سائفر کیس میں وزارتِ خارجہ کے بجائے داخلہ مدعی کیوں بنی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

ویب ڈیسک  بدھ 17 اپريل 2024
فوٹو:فائل

فوٹو:فائل

 اسلام آباد: چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ مقدمے میں وزارتِ خارجہ کے بجائے وزارتِ داخلہ مدعی کیوں تھی؟ 

بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی۔ ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل میں کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی تین لوگوں کے ساتھ ایک آڈیو سامنے آئی جس میں شاہ محمود قریشی، اعظم خان اور اسد عمر محو گفتگو ہیں، ایف آئی اے نے اپنی ٹیکنیکل رپورٹ میں بتایا کہ یہ گفتگو کی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا آپ کہہ رہے ہیں کہ ایف آئی اے کی رپورٹ تصدیق کر رہی ہے کہ یہ گفتگو ہے؟

پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہا کہ سامنے آنے والی آڈیو میں سائفر کے ساتھ کھیلنے کا تذکرہ ہے، وفاقی کابینہ کی منظوری سے ایف آئی اے میں انکوائری رجسٹر ہوئی۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے پوچھا کہ وزارتِ خارجہ کے بجائے وزارتِ داخلہ مدعی کیوں تھی؟ بانی پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے اس نکتے پر بہت زور دیا ہے۔

پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ میں آگے چل کر اس متعلق عدالت کی معاونت کروں گا، سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر نے اکتوبر 2022 میں پہلی شکایت درج کرائی، ستمبر 2023 کو نئے سیکرٹری داخلہ آفتاب درانی نے دوسری شکایت جمع کرائی، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مطلوبہ ضرورت پوری کرنے کیلئے دوسری شکایت دائر کی گئی، 16 اگست 2023 کو ایف آئی اے نے بانی پی ٹی آئی کا جسمانی ریمانڈ مانگا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت نے بانی پی ٹی آئی کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا۔

پراسیکیوٹر ایف آئی اے نے کہا کہ 16 اگست کو بانی پی ٹی آئی کو گرفتار کیا گیا، شاہ محمود قریشی کو 19 اگست 2023 کو گرفتار کیا گیا، 3 اکتوبر 2023ء کو ملزمان کے خلاف چالان جمع کروایا گیا، 23 اکتوبر کو ملزمان پر فردِ جرم عائد کی گئی جو ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دی، 13 دسمبر 2023ء کو دوسری بار فردِ جرم عائد کی گئی، انکوائری کے دوران معلوم ہوا کہ سیکشن 5 اور 9 کی خلاف ورزی کی گئی، انکوائری کی بنیاد پر ایف آئی آر 2023 میں درج کی گئی۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت 15 اگست 2023 کو ایف آئی آر درج کی گئی،  اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جیل ٹرائل کالعدم قرار دیا گیا، پہلے مرحلے میں 17 سماعتیں ہوئیں اور تین گواہوں کے بیانات قلمبند ہوئے، 21 نومبرکو اسلام آباد ہائیکورٹ نے ٹرائل کالعدم قرار دے دیا تھا، وزارتِ قانون نے لاہور ہائی کورٹ رولز کے تحت جیل کو عدالت ڈیکلیئر کیا تھا، 13 دسمبر 2023 کو دوسری بار فرد جرم عائد کی گئی ، وزرات قانون نے دو نوٹفکیشن جاری کیے جس کے مطابق جیل ٹرائل ہوا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل نوٹی فکیشن کے مطابق ہوتا ہے؟

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ جج کی تعیناتی ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت کے بعد کی جاتی ہے آپ نے ایسا کیا تھا؟

ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے کہا کہ ہاں اس طرح سے کیا تھا ، ٹرائل کے دوسرے مرحلے میں 12 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے، ٹرائل کے تیسرے مرحلے میں 16 جنوری 2024 کے ٹرائل کورٹ آرڈر کے مطابق گواہوں پر جرح پر دونوں فریق مطمئن ہیں۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ  بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلاء کون تھے؟ پھر ایڈووکیٹ جنرل کی جانب سے مقرر کیے گئے وکلاء کون تھے؟

چیف جسٹس نے پوچھا کہ ملزمان کے اپنے وکلاء کون تھے جن کے وکالت ناموں پر انہوں نے دستخط کیے؟ پھر وہ وکلاء کون تھے جن کو ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے ملزمان کیلئے مقرر کیا؟

جسٹس حسن اورنگزیب نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے اپنے وکلاء اور ایڈووکیٹ جنرل کی طرف سے مقرر کردہ وکلاء کا تقابلی جائزہ بہت ضروری ہے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ 25 گواہوں کے بیانات ریکارڈ ہوئے، 24 جنوری کو 4 گواہوں پر جرح مکمل ہوچکی تھی، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے وکلاء کی غیر موجودگی کی وجہ سے اسٹیٹ کونسل مقرر ہوئے۔

میاں گل حسن اورنگزیب نے پوچھا کہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے وکالت نامے کن وکلا کے دیے گئے؟ کیس میں جنہوں نے جرح کی ان تمام وکلاء کی سی ویز عدالت جمع کروا دیں۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ 26 جنوری 2024ء کو اسٹیٹ کونسل مقرر کیے گئے، 27 جنوری 2024 کو اسٹیٹ کونسلز نے جرح کی، 30 جنوری کو جرح مکمل ہوتی ہے اور 342 کا بیان ریکارڈ ہوتا جن پر ملزمان دستخط نہیں کرتے۔

ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے کہا کہ 30 جنوری 2024 کو گواہوں پر جرح مکمل ہوئی، 31 جنوری کو ملزمان کا دفاع کا بیان مکمل ہوا۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ  فیصلہ کب ہوا؟ اس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ 30 جنوری کو ہی فیصلہ سنایا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 31 جنوری کو دفاع کا بیان ہوا تو 30 کو فیصلہ کیسے ہوا؟ اس پر انہوں نے کہا کہ میں معذرت چاہتا ہوں میرے پیچھے مشورے دینے والے بہت ہیں، 30 جنوری کو دفاع کا بیان ہوا اور اسی دن فیصلہ ہوا۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ 30 جنوری 2024ء کو ٹرائل کورٹ نے سائفر کیس میں ججمنٹ دی، شاہ صاحب آپ دلائل کے لیے کتنا وقت لیں گے؟ اس پر حامد علی شاہ نے کہا کہ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا، کوشش کروں گا کم وقت لوں، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے سلمان صفدر کو وقت دیا آپ کو بھی دیں گے۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت 22 اپریل تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔