کوچۂ سخن

عارف عزیز  پير 6 مئ 2024
فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

غزل
تیرے ہاتھوں سے پہننا تھا کسی سے پہنا
سرمۂ طور بھی بے راہ روی سے پہنا
تو نے بھیجا تو چلا آیا تری دنیا میں
میں نے یہ طوق کہاں اپنی خوشی سے پہنا
عشق وہ جامۂ مجذوب ہے جس کو میں نے
تیری مرضی سے بُنا، خوش طبعی سے پہنا
دھوپ نے اوڑھ لیا رنگ ترے چہرے کا
برف نے لہجہ تری سرد روی سے پہنا
تیرے دیکھے ہوئے منظر بھی دوبارہ دیکھے
تیرا اترا ہوا زیور بھی، خوشی سے پہنا
(ذی شان مرتضیٰ۔پہاڑ پور)

۔۔۔
غزل
نہ دل کسی کا مخالف، نہ میں کسی کی طرف
ازل سے محوِ سفر ہیں ہم آگہی کی طرف
خدا کا شکر محبت نے ہاتھ تھام لیا
اٹھایا پہلا قدم جوں ہی زندگی کی طرف
کوئی ستارہ مری خواب گاہ میں اترا
میں سرخ پھول لیے چل پڑا پری کی طرف
عجیب رات تھی وہ لمحۂ وصال کی رات
چراغ میری طرف تھے میں روشنی کی طرف
وہیں ملیں گے پرندے ہماری خواہش کے
تُو روز شام کو جاتی ہے جس ندی کی طرف
وہ روشنی کی بھی رفتار ہو نہیں سکتی
یوں کھینچتا ہے مجھے دل تری گلی کی طرف
دھلا ہوا ہے مرا اندروں محبت سے
کھلے ہیں دل کے در و بام ہر کسی کی طرف
میں ان دنوں بھی طرف دار تھا ترا راشدؔ
کہ جب تو میری طرف تھا نہ میں کسی کی طرف
(راشد علی مرکھیانی۔ لاڑکانہ)

۔۔۔
غزل
جسم کے ساتھ رہی روح بھی پیاسی اس کی
زخم کرتی ہے مرے دل پہ اداسی اس کی
میری آنکھوں میں عجب خوف ہے مرنے جیسا
کیسی صورت تھی وہ خوش شکل بلا سی اس کی
ٹھیک ہے اس سے تعلق نہ رکھو، مرضی ہے
حرج کیا ہو گا اگر سن لو ذرا سی اس کی
دل اگر ڈوب گیا، کون ہے ضامن اس کا؟
کیوں کسی سمت نہیں رکھی نکاسی اس کی
ایک وہ ہے کہ گوارا بھی نہیں نام ترا
اور تو ہے کہ بنی پھرتی ہے داسی اس کی
ایک تو اس سا حسیں شہر میں اور کوئی نہیں
اور پھر اس پہ حسنؔ شعر شناسی اس کی
(حسیب الحسن ۔خوشاب)

۔۔۔
غزل
حسین ہوں گے بہت آپ سا کدھر کوئی ہے
ہمیں دکھائی تو دے شہر میں اگر کوئی ہے
تمہارے جیسی تو صورت نہیں بنائی گئی
ہمارے جیسی بھی کہہ دو اگر نظر کوئی ہے
اب ایسا وقت ہے جس میں کوئی کسی کا نہیں
ہمارے واسطے لاہور میں مگر کوئی ہے
کسی کا ڈھونڈنا تنہائی اتنے لوگوں میں
کسی کا چیخ کے کہنا وہ اپنے گھر، کوئی ہے؟
کچھ ایسا قحط پڑا ہے جہاں میں پھولوں کا
کسی بیاض میں رخ پر نہ شاخ پر کوئی ہے
گھروں میں اور مکانوں میں فرق ہوتا ہے
اسے مکان ہی کہیے میاں، یہ گھر کوئی ہے
نہ جانے ایسے تعلق کا کیا بنے گا دوست
اسے ہے خوف کسی کا نہ مجھ کو ڈر کوئی ہے
عجیب صورتِ احوال ہے کہ اب انجم ؔ
تمام دن کوئی نئیں اور رات بھر کوئی ہے
(امتیاز انجم۔ اوکاڑا)

۔۔۔
غزل
تم سے بچھڑ کے پہلے میں جیسا نہیں رہا
لگتا ہے تم کو ، میں مگر ویسا نہیں رہا
الجھا دیا ہے دہر کے اِس کاروبار نے
سر میں ہمارے عشق کا سودا نہیں رہا
کچھ اس لیے بھی تم سے تمنّا نہیں کہی
جس کو بھی میں نے عمر میں چاہا نہیں رہا
یہ بھی بجا کہ میری نظر وہ نہیں رہی
یہ سچ ہے تیرا روپ بھی چندا نہیں رہا
یہ کیا کہ اُٹھ کے میکدے سے آپ چل دیے
یہ کیا خیالِ خاطرِ صہبا نہیں رہا
یارو مری مثال ہے اِک ایسے شخص کی
جس کا کوئی بھی چاہنے والا نہیں رہا
ساجدؔ کی جان آپ پر قربان ہے مگر
اس کو کبھی بھی عشق کا دعویٰ نہیں رہا
(شیخ محمد ساجد۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
کچھ انسلاک رکھا نہ دنیا و زر کے ساتھ
بنتی نہیں ازل سے مری شور و شر کے ساتھ
موقع اگر ملا ہے تو لازم ہے بات چیت
تم ناؤ سے کلام کرو، میں بھنور کے ساتھ
بیشک میری جہان میں کوئی اماں نہ ہو
لیکن ہمیشہ ربط رہے تیرے در کے ساتھ
اک تیرا ہجر دائمی مہماں رہا مرا
ورنہ تو عارضی تھے یہاں بیشتر کے ساتھ
جامیؔ خدا کی ذات پہ حق الیقین ہے
پرواز کرنے والا ہوں اک ٹوٹے پر کے ساتھ
(مستحسن جامی۔خوشاب)

۔۔۔
غزل
کیا قرینے سے ہمیں آپ نے برباد کیا
بھوک نے قید کی تشویش سے آزاد کیا
زخم خنجر سے لگانے کی روایت تھی یہاں
کسی انسان نے پھر لہجے کو ایجاد کیا
اک وفا دار قبیلے کے ہیں ہم چشم و چراغ
منتخب اس لیے ہے پیشۂ اجداد کیا
اب سرابوں کے تعاقب میں بھٹکتا نہیں کوئی
خیمۂ دشت لہو دے کے ہے آباد کیا
یہ سہولت تو مجھے میرے ہنر نے دی ہے
شعر کی شکل میں احساس کو روداد کیا
عشق حیدر ترے اعجاز کی حد کوئی نہیں
کوئی سلمان بنا اور کوئی مقداد کیا
چارہ گر کی یہ عجب عشوہ گری ہے زم زم
درد کے نسخے میں بس درد ہی ایزاد کیا
(مکرم حسین اعوان۔ گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
کفِ اِمکاں پہ خیالات کی لو میں گھل کر
میں نیا رنگ بنا، رنگِ نمو میں گھل کر
یہ خلل کون و مکاں کو ہی بہا لے جاتا
میں بہک جاتا اگر سیلِ سبو میں گھل کر
میری تفہیم سے واضح ہوئے یہ ارض و سما
روشنی عکس ہوئی میرے لہو میں گھل کر
جیسے افلاک میں اجرام بناتے ہیں جگہ
تُو بھی چمکا مرے افکار کی لُو میں گھل کر
داد ہے اُس کے فنِ بخیہ گری کو توحیدؔ
زخم ٹیٹو سا ہوا تارِ رفو میں گھل کر
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)

۔۔۔
’’نا سمجھی‘‘
ہمیں دنیا نے سمجھایا
کہ کوئی پرسش ِاحوال کو آئے
تو اس کو چارہ گر کہنا
یا اسکی زرد آنکھوں سے نمی چن کر
بدن کے ادھ کھلے زخموں پہ دھرنا
جرم ہوتا ہے!
ستارے بانٹنے سے اک ذرا پہلے
کسی کے چاک کو پیوند سے آراستہ کرنا
اور اس پر اک نئے تارے کی پیدائش کی
منت مانگ کر
بوجھل فضا میں ہاتھ لہرانے سے
حاصل کچھ نہیں ہوتا
فقط اک آس ملتی ہے
غموں پہ آنسوؤں کو نظم کی صورت پرونا
یا کسی کی ٹھوکروں کی دھول کو
اشعار کے دل میں سمونا
رائیگاں جاتے ہوئے اشکوں کو چن کر
چاند کی کرنوں کو چھونا
کھیل ہے!
اور کھیل میں جو ہار جاتا ہے
اسے ناکام کہتے ہیں!
سو وہ ناکام تو ہم ہیں
جنہیں دنیا نے سمجھایا تھا لیکن
کچھ نہیں سمجھے
(احمد اویس۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
دیپ منّت کے میں جلاتا رہا
ہوں تجھے خواب میں بلاتا رہا
زندگی ایک بھاری پتھر تھا
میں کہ رکھتا رہا اُٹھاتا رہا
جس جگہ کھینچنے تھے خط مجھ کو
میں وہاں دائرے بناتا رہا
بڑھتے سایے کو میں نے قد جانا
مجھ پہ خورشید مسکراتا رہا
اُن لکیروں پہ لگ گئی مہندی
میں یہاں زائچے بناتا رہا
بہتی ندی پہ رات بھر جگنو
شب کی تاریکیوں کو کھاتا رہا
دشت میں پیاس سے مرا ہوں عدیلؔ
گرچہ دریا مجھے بلاتا رہا
(عدیل عباس عادل۔خوشاب)

۔۔۔
غزل
سارے ہی گر رکھیں گے انسان میلی آنکھیں
کرتی رہیں گی پھر یہ نقصان میلی آنکھیں
بستے ہوئے گھروں کو،یہ صرف اک نظر سے
جاتی ہیں کر اچانک،ویران میلی آنکھیں
اے دھوکے باز میری، تیرے لئے دعا ہے
اک بار بخشے تیری، رحمان میلی آنکھیں
میں کوستا ہوں خود کو، بنتا بھی ہے مرا اب
اک عمر تک رہی ہیں، جو جان میلی آنکھیں
اے جانِ من ستم گر، آنکھوں پہ میں تری تو
سارے جہاں کی کر دوں،قربان میلی آنکھیں
میں روکتا تھا تجھ کو، اس واسطے ہی حمزہؔ
ہیں کر گئیں نہ تجھ کو ، حیران میلی آنکھیں
( رانا حمزہ کسوکی۔حافظ آباد)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔