فضل الرحمان نے حکومت مخالف تحریک کیلیے پی ٹی آئی سے گارنٹی مانگ لی

ویب ڈیسک  بدھ 22 مئ 2024
فوٹو اسکرین گریپ

فوٹو اسکرین گریپ

 اسلام آباد: جمعیت علما اسلام کے سربراہ فضل الرحمان نے اپوزیشن اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان میں شامل ہونے کے لیے تحریک انصاف سے گارنٹی مانگتے کی تصدیق کردی جبکہ انہوں نے مذاکرات کے حوالے سے سوال کیا کہ بات چیت وزیراعظم، صدر یا آرمی چیف کس سے کی جائے؟

پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اپوزیشن اتحاد میں ابھی ہم نے شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کیا مگر ہمیں منانے کی کوشش جاری ہے۔

حکومت مخالف تحریک شروع کرنے سے متعلق صحافی کے سوال کیا تحریک شروع کرنے کیلئے پی ٹی آئی سے کوئی گارنٹی مانگی ہے؟ پر فضل الرحمان نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی بالکل، جب سنجیدہ مذاکرات کئے جاتے ہیں اعتماد بحال کرنے کے لیے کچھ اقدامات کرنے چاہیئیں۔

انہوں نے مذاکرات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر کہا کہ کس سے بات کریں؟ وزیراعظم بات چیت کرے گا، صدر کرے گا یا آرمی چیف بات کرے گا؟ فضل الرحمان نے پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان رؤف حسن پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے بجائے پولیس نے تحریک انصاف پر آج دوبارہ حملہ کردیا اور دفتر میں چھاپہ مار کر تلاشی کی۔

جے یو آئی سربراہ کا کہنا تھا کہ آج حزب اختلاف عمرایوب اور اسد قیصر تشریف خیر سگالی کے لیے تشریف لائے، جس پر ہم نے انہیں خوش آمدید کہا، ان کا موقف تھا ملاقاتیں ہونی چاہئیں اور تلخیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اس جذبے کو خوش آمدید کہیں گے۔

فضل الرحمان نے کہا کہ آئین پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے اور پارلیمنٹ کی اہمیت ختم ہوچکی ہے جبکہ جمہوریت بھی اپنا مقدمہ ہار چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف آپریشن دس پندرہ سالوں سے چل رہا ہے مگر اس میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے، کچھ دن پہلے ڈرون کے ذریعے عام عوام پر حملہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بغیر منصوبہ بندی کے آپریشن کیا گیا، اس وقت چمن بارڈر پر چھ سات ماہ سے دھرنا بیٹھا ہے اور جو یہاں سے قدغنیں لگائی جاتی ہیں ان سے وہاں کے لوگوں کے کاروبار تباہ ہورہے ہیں جبکہ جنوبی وزیرستان کے انگور اڈہ پر بھی یومیہ کمانے والے لوگ باہر نکل گئے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ جمرود میں بھی لوگ سڑکوں پر ہیں اور وہ اپنا معاش چاہتے ہیں۔ لوگوں پر قدغنیں لگائی جارہی ہیں اور انہیں کوئی متبادل نہیں دیا جارہا۔ مولانا نے کہا کہ ہمارا خیال ہے مشترکات پر ہمارا موقف ایک ہوسکتا ہے، ہم اختلافات ختم نہیں کرسکتے تو اختلافات کو نرم کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان اور ان کے ساتھیوں نے کھلے دل کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا اور ہماری طویل گفتگو ہوئی، بحیثیت اپوزیشن لیڈر ہم چاہتے ہیں تحریک تحفظ آئین کے تحت ہم آئین کی خاطر یہ جدوجہد جاری رکھیں اور یہی بانی پی ٹی آئی محمود اچکزئی اور ہم سب کی خواہش ہے۔

انہوں نے کہا کہ جے یو آئی کا جلسوں کا سلسلہ چل رہا ہے، تحریک تحفظ آئین کا سلسلہ ہم نے شروع کیا ہے جس کے جلسے پورے پاکستان میں ہوں گے، آج پاکستان میں آئین نامی کوئی چیز نہیں ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ آج پی ٹی آئی کے دفتر میں پریس کانفرنس ہوئی، حماد اظہر دفتر آئے تو پولیس نے دھاوا بول دیا، پولیس بجائے رؤف حسن کے حملہ آوروں کو ڈھونڈے وہ بے گناہ شخص کے پیچھے پڑے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ چمن میں جہاں دھرنا ہورہا ہے ان کے جائز مطالبات پر حکومت کو نظر ثانی ہونی چاہیے، ماہ رنگ بلوچ کی کوئٹہ میں پریس کانفرنس ہونا تھی وہاں پریس کلب کو سیل کردیا گیا، ان اقدامات سے ملک مضبوط نہیں کمزور ہوتا ہے، جمہوریت پھلے پھولے گی تو ملک مضبوط ہوگا جبکہ ایسی صورت حال میں کوئی سرماریہ کاری نہیں آئے گی، اس وقت غیرجمہوری قوتیں بیٹھی ہوئی ہیں ہم ان کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

تحریک انصاف کے رہنما اسد قیصر نے کہا کہ مولانا نے کھلے دل سے خوش آمدید کہا جس پر ہم اُن کے مشکور ہیں، پنجاب میں گندم بحران پر کسان پریشان جبکہ خیبرپختونخوا کی معیشت بیٹھ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی بالادستی کیلئے تمام طبقات کو ایک ہونا پڑے گا، کیا کسی قانون کی حکمرانی والے ملک میں رؤف حسن پر حملے جیسا واقعہ ہوسکتا ہے۔ اسد قیصر نے کہا کہ مولانا کو اللہ نے طاقت دی ہے اور ہم چاہتے ہیں مولانا کی یہ طاقت و ہمت کو آئین کی بالادستی کیلئے استعمال کریں۔

اسد قیصر نے کہا کہ سینیٹ میں عدلیہ کے خلاف جو بات کی گئی ہم اُس کی مذمت کرتے ہیں اور ججوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں عمر ایوب نے کہا کہ پنجاب حکومت کے ہتک عزت بل کی ہم شدید مخالفت کریں گے اور اسکے خلاف عدالتوں میں جائیں گے، بانی پی ٹی آئی نے کہا تھا جتنا بھی مجھے جیل میں رکھ لیں میں اپنے موقف سے نہیں ہٹوں گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔