جون ایلیا خواب میں آئے

احمد اشفاق  اتوار 5 مئ 2024
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 رات محو خواب تھا کہ اچانک بستر ہلنے لگا، زوردار ہوا چلنے لگی، کھڑکیاں یوں بجنے لگیں جیسے کوئی زلزلہ آگیا ہو۔

عجیب و غریب آوازیں اور عجیب تر ماحول- حواس بحال ہوئے تو دیکھا سرہانے جون بھائی کھڑے تھے، میں حیرانی کے مارے کچھ کہہ نہ پایا بس ادب سے کھڑا ہو گیا۔ اچانک وہ مجھے دھکّا دے کر میری جگہ پر لیٹ گئے اور گویا ہوئے:

’’دفع ہو جا آرام کرنے دے‘‘

میں دم بہ خود کھڑا سوچتا رہا کہ کیا کہوں۔ کچھ دیر میں وہ خود ہی اٹھ بیٹھے اور بولے:

جانتا ہے میں یہاں کیوں آیا ہوں؟ کوئی اپنی آرام دہ قبر چھوڑ کر تجھ جیسے دیوانے کے یہاں کیوں آئے گا؟

کیوں جون بھائی؟

سکون سے سونے آیا ہوں۔

ارے جون بھائی کچھ بتائیں بھی تو…

دیکھ تیرے ساتھ کبھی ایسا ہوا ہے کہ کوئی بہت ہی لذیذ پکوان تیرے سامنے رکھا ہو، اور اس پر مسلسل کوئی مکھی ایسے منڈلا رہی ہو کہ تیرا کھانے سے دل ہی اٹھ جائے؟

جی جون بھائی ایسا ہوا ہے۔

’’یہ تصویر دیکھ اور میری کیفیت کا اندازہ کر۔‘‘

اتنا کہہ کر بھائی جون نے ایک تصویر میری طرف بڑھا دی۔ ایک صاحب بڑے بڑے بالوں میں، فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھا رکھے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک حسین خاتون، وہ بھی دعا مانگ رہی ہیں۔ اب میں سمجھا کہ جون بھائی کا دھیان بار بار کیوں بٹ رہا تھا کس کو انہوں نے مکھی قرار دیا ہوگا اور کس کو پکوان۔

اچانک رونے لگے، کچھ کہنا چاہا تو ہچکیاں بندھ گئیں، بڑی مشکل سے بولنے کے قابل ہوئے تو کہا:

جانتا ہے سب سے ناگوار مجھے کیا گزرا ہے؟؟ وہ لڑکی، غضب کی حسین لڑکی، میرے سرہانے کھڑی ہے اور اچانک اس مخلوق سے کہتی ہے، ہمارے جون !!! ابے یہ ہمارے کیا بلا ہے؟ میرے جون کہو!!!! یہ کون سی اپنائیت اور محبت ہے جس میں حصے داری ہے؟ اور اگر ہمیں بانٹنا ہی ہے تو اپنے جیسی کسی اور حسینہ کے ساتھ بانٹو۔ اب اس مخلوق کا قصہ سن۔  تجھے علم ہے کہ میں فرشتوں کو تو کسی کام کے لیے زحمت دینا مناسب نہیں سمجھتا۔ بھائی رئیس نے دو چار جو موکل چھوڑ رکھے ہیں۔

ان سے ہی کام نکلوا لیتا ہوں۔ میں نے کہا ذرا اس مخلوق کے بارے میں پتا کرو، وہ خبر لائے کہ موصوف نے ہمارے فرزند کے نام پر اپنا نام رکھا ہے۔ اس سے آگے وہ صرف اتنا کہہ پائے کہ یہ بھی شاعر ہے۔ اب جو تفصیل جاننا چاہی تو موکلوں نے معذوری ظاہر کی۔ بہت مشکل سے فرشتوں کو راضی کیا اور ان سے کہا ذرا اس کے بارے میں معلومات دیں۔ فرشتے کام پر لگ گئے اور خبر لائے کہ چوہدری صاحب……

کیا کہا، چوہدری صاحب؟؟؟؟

ارے ہاں بھئی اب نام کی بحث چھوڑو، بات سنو !!! بتایا گیا کہ بھئی اس نے آپ کے صاحب زادے کے نام پر اپنا نام رکھا ہے۔ انٹرنیٹ نامی جو بلا ہے وہ اس کو آپ کا بیٹا بتاتی ہے اور وہ تردید نہیں کرتا۔ یہ آپ ہی کے انداز میں مشاعرے پڑھتا ہے، لوگوں کے ماتھے چوم لیتا ہے، آپ ہی کے انداز میں داد دیتا ہے، شاعری میں بھی آپ کا رنگ نظر اتا ہے، بہت ساری باتیں آپ سے لیتا ہے، سنا ہے کہ پیسے بھی آپ سے زیادہ لیتا ہے۔ آپ کو بہت مانتا بھی ہے، آپ کا بہت چرچا بھی کرتا ہے۔

یہ سب سن کر ایک لمحہ کو تو دل خوش ہوا، اور ہم نے جانا کہ یہ بھی اوروں کی طرح ہمارا کوئی عقیدت مند ہوگا۔ خیال آیا کہ پھر اس نے ہمارے پاس آنے میں اتنا وقت کیوں لگا دیا؟ پوچھا کہ یہ آج سے پیشتر کیوں نہ آیا؟ کیا کراچی پہلی بار آیا تھا؟ بتایا گیا کہ نہیں، کراچی تو بہت بار آیا ہے، کبھی مشاعرے میں کبھی کسی کانفرنس میں۔ آج آپ کے ہاں اس واسطے آ گیا کہ آپ کی قبر کے قریب ایک فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی جس میں یہ ایک کردار ادا کر رہا تھا۔ ہم نے پوچھا یہ تصویر فلم پروموشن کے لیے ہے یا ہمارے لیے؟ فرشتے خاموش ہو رہے، کوئی جواب نہ دیا۔

اب دماغ تو خراب ہو ہی چکا تھا پھر بھی ہم نے فرشتوں سے کہا کہ اس کے چند شعر ہی سنا دو۔ انہوں نے کہا سن کر کیا کیجیے گا؟ آج کل شعر یا مشاعرہ سننے سے زیادہ دیکھنے کا رواج ہے۔ ہم آپ کو دکھاتے ہیں۔ یہ کہہ کر انہوں نے ہمیں کچھ ویڈیوز دکھانا شروع کر دیں۔ ہم دیکھتے جاتے اور شرماتے جاتے۔ کچھ کہنے کی ہمت ہی کہاں بچی تھی۔ تنگ آ کر ہم نے کہا ہٹاؤ اسے۔ فرشتے بولے، آپ کو پسند نہیں آیا؟ کچھ شعر تو بہت لاجواب تھے!!! ہم صرف اتنا کہہ پائے کہ اگر غالب نے مومن کا ایک شعر لے کر اپنا دیوان دینے کی بات کی تھی تو کیا غالب، مومن کو خود سے بڑا شاعر مان رہے تھے، یا مومن کا ہر شعر لافانی تھا؟؟؟

فرشتے میری کیفیت بھانپ گئے تھے انہوں نے مجھ سے کہا اگر آپ کہیں تو ہم اس کا کچھ علاج کر دیں؟ میں نے جواب دیا، نہیں!!! جانے دو !!! وقت اور تاریخ سب یاد رکھتی ہے۔ کسی اور کے رنگ میں رنگا آدمی اپنی انفرادی حیثیت میں کچھ بھی نہیں۔ آج دنیا جن کے پیچھے پاگل ہے، کل ان کا نام تک نہیں لیتی۔ یہ دنیا جن کو ان کی زندگی میں نہیں پوچھتی، مرنے کے بعد ان کے بت بنا کر پوجتی ہے۔ تاریخ انصاف کرتی ہے، وقت فیصلہ کر دیتا ہے۔ وہی کرے گا۔ مجھے کس سے کوئی شکایت نہیں کوئی شکوہ نہیں۔

جون بھائی اپنی بات مکمل کر چکے تھے، اور میرے آنسو تھے کہ بہے جاتے تھے۔ مجھے وقت کا مارا ہوا ایک ایسا شخص نظر آرہا تھا جس نے مرنے کے بعد بھی لوگوں کا وقت بدل دیا تھا، جس کی قبر بھی استعمال ہو رہی تھی۔ ایسا آدمی جسے نہ کوئی خواہش تھی، نہ کسی صلے کی امید۔

جون بھائی جا چکے تھے اور مرے کانوں میں ان کی آخری سرگوشی گونج رہی تھی:

آدمی کو ہے زمانے سے گلہ

یہ زمانہ تو خدا کا بھی نہیں

(جون)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔