نجیب خان سے نجیب الدولہ تک کا سفر

روخان یوسف زئی  اتوار 21 اپريل 2024
ان کی شجاعت اور بہادری سے مرہٹے ہمیشہ خوفزدہ رہتے تھے  ۔ فوٹو : فائل

ان کی شجاعت اور بہادری سے مرہٹے ہمیشہ خوفزدہ رہتے تھے ۔ فوٹو : فائل

ہندوستان اور پختونوں کا تعلق بہت قدیم ہے اور یہ تعلق ہزاروں سینکڑوں سالوں پر محیط ہے جس کا ثبوت ہندوستان اور پختونوں کی قدیم تاریخی کتب و آثار بھی ہیں اس لئے جس طرح پختونوں کی تاریخ ہندوستان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے اسی طرح ہندوستان کی سیاست اور حکمرانی کی تاریخ میں بھی کوئی مورخ پختونوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتا، کیوں کہ اسی قوم نے اس وقت کے متحدہ ہندوستان پرکئی صدیاں حکم رانی کی ۔

وہاں اپنی حویلیاں اور اپنے قبیلوں اور اشخاص کے ناموں سے شہر گاؤں اور محلے بنائے جو آج بھی انہی ناموں سے لکھے اور پکارے جاتے ہیں ۔ وہاں پختون نسل سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لاکھوں افراد اور خاندان رہتے ہیں ۔

آج سے کئی صدیاں قبل ہندوستان صوبہ سرحد لوگوںکے لئے وہی معاشی اہمیت رکھتا تھا جو آج کل سعودی عرب ، دوہا ، دوبئی ، قطر اور یورپ کے ممالک رکھتے ہیں ، اس لئے اس زمانے میں زیادہ تر افراد محنت مزدوری اور نوکری کی تلاش میں برصغیر کے معاشی اعتبار سے مستحکم علاقوں کا رخ کیا کرتے تھے اور اس سلسلے میں ایک بہت ہی دل چسپ روایت بختیار خلجی کے بارے میں بیان ہوتی ہے بختیار خلجی کا تعلق افغانستان سے تھا جس نے 1203 سے 1227 تک  بنگال اور بہار کے علاقوں پر مشتمل خلجی سلطنت قائم رکھی تھی کہ جب بختیار خلجی اپنے گھر سے صرف ایک جوڑا کپڑے اپنی چادر کے پہلو میں باندھ کر سفر پر روانہ ہوئے تو راستے میں کسی نے انھوں سے پوچھا کہ ہندوستان جا کر کیا کرو گے تو انہوں نے جواب دیا کہ مزدوری کروں گا۔

پوچھنے والے نے دوسرا سوال کیا کہ اگر آپ کو وہاں مزدوری نہ ملی تو پھر ؟ بختیار خلجی نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا کہ اگر مزدوری نہ ملی تو بادشاہت تو کہیں گئی ہی نہیں اسے حاصل کرنے کی کوشش کروں گا ، اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ مزدوری کی تلاش میں ہندوستان جانے والے بختیار خلجی نے اپنی بات کو سچ کر کے دکھایا ، ہندوستان کی طرف مزدوری اور نوکری کی تلاش میں جانے والے ہزاروں پختونوں کی حالات زندگی اور اسباب و عوامل کے بارے میں پشتو زبان کی عوامی شاعری کی مقبول صف ٹپہ میں بہت کچھ سمایا گیا ہے جیسا کہ

ہندوستانے شہ روپئی راوڑہ

پہ کورونو روپومے پلار نہ در کوینہ

(ہندوستانی بن کر ڈھیر سارے روپے لے کر آؤ یہاں کے نوٹوں پر میرے والد آپ کو میرا رشتہ نہیں دیتے)

گاڈیہ سردے دویشتو دے

زما جانان دے پہ دکن اولگونہ

(اے گاڑی تمہیں تو سر پر مارنا چاہئے کہ تم نے میرے محبوب کو دکن تک پہنچا دیا)

چوں کہ ہمارے موضوع کا مرکز نواب نجیب الدولہ ہے اس لئے اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہوئے ان کی زندگی اور جدوجہد کے بارے میں جو کچھ معلومات مختلف تاریخی کتابوں سے ہاتھ آئی ہیں ان میں پڑھنے والوں کو شریک کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں، نجیب خان صوبہ خیبرپختون خوا کے ضلع صوابی کے مشہور گاؤں مانیری کا رہنے والا تھا جو 1119 ہجری میں سردار اصالت خان کے گھر پیدا ہوا۔

سردار اصالت خان ابن ملک عنایت خان ابن منیر خان ابن نظیر خان ابن اسماعیل خان مندڑ عمر خیل کے ایک بہت بڑے سردار اور مشیر تھے اور اپنے گاؤں مانیری کے علاوہ دیگر قریب و جوار کے موضعات میں بہ اعتبار بزرگی و شرافت و ناموری ایک امتیازی درجہ رکھتے تھے ۔ نجیب خان کے چچا سردار بشارت خان اس زمانے میں تجارت اسپ (گھوڑوں) کیا کرتے تھے ، چناں چہ وہ جب تجارت کے سلسلے میں ہندوستان گئے تو اپنے دیگر ہم وطن روہیلوں جنہوں نے بمقام کھیڑ پر اپنی حکومت قائم کر لی تھی ، ان کے پاس مقیم ہوئے ،کچھ عرصہ بعد انہی ہم وطنوں کی معاونت سے پلاس پور تحصیل رام پور پر قبضہ جمایا اور ایک خوش حال رئیس بن گئے اور اپنے نام سے موضع بشارت نگر آباد کیا مگر بشارت خان پھر بھی باقاعدگی کے ساتھ اپنے وطن اور گاؤں مانیری آتے جاتے تھے ۔

نجیب خان کی ابتدائی تربیت چوں کہ ان کے اپنے ماں باپ کے زیر سایہ گاؤں مانیری میں ہوئی تھی ان کے والد اصالت خان کو لکھنے پڑھنے سے کچھ لگاؤ نہ تھا اس لئے وہ اپنے بیٹے کو ایک اچھا سپاہی بنانے میں فخر سمجھتے تھے ۔ چناں چہ نجیب خان کو بھی حرب سے واقف اور شہ سواری میں طاق کرایا گیا اور اپنا آبائی پیشہ جاگیر داری اپنایا ۔ مگر نجیب خان میں قدرت نے سرداری کی خُو بُو رکھی تھی کیوں کہ ان کی تربیت اپنے علاقے کے ایک مشہور سردار کے گھر ہوئی تھی ۔ اپنے ہم عمر دوستوں اور قرب و جوار میں ان کی جرات و بہادری کی شہرت عام ہوئی ۔ بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ تمام علاقہ ان کے نام سے کانپتا تھا ۔

اس دوران جب ان کے چچا بشارت خان عرصہ بعد اپنے گاؤں مانیری آئے اور نجیب خان کی بہادری اور جرات کے قصے اور کارنامے گاؤں کے مردوں اور عورتوں کی زبان پر سنے تو سمجھ گئے کہ اس لڑکے کا یہاں رہنا اتنا فائدہ مند نہیں جتنا ہندوستان میں ہے ، اس لئے اپنے بھائی سردار اصالت خان اور اپنی بھاوج کو بمشکل راضی کر کے نجیب خان کو 1150ھ میں اپنے ساتھ لے گئے ، بشارت خان کی ایک دختر نواب سید علی محمد خان کو منسوب تھی جب کہ دوسری دختر کو نجیب خان کے نام منسوب کر دیا جن سے نواب ضابطہ خان پیدا ہوئے۔

اس حوالے سے نجیب خان اور نواب علی محمد خان ہم زلف تھے ، چناں چہ نواب علی محمد خان نے نجیب خان کو اپنے پاس آنولہ بلایا اور کچھ سواروں کی سرداری پر فائز کیا اور جب نواب علی محمد خان کو مغل بادشاہ (فرخ سیر) کی طرف سے سر ہند کی صوبہ داری عطاء ہوئی اور اس پر قبضہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے تو فوج کے سرداروں میں نجیب خان بھی شامل تھے ، چنانچہ سرکشان صوبہ سر ہند بہارامل زمیندار لاہنو جو بارہ ہزار ہتھیار بند سوار پیادہ رکھتا تھا اس سے مقابلہ پڑا ۔ نواب کے ہمراہیوں میں نواب دوندے خان بھی تھے انہوں نے نجیب خان کی مردانگی اور شجاعت کے جوہر دیکھے اور بہت زیادہ متاثر ہوئے ، لڑائی میں نجیب خان نے فتح پائی ، نواب نے ان کا عہدہ بڑھا دیا ، ایک ہزار سوار پیادہ کے افسر ہو گئے ، 1161ھ میں جب نجیب خان کی بیوی کا انتقال ہو گیا تو نواب دوندے خان رئیس بسولی نے اپنی دختر دُرمرجان المعروف (دُر بیگم) سے ان کی شادی کر دی اور گھر داماد بنا لیا ۔

نواب دوندے خان جو کہ خود ایک بہت نامور سردار جنگ جو لیڈر تھے کچھ عرصہ بعد ان کی اپنی فوج کا رسال دار مقرر کر دیا اور دارنگر کی تحصیل بھی سپرد کر دی ، نجیب خان میں انتظامی صلاحیتیں بھی حد درجہ تھیں، انھوں نے دارنگر (نزد امروہہ) کو اپنا صدر مقام قرار دیا اور تھوڑے عرصے میں اپنی لیاقت سے اس حصہ ملک کو ایسا بنایا کہ قرب و جوار کے لوگ کثرت سے وہاں آباد ہونے لگے اور جب آبادی بڑھ گئی تو انہوں نے جملہ رفاع عام کے کام انجام دینے کی طرف توجہ دی جس دارنگر کے لوگ اور خود نجیب خان علم و تعلیم سے ناواقف تھے ان کی اولاد کے لئے مکاتب اور درس گاہ کا بندوبست کیا اور اپنی درس گاہ اور مکاتب میں زیادہ تر علماء فرنگی محل کے شاگردوں کو ملازمت پر رکھا۔

اس طرح دار نگر روہیل کھنڈ میں ایک قابل ذکر قصبہ بن گیا اور ہر طرف چرچے ہونے لگے ،لامحالہ ان تعلیمی کارناموں کا اثر دوسرے علاقوں میں بھی پڑنا تھا ، یوں دیکھا دیکھی تمام روہیل کھنڈ میں مدارس و مکاتب دیگر پختون نوابوں نے بھی قائم کر دیئے ، حافظ الملک حافظ، رحمت خان چچا خسر نجیب خان نے عظیم الشان مدرسہ قائم کیا تھا ، اس کے صدر مدرس بحر العلوم علامہ عبدالعلی فرنگی محل تھے ۔

ایک وقت وہ بھی آیا کہ جب 1162ھ کو نواب علی خان فرمانر وائے روہیل کھنڈ اور ان سے پہلے 1152ھ کو محمد خان بنگش انتقال کر گئے تو صفدر جنگ نے میدان خالی دیکھ کر دیگر سردار افاغنہ کے خلاف جنگی سازشیں شروع کر دیں اور کئی بار ان سرداروں پر لشکر کشی کی لیکن ہر بار اس کی فوج نجیب خان اور دوندے خان کی فوجوں سے شکست کھاتی رہی ، جس میں صفدر جنگ کے قطب الدین محمد خان بھی مارے گئے اور سعید آباد کے مقام پر لڑی جانے والی جنگ میں نجیب خان نے وہ داد شجاعت اور حکمت دکھائی کہ نقشہ جنگ ہی پلٹ گیا اور صفدر جنگ شکست کھا کر میدان سے بھاگ نکلے اور جس وقت نجیب خان نے اپنے مرشد حضرت شاہ ولی اللہؒ جو اس وقت برصغیر کی بدلتی ہوئی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے تھے ،کے بار بار اصرار پر افغان حکمران احمد شاہ درانی کو ہندوستان پر حملے اور مرہٹوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو ختم کرنے کی دعوت دی تو اس وقت نجیب خان کے جھنڈے تلے بیس ہزار فوج تمام ہتھیاروں سے لیس ہو کر تیار کھڑی رہتی تھی ۔

جب احمد شاہ درانی دہلی آپہنچے اور اپنی قوم کے نوابان روہیل کھنڈ کو باہم صلاح و مشورے کے لئے طلب کیا تو شعبان 1166ھ کو دربار شاہی میں اطلاع پہنچی کہ بسولی کا رسال دار نجیب خان اپنی فوج سمیت حاضر خدمت ہوا ہے ۔ غازی الدین خان عماد الملک آکر ان سے ملے اور شاہانہ تیور دیکھ کر بہت خوش ہوئے ، نجیب خان نے اپنی فوج کو دہلی شہر کی پناہ میں نیچے لاکھڑا کیا اور وہیں خیمے بھی لگا دیئے اور یہ طریقہ اختیار کیا کہ روزانہ صبح اٹھ کر دشمن (مرہٹوں) کے مورچوں پر حملہ کرتا اور شام کو شہر کے کنارے آرام کرتا ان کے اس طریقہ جنگ نے چاروں طرف ان کی بہادری کی دھاک بٹھا دی ۔

آخر کوٹلہ کی جنگ میں گشائیں جو صفدر جنگ کا سپہ سالار تھا نجیب خان کے ہاتھوں مارا گیا ۔ احمد شاہ درانی کو اس کار گزاری کی خبر پہنچی تو جوش مسرت میں شاہ کی زبان سے بے اختیار نکل گیا خان رسال دار نہیں بلکہ نجیب الدولہ نے مورچہ فتح کیا، بادشاہ کا ایسا کہنا ہی نجیب خان کا نجیب الدولہ کہلائے جانے کا سبب بنا، بادشاہ نے انھیں شرف بازیابی بخشا خلعت اور نوابی دی اور تمام بیرونی افواج کی اعلیٰ سرداری بھی عطاء کی ۔

اس کے بعد نواب نجیب الدولہ نے اردگرد جو فسادات اٹھتے ان کا مکمل سدباب کیا ، مظفر نگر میں چیت سنگھ نے بڑا فتنہ برپا کر رکھا تھا اور لوٹ مار مچا رکھی تھی وہ بھی نجیب الدولہ کے ہاتھوں قتل ہوا اس کے بعد نواب نجیب الدولہ اس کے مضافات پر قابض ہو گئے، اس طرح دوآبہ گنگ و چمن اور گنگا کے مشرقی اور مغربی علاقے بھی اپنے قبضے میں لے لئے۔

1753ء میں مانس ندی کے کنارے اپنے نام کا شہر نجیب آباد قائم کیا ۔ شہر کی آبادی کا اہتمام اپنے ایک ہندو کارندے کے سپرد کیا ۔ قلعہ پتھر گڑھ کی تعمیر1751ء کا مہتمم ایک مسلمان کو بنایا ، مظفر نگر کے ضلع سے بنئے کھشتری، برہمن لا لا کر آباد کئے ، اس کے علاوہ ہندوؤں کو مکانات بنے بنائے عطاء کئے ، مشہور جنگ پانی پت میں احمد شاہ درانی نے شاہ پسند خان کی فوج کو نجیب الدولہ کی پشت پر رکھا تھا تاکہ مرہٹے عقب سے حملہ نہ کرنے پائیں کیوں کہ مرہٹے سب سے زیادہ نواب نجیب الدولہ کو ختم کرنے کے درپے تھے۔

اس طرح مرہٹوں کے سردار بھاؤ کی بھی اپنی فوج کو خصوصی ہدایت تھی کہ نواب نجیب اللہ کی فوج پر پے در پے حملے کئے جائیں ، اس کا کہنا تھا کہ اگر نواب کو ختم کر ڈالا تو سمجھو کہ فتح ہم نے پائی ۔ مگر نواب نجیب الدولہ نے اپنا مورچہ بہت مضبوط بنایا تھا اور ان حالات کے پیش نظر جنگی حکمت عملی اختیار کر کے اپنی جگہ سے کچھ اس طریقے سے حرکت کی کہ بڑھتا ہوا دو کوس آگے آیا اور بھاؤ اور بسواس راؤ کی فوجوں کی پشت پر کھڑا ہو گیا جیسے ہی بھاؤ اور بسواس راؤ چاروں طرف سے اس کے گھیرے میں آگئے اور ان کے فرار کے تمام راستے روک دیئے تو ایسا گھمسان کا رن پڑا جس کو الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے ، توپیں گرج رہی تھیں۔

تیر اڑ رہے تھے اور اس کثرت سے تیروں کی بارش تھی کہ میدان میں ایک گھٹا سی چھائی ہوئی تھی ، تلواریں چمک رہی تھیں اور لڑائی تلواروں سے خنجروں اور کٹاروں سے ہونے لگی تھی اور آخر کار جنگ پانی پت میں فتح و کامرانی احمد شاہ درانی کی فوجوں نے حاصل کی اور اس جنگ میں سب سے زیادہ بہادری اور شجاعت نواب نجیب الدولہ نے دکھائی ، اللہ بخش یوسفی اپنی کتاب یوسف زئے افغان میں لکھتے ہیں کہ ’’ حقیقتاً ہندوستان میں مقیم یوسف زئے برسر اقتدار افراد نے ہی احمد شاہ درانی کو ہندوستان آنے کی دعوت دی تھی اور جب وہ وہاں پہنچے تو روہیل کھنڈ کے حافظ زمان خان اور نواب نجیب الدولہ وغیرہ کے بیس ہزار یوسف زے لشکر لئے موجود تھے ۔

اس لشکر نے پانی پت کے میدان میں چھ جنوری 1761ء کے دن مرہٹوں کی طاقت کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا تھا ۔ احمد شاہ درانی نے اس فتح کے بعد ہندوستان کے مغل حکم ران کو جو اس وقت بنگال میں تھا حکومت بخش دی اور نجیب الدولہ یوسف زئے کو حکومت کا نگران مقرر کر کے واپس لوٹ گیا اور 26 سال حکومت کرنے کے بعد 1772ء بمطابق 1182ھ میں اس نے وفات پائی ۔ اس وقت اس کی عمر پچاس سال بیان کی جاتی ہے‘‘۔ نجیب الدولہ کی صحیح وفات کی تاریخ جو کہ مستند مانی گئی ہے۔ 24 ستمبر 1777ء بمطابق 1184ھ ہے ، وفات کے بعد اس کے امراء اور اہل خاندان نے ان کی میت کو نجیب آباد لے جا کر مقبرہ دربیگ میں دفن کر دی، ان کی نماز جنازہ میں شہرکے تمام باشندے موجود تھے ۔

ہندو مسلمان سب ہی نے تین روز تک سوگ منایا ان کی تاریخ وفات’’ ناظم ملک بقا‘‘ لکھی گئی ہے، نواب نجیب الدولہ اخلاق و اوصاف میں ممتاز تھے ، اپنے معاصر امراء میں اس کی سچائی اور دیانت داری کے قصے عام تھے ، نجیب الدولہ ہندو مسلمانوں کے تعلقات خوش گوار رکھتے تھے ، کوئی ایسی بات روا نہ رکھتے تھے کہ ان کی ہندو رعایا کو بار خاطر ہو اور یہی ایک اچھے حکمران کی خوبی ہے اور ایسا ہی حکمران دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی رعایا کے دلوں میں بستا ہے ۔

چناں چہ مولانا اکبر شاہ خان نجیب آبادی لکھتے ہیں کہ’’نواب نجیب الدولہ نے نجیب آباد کے بازار خاص میں کوئی مسجد تعمیر نہیں کی کہ مبادا ہندو دکان داروں کی کسی خاص حرکت سے نمازیوں کو کوئی تکلیف پہنچے نیز جب ان کی والدہ فوت ہوئی تو قبر کے لئے جو جگہ تجویز ہوئی وہ ایک ہندو کی ملکیت تھی ، اس نے انکار کر دیا تو دوسری جگہ تجویز ہوئی ، وہ بھی کسی ہندو کی تھی مجبور ہو کر نواب نے کہا کہ چلو جنازہ اپنے گاؤں مانیری (صوبہ خیبرپختون خوا) لے چلیں ،آخر ایک ہندو کو احساس ہوا اور اس نے اجازت دی کہ مقبرہ اس کی زمین میں بنایا جائے‘‘ ۔

نواب نجیب الدولہ کے متعلق اہل صاحب اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ’’ نواب نجیب الدولہ ہندوستانیوں اور یورپین کے دل پر نقش کر رکھا تھا کہ وہ ایک اعلیٰ درجہ کا آدمی تھا اور یہی شخص ہے جو قابل تعظیم اور قابل قدر ہے، مسٹر واسلٹ کی چٹھی میں جو کہ ڈاکٹر کنٹرول کو 28 مارچ 1168ھ میں لکھی تھی اس میں لکھا ہے کہ بلحاظ انسانیت اور بلحاظ حکومت کے تمام ہندوستان میں شاید نواب نجیب الدولہ ہی ایک شخص رہے گا جس کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ وہ بہت ہی بڑا مدبر اور صاحب حکمت شخص ہے جس نے پچاس سواروں کی افسری سے موجودہ (وزارت امیر الامرائی) پر محض اپنی اعلیٰ درجہ کی شجاعت و ایمان داری ، ذہانت طبع و استقلال سے ترقی کی۔

وہ ایک جری اور مستحکم رائے کا شخص تھا، ناخواندگی کا جو دھبہ اس پر لگا تھا تجربہ اور لیاقت نے وہ اس کی شخصیت سے بالکل ہٹا دیا تھا اور اس کی شرافت اور نیک طینتی نے اس کے خاندانی وقار کو بڑھا دیا تھا ، لیکن افسوس کہ نجیب الدولہ جیسی شخصیت سے آج بھی ہماری نئی نسل بے خبر ہے جس کا قصور وار ہمارے محققین، مورخ ، دانش ور ، لکھاری اور قوم پرستی کے دعوے دار سیاست دان ہیں جنہوں نے آج تک نواب نجیب الدولہ کے نام اوران کے کارہائے نمایاں سے اپنے لوگوں کو آگاہ نہیں کیا اورنہ ہی ان کے نام پر آج تک کوئی سیمینار یا کانفرنس منعقد کروائی ، اپنے اسلاف کی دعوے دار دونوں قوم پرست سیاسی جماعتیں صرف باچا خان ، ولی خان اور عبدالصمد خان اچک زئی کی زندگی اور جدوجہد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں جب کہ اپنی دیگر تاریخی شخصیات کا نام و نشان تک نہیں لیتیں جو کہ ایک بہت بڑی تاریخی غلطی کے مرتکب ہو رہی ہیں ، صرف اپنی اپنی سیاسی گھڑیوں کی سوئیاں آگے بڑھا کر یہ سمجھتی ہیں کہ اس طرح ہم وقت کی رفتار کو تیز کر رہے ہیں یا یہ کہ کسی پھل کو چراغ کی گرمی کے ذریعے تیزی سے پکانے کی ناکام کوشش میں لگے ہوئے ہیں حالاں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مستقبل تاریخ کے نئے تصورات کے ہاتھ میں ہے اور یہ نئے تصورات ہم اپنے ماضی کے کھنڈرات کی بنیادوں سے اچھی طرح اخذ کر سکتے ہیں کیوں کہ جو قوم اپنے ماضی کو بھلا دیتی ہے مستقبل کی ڈور اس کے ہاتھ کبھی نہیں آسکتی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔