صاحب بہادر

شہلا اعجاز  اتوار 5 مئ 2024

ماحول میں ایک سراسیمگی سی پھیلی تھی۔ دکانیں بند، سڑک پر ایک ہوکا عالم، ابھی چند دن پہلے ہی تو وہاں ایک ہلچل بپا تھی جو روزمرہ کا معمول تھی، دکانوں پر گاہکوں کا رش، کہیں کام جاری ہے، پرانے سامان کی توڑ پھوڑ، ردی پیپرکی جانچ پڑتال، فرنیچر اور دروازے کھڑکیوں کی مرمت اور بنائی، ایک مصروف اور چلتی پھرتی دنیا کا عکس، پھر یہ اچانک کیا ہوا؟ اس ایک روڈ پر ہی کیا عام سڑکوں پر بھی ٹریفک کی سست روی نظر آئی وہ ہجوم، وہ افراتفری، وہ شور…. خیریت تو ہے کیا ہوا؟

اپریل کی آخری تاریخیں اور حکومت کا انتباہ۔

یہ ایک تکلیف دہ حقیقت ہے کہ ہمارا ملک آج اس عجیب دشوار دور سے گزر رہا ہے جو پچھلے دس بارہ سال سے ابھی تک کم و بیش اسی طرح کے مصائب سے نبرد آزما رہا ہے بہت سے لوگوں نے تو اسے معمول کی بات ہی سمجھ لیا لیکن اب پانی سر سے اونچا ہوتا دکھائی دیتا ہے، ایک کے بعد ایک سیاسی و معاشی بحرانوں نے ہمارے ملک کا جو حال کیا ہے اس پر اشک بہانا عبث۔ اب تو وہ بھی قرضے کی جکڑن سے خشک ہو چکے ہیں۔ ہم ایک صابن کی چھوٹی سی ٹکیہ پر بھی سیلز ٹیکس کے نام پر ادائیگی کرتے ہیں، ایک سموسے پر بھی سیلز ٹیکس ادا کرتے ہیں، اب یہ ان لوگوں کا ایمان کہ وہ ٹیکسز ٹوکرے بھر بھر کے کہیں دفن کر دیتے ہیں یا وہ بھی عوام کے ارمانوں کی مانند سرد ہو چکے ہیں۔

سنا ہے کہ کہا گیا ہے کہ عوام کو اب ٹیکس دینا ہی ہوگا اور یہ دینے دلانے کا معاملہ اب چھوٹے گلی محلوں کے دکانداروں پر بھی لاگو ہو رہا ہے۔

”ٹھیک ہی تو ہے ناں، یہ لوگ پانچ روپے کی چیز ہمیں دس روپے میں دیتے ہیں، اب یہ بھی تو حکومت کو دیں ٹیکس۔“

”ہمیں روز بچتا ہی کتنا ہے، ہر روز تو سیل ہوتی نہیں اور پھر بجلی کے بھاری بل مالک مکان کو الگ ہر مہینے کی مد میں فکسڈ کرایہ دینا پڑتا ہے کوئی ہم سے بھی تو پوچھے۔“

”روز بچوں کو جو ہماری دکان پر کام کرتے ہیں سو روپے دیتا ہوں، ابھی ان میں سے کتنے پیچ کس پکڑ کر صرف نٹ ہی کھولتے ہیں پر ان کے غریب ماں باپ اپنے بچوں کو کام سکھانے کی آس میں ہمارے پاس بھیجتے ہیں، اب کام ہو یا نہ ہو پیسے تو بچوں کو دینے ہوتے ہی ہیں، پھر کھانے کے اخراجات الگ، بجلی اورکرائے کی دکان ہے وہ الگ، اب مہینے میں دس ہزار اوپر سے نکالنا، ہمارے بھی تو چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، میرا اپنا بچہ بھی پڑھائی کے ساتھ میرا ہاتھ بٹاتا ہے، مہنگائی دیکھیں ہم سے اپنا پورا نہیں پڑتا۔ یہ اوپر سے ٹیکس۔ سمجھیے تو ہماری مجبوریاں۔ بیوی الگ بیمار ہے کوئی ایک مسئلہ ہو تو….“

جس سے پوچھیں اس کی اپنی ہی الگ کہانی ہے۔ آنسوؤں اور دکھوں سے بھری لیکن سب سفر میں ہیں۔ 1947 میں ابتدا ہوئی اس ٹرین جس کا نام پاکستان ہے، اب نہایت سست روی سے چل رہا ہے، اس ٹرین کے مال کے ڈبے نہ جانے کیسے اور کب خرد برد ہوئے، پتا ہی نہ چلا، ابھی تک ان کا سراغ نہیں ملا ہے۔ اب بھی مال کے ڈبے تو جڑے ہیں پر مال ندارد۔ سنا ہے کہ کسی بیرونی بڑے قرضہ فراہم کرنے والے نے دیا تو ہے پر یہ کس ڈبے اور کس خانے میں جاتا ہے خدا جانے۔

9300 ارب روپے کے ٹیکس جمع ہوئے ہیں اور سننا چاہتے ہیں کہ کتنے زرمبادلہ میں ملے، پورے تین سو ارب ڈالر سے زائد قومی آمدنی کے باوجود ہم تو مفلس ہی ہیں۔ ایک دبی سی آواز ابھری۔

1947 سے پہلے کی کہانی بہت دکھ سے بھری تھی، انگریز سرکار تھی سنا ہے کہ وہ انگریز جو برصغیر میں قدم رکھنے سے پہلے غربت سے تنگ آ چکے تھے اپنی کشتیاں وہیں جلا کر یہاں آئے تھے یہ سرزمین ہی ایسی ہے سونا اگلتی، اب بھی ذرا پڑوس میں نظر تو دوڑائیں، یقینا مسلمانوں کے ساتھ بہت برا ہو رہا ہے لیکن سونا اگلتی زمین سے سونا سمیٹ کر اپنے ملک کی ترقی پر لگا رہے ہیں، اب وہ جیتیں یا ہاریں پر اپنی دھرتی کے لیے جیتے ہیں۔

بات انگریز سرکارکی نکلی تو ذکر ہو جائے رابرٹ کائیو کا جنھیں سراج الدولہ کو میر جعفر کی غداری کے بعد راتوں رات ایک بہت بڑا خزانہ ملا جو پانچ کروڑ کے قریب تھا۔ اس طرح وہ راتوں رات یورپ کے امیر ترین لوگوں میں شامل ہو گیا۔ بنگال سونا اگلنے والی زمین ایک باغی کی سازشوں کی بدولت ایک اچھے حکمران کے ہاتھ سے چلی گئی۔ دو سو چھیاسٹھ سال قبل پانچ کروڑ روپوں کا خزانہ کیا ہوگا، اسے سوچیے۔ اس سلطنت کے مال کا وسیع حصہ بے دردی سے اڑا لیا گیا۔

ہم آج بھی گلہ کرتے ہیں کہ انگریزوں نے ہمارے ساتھ برا کیا، بہت ظلم و ستم ڈھائے۔ انگریز کے قانون سے ایسا خوف و دبدبہ تھا کہ ایک کیل بھی ٹھونکنے کے لیے سرکار کی اجازت درکار ہوتی تھی۔ اتفاقاً 1930 کے آس پاس ایسے ہی کچھ کاغذات بھی نظر سے گزرے جن میں سرکار وقت سے کوارٹر کی دیوار کھڑی کرنے کی اجازت طلب کی گئی تھی اور یہ اجازت اس وقت کے متمول صاحب کی جانب سے تھی۔ کیا قانون اور اس کی پاس داری تھی، ہاں سوائے انگریز سرکار کے سب ہی ایک لکڑی سے ہنکائے جاتے تھے۔

سب کو ڈر ہوتا تھا، کیا امیر، کیا غریب کہ قانون کی خلاف ورزی کی تو سرکار دھر لے گی۔ حالاں کہ ان متمول صاحب کو اپنے ملازم کے لیے یہ اجازت درکار تھی، ملازم ان صاحب کا، زمین ان کی، پیسہ ان کا، مزدوری وہ ادا کرتے، سامان وہ خریدتے پھر بھی اجازت سرکار سے لینا ضروری تھی، وہ بھی ایک دیوار کی، پرانی دیوار خستہ ہو چکی تھی اسے گرانا ضروری تھا۔ ہائے کیا قانون کے پاس دار تھے۔ پرانی دیوار گرا کر اسی پر نئی تعمیر کرنا، انگریز سرکار کو کیا پتا چلتا، پر اگر پتا چل بھی جاتا تو اس کے لتّر الگ، قید الگ، جرمانہ الگ، بس ایک سرد آہ کہ آج…۔

”مبارک ہو بیٹا پیدا ہوا ہے۔ منہ کیوں لٹکا ہوا ہے؟“

دو لاکھ اٹھاسی ہزار قرضے کے ساتھ، اب ہمارے گھر کے چار نفوس ہوگئے، پورے گیارہ لاکھ باون ہزار کا قرضہ ہو گیا ہے۔“ دکھ بھرا جواب۔

غربت میں گھرے غریب انگریز برصغیر کے خطے سے نواب بن کے ابھرے تاریخ گواہ ہے۔ قوی امید تھی کہ صاحب بہادر کے جانے کے بعد راوی چین کی لکھے گا۔ راوی نے تو بہت کچھ لکھا، پر سکھ چین کا نہیں کیونکہ ابتدا سے ہی راوی کو ڈرا دھمکا دیا گیا۔ قرضوں سے جکڑ دیا گیا۔ راوی تو بے چارا عوام ہے کل بھی آسمان تکتا تھا اور آج بھی۔ پھر بھی راوی ناامید نہیں ہے کیونکہ آسمان بھی اسے دیکھ رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔