملتا ہے، ایک دیہاتی اپنے گاؤں ضرور جاتا ہے ۔
عید کا تہواردیہات واسیوں کے لیے میل جول کا موقع بن جاتا ہے ۔ اس لیے دیہاتی عید منانے اپنے گاؤں لازمی آتے ہیں، یہی معاملہ میرے ساتھ بھی ہے ، میں بھی عید منانے گاؤں آچکا ہوں ۔ لاہور کی ہنگامہ خیز زندگی سے دور سر سبز پہاڑوں میں گھرے گاؤں میں رات کے اس پہر ہو کا عالم ہے اور سانسوں کی آواز بھی سنائی دے رہی ہے ۔ میں اپنے گھر کے برآمدے میں بیٹھا کمپیوٹر پر کالم لکھ رہا ہوں اور آسمان پر ستارے جگمگ جگمگ چمک رہے ہیں۔ حضرت اقبال فرماتے ہیں۔
یہ مہرومہ، یہ ستارے یہ آسمان کبود
کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجود
میںیہ سوچ رہا ہوں کہ یہ وہی گاؤں ہے جہاں میرے آباؤ اجداد پلے بڑھے، بارانی زمینوں پر اجناس اگا کر بچوں کو پڑھایا لکھایا اور ایک باعزت زندگی گزاری۔میرے مرحوم والد بھی اسی گاؤں سے ابتدائی تعلیم حاصل کر کے لاہور منتقل ہوئے اور اپنے وقت کے جید اساتذہ کرام سے جدید علوم کے علاوہ عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا، پھر اسی تعلیم کے زور پر صحافت کی دنیا میں قدم رکھا اورجدید سیاسی کالم نگاری کے بانی کہلائے ۔
ان کے لیے یہ باعث حیرت ہوتا کہ جس گاؤں میں بنیادی سہولتیں تک دستیاب نہیں تھیں ، آج وہاں کمپیوٹر کے ذریعے کالم لکھ کر اخبار کے دفتر کو بجھوائے جارہے ہیں۔ میں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہوں جس نے گاؤںکے اسکول میں ٹاٹ پر بیٹھ کر ابتدائی تعلیم حاصل کی، اپنے اساتذہ کی ڈانٹ ڈپٹ بھی سہی اور لالٹین کی روشنی میں کتابوں کا مطالعہ بھی کیا۔ لاہور سے بہت دور پنجاب کی وادی سون میں بجلی کے قمقمے 1985 کے بعد روشن ہوئے۔
اس سے قبل لالٹین ہوتی تھی، یہ لالٹین گاؤں کے دکانداروں کے پاس بھی دستیاب ہوتی تھیںلیکن لنڈی کوتل کی لالٹینیں بہت مشہور تھیں اورجب کوئی فوجی چھٹی آرہا ہوتا تھا تواسے خط لکھ کر لنڈی کوتل کی لالٹین لانے کی فرمائش کی جاتی تھی۔ گاؤں میں چند ایک متمول گھرانوں میں کیروسین کے لیمپ بھی ہوتے تھے جو خاص موقع پر ہی روشن کیے جاتے تھے۔آج کے جدید زمانے میں یہ پائیدارچیزیں متروک ہو گئی ہیں اور ان کی جگہ چائنہ سے درآمد شدہ بجلی کی لائٹوں نے لے لی ہے۔
دیہات میں زندگی ماضی کے مقابلے میں بہت آسان ہو گئی ہے، اب شہر کی سہولتیں دیہاتوں میں بھی دستیاب ہیں لیکن اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ روز گار کی ہے جو گاؤں میں دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی کسی حکومت نے یہ کوشش کی ہے کہ دیہات میں روز گار کے مواقع پیدا کیے جائیں تاکہ دیہات سے شہروں کو نقل مکانی کم ہوسکے،بدقسمتی سے ہماری حکومتوں کا سارا زور چند بڑے شہروں کی ترقی پر ہے، دیہات کو مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کا خمیازہ شہروں میں بے پناہ آبادی کی صورت میں ہم بھگت رہے ہیں۔
آج بھی دیہات میں کھیتی باڑ ی کے سوا کوئی روز گار نہیں ہے البتہ سہولتیں زیادہ ہو گئی ہیں، جن کے لیے جیب گرم ہونی چاہیے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ روزگار ہوگا۔ بشرط زندگی مزید معروضات اگلے کالم میں ابھی تو قارئین کو عید مبارک۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔