نئی سرد جنگ

جاوید قاضی  اتوار 28 اپريل 2024
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

امریکن کانگریس نے امریکا میں چین کی مشہور موبائل ایپ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کردی ہے اور اس حوالے سے امریکن کانگریس نے بھاری اکثریت کے ساتھ بل پاس کردیا۔

تقریباً سترہ کروڑ امریکی شہری جو امریکا کی آدھی آبادی کے برابر ہیں، وہ ٹک ٹاک کے سبسکرائبر تھے اور اب وہ چین کی اس مشہور ایپ کی شارٹ وڈیوز سے محروم ہوگئے۔ امریکا میںٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے سے امریکا اور چین کے تعلقات میں مزید کشیدگی آگئی ہے۔ جس دن امریکا نے ٹک ٹاک پر پابندی لگائی ٹھیک اسی دن امریکا نے یوکرین، تائیوان اور اسرائیل کے لیے سو ارب ڈالرکی فوجی امداد کا بل پاس کیا۔

امریکا کے ان اقدامات سے یہ تاثر بن رہا ہے کہ دنیا میں ایک نئی صف بندی ہونے جارہی ہے۔ یورپ اس بات سے قطعاً متفق نہ ہوگا کہ یوکرین ، روس سے شکست کھائے اور اس حوالے سے حال ہی میں یورپی یونین کے سربراہ نے اپنا بیان بھی جاری کیا ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ اگر یوکرین، روس سے جنگ ہار جاتا ہے تو یورپ کی سیکیورٹی کوکئی خدشات کا سامنا ہوگا۔

اس پس منظر میں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دنیا ایک نئی سرد جنگ کی طرف جارہی ہے۔ دنیا پھر بلاکس میں بٹ جائے گی۔ پچھلی سرد جنگ کے بعد، امن کے زمانے میں ہم جیسے ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی کو اپنے ملکی مفادات کی رو سے ترتیب دیتے اور آگے بڑھتے تھے، اب یہ معاملات پھر دوسروں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں۔

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران امریکی وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے دو، تین مرتبہ ان ممالک کو یہ مشورہ دیا کہ ایران سے تعلقات میں اجتناب برتیں۔ بیرونی قرضوں تلے دبا ہوا پاکستان اس وقت آئی ایم ایف کو آٹھ ارب ڈالرکے قرضے کی نئی درخواست ڈال چکا ہے، وہ آئی ایم ایف جن پر امریکا اور یورپین ممالک کا غلبہ ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کے لیے ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانا بہت دورکی بات ہے۔ اس وقت پاکستان ایسی پوزیشن میں نہیں کہ وہ امریکا کو ناراض کرسکے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ایران پر اس وقت کئی بین الاقوامی پابندیاں عائد ہیں۔ ایران، پاکستان گیس لائن منصوبے میں ایران نے اپنے حصے کی پائپ لائن مکمل کردی ہیں مگر ہم لوگ کام کا بقیہ حصہ مکمل کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے ہم پر کئی پابندیاں لگ سکتی ہیں جس کا بوجھ ہماری کمزور معیشت برداشت نہیں کر سکتی، اس لیے یہ کام ہم نے ادھورا چھوڑ رکھا ہے۔ ایرانی صدر نے بھی اپنے دورے کے دوران اس منصوبے کا تذکرہ نہیں کیا، کیونکہ وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی اس حوالے سے اپنی مجبوریاں ہیں۔

اس وقت پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں ہے۔ ماضی میں پاکستان امریکی بلاک، سیٹو اور سینٹوکا حصہ رہا ہے، ہم ایک ایسی فرنٹ لائن اسٹیٹ رہے، جن سے امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اپنے اپنے مفادات حاصل کیے اور اس ضمن میں پاکستان نے ایک بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ ہم امریکا کے اتحادی ہونے کی صورت میں بھاری قیمتیں نہ بھی ادا کرتے مگر پاکستان جن حالات اور تضادات کے پس منظر میں معرضِ وجود میں آیا تھا وہ یہ تھے کہ اس ملک کی سیاسی قیادت بڑے بحران میں تھی۔ پاکستان میں اقتدارکی رسہ کشی اور داخلی جنگ نے ہمیں مزید سرد جنگ کی طرف دھکیلا۔

ایران بلوچستان میں میزائل داغ چکا ہے، جواب میں پاکستان نے بھی میزائل داغے جو اپنے درست نشانوں پر لگے۔ ہندوستانی جاسوس کل بھوشن یادیو ایران کا بارڈر پار کر کے پاکستان کی حدود میں آیا تھا جو بعد میں گرفتار کیا گیا۔ ایران کو ہم نے بارہا یہ باورکروایا ہے کہ پاکستان کی سرحدیں ایران کے خلاف استعمال نہیں کی جائیں گی، یہ اور بات ہے کہ کچھ نان اسٹیٹ ایکٹر نہ صرف ایران کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہیں بلکہ ان سے پاکستان کو بھی دہشت گردی کا خطرہ ہے۔

مشرقِ وسطیٰ کے تضادات گہرے اور شدید ہوتے جا رہے ہیںاور دوسری طرف یورپ اور روس کے۔ دونوں تضادات یعنی یورپ اور روس کی کشیدگی اور اسرائیل پر غزہ پر حملوں کا بیک وقت آپس میں گہرا تعلق ہے۔ تائیوان اور چین میں بھی شدید ٹکراؤکی کیفیت جاری ہے اور انھیں تضادات میں نارتھ کوریا بھی ہے۔ یہ نئی سرد جنگ ایک لحاظ سے اس پرانی روش کا اظہار ہے جو سوویت یونین اور مغرب کے درمیان تھی، لبرل ڈیموکریسی، مارکیٹ اکانومی یا پھر یوں کہیے کہ کیپٹل ازم یعنی سرمایہ داری نظام اور اشتراکی نظام کے درمیان میں تھی۔ اشتراکی اقدار معاشی طور پر پیچھے رہ گئے۔ ان اقدار سے اسٹالن اور چاؤ سسکو جیسے آمروں نے جنم لیا۔

اشتراکی اقدار میں اندرونی احتساب کے نظام کمزور تھے، افسرِ شاہی نے اقتدار پر قبضہ جما لیا، جب کہ مغرب کے پاس آئین تھے، انسانی حقوق کی اقدار تھیں، جمہوریت تھی۔ اس طرح دنیا کے ایک سسٹم نے دوسرے سسٹم کو شکست دے دی۔ آج بھی اس بلاک میں آمریتوں کا غلبہ ہے، وہ چاہے پھر روس کا پیوٹن ہو یا پھر چین کا ون پارٹی سسٹم یا پھر ایران۔ اس بلاک میں ایسے بھی ممالک ہیں جو ہیں تو مغرب کے ساتھ لیکن آئین ،جمہوری اقدار یا پھر کوئی سسٹم نہیں رکھتے جیسا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات یا پھر مصر اور پھر اس بلاک میں اسرائیل بھی ہے۔

ماضی کی سرد جنگ میں مغرب کے بلاک کے ساتھ جنرل ضیاء الحق جیسے آمر بیٹھے تھے اور اشتراکی نظریے رکھنے والے سوویت یونین میں بھی آمر تھے۔ یہاں آمریت اس لیے پنپ رہی تھی کہ ان ممالک میں جمہوری قوتیں کمزور تھیں۔ اصول یہ تھا کہ امریکا یا مغربی بلاک اور سوویت یونین دونوں بلاک میں ایسے آمروں سے گریز کیا جاتا لیکن اصولوں کی پرواہ نہ کی گئی جب یہ اصول ان کے مفادات کے ٹکراؤ میں ہوتے تھے۔حالیہ منظر نامے میں پاکستان کی صورتحال واضح نہیں ہے کہ پاکستان کس بلاک میں ہے اور وہ اس لیے بھی کہ شاید ہم غیر وابستہ ہیں، جیسے ہندوستان ماضی میں تھا وہ سوویت یونین کے قریب تھا مگر اس بلاک کا حصہ نہ تھا۔

کیری لوگر بل کے بعد ہماری اسٹبلشمنٹ امریکا سے نالاں ہوئی کہ ماضی کی طرح امریکا نے ہمارے ساتھ اب براہِ راست بات کرنا چھوڑ دی ہے۔ ہماری اسٹبلشمنٹ نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے افغان پالیسی اپنائی، طالبان سے تعلقات برقرار رکھے۔ چین کی ا بھرتی طاقت کے پیشِ نظر ہندوستان مغرب کے قریب ہوا اور ہمارا چین کے قریب ہونا امریکا کوکھٹکنے لگا۔

ٹک ٹاک پر پابندی اور ایک سو ارب ڈالرکی فوجی امداد کی منظوری یوکرین، تائیوان اور اسرائیل کے لیے اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ امریکا اور چین کے تعلقات آنے والے دنوں میں کشیدہ ہونے جا رہے ہیں۔ ہم نہ ایران کی طرف جاسکتے ہیں اور نہ ہی چین کی طرف۔ عمران خان کی حکومت میں جو بغاوت کا ایک پہلو نظر آیا تھا اس میں کچھ مودی اور کچھ امریکا کی سوچ کا عمل دخل تھا،کیونکہ یہ دونوں ممالک پاکستان کی ایٹمی حیثیت سے گھبراتے ہیں۔

اس وقت ایک طرف ہم اپنے معاشی بحران کو قابو کرنے کی تگ ودو میں ہیں، دوسری طرف جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن اس بات کا ادراک بھی ہمیں ہونا چاہیے کہ دنیا کے اندر بڑھتے ہوئے تضادات کسی بھی وقت ہمارے لیے نئے چیلنجز پیدا کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔