سبھی کو بخت پر نازاں نہایت شادماں دیکھا۔۔۔ !

عبد القادر شیخ  جمعـء 24 مئ 2024
 فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

حاجی کی جمع حجاج ہے اس کے ساتھ ایک اور لفظ عازم جس کی جمع عازمین ہے استعمال کیا جاتا ہے کہ اس کے معنٰے پختہ ارادہ کرنے والے کے ہیں۔

گویا عازمین حج وہ لوگ ہوئے جنہوں نے ابھی حج نہیں کیا ہے اور وہ آئند ہ حج کا پکا ارادہ کر چکے ہوں ایسے عازمین کو رب ذوالجلال کا شکر ادا کرنا چاہیے جس نے حج جیسی مبارک و مقدس سعادت کے لیے انہیں چنا اور اپنے دربار میں مہمان بننے کا موقع فراہم کیا۔ اس کے دربار میں سب سے مقدس جگہ خانہ کعبہ ہی ہے جس کے گرد 24 گھنٹے طواف ہوتا رہتا ہے اور پوری دنیا میں جہاں بھی مسلمان ہیں اسی کی سمت پنج گانہ و دیگر نمازیں ادا کرتے ہیں۔

اس با برکت مقام پر کئی ایک اشیاء ایسی نصب ہیں جنہیں ہر مسلمان بڑی عقیدت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس سے مس ہونے کو سعادت سمجھتا ہے۔ حجر اسود کے سمیت اس کے اردگرد اور باب کعبہ کے قریب ترین جگہ کا نام ملتزم ہے اس چھوٹی سی جگہ (پیمائش کے اعتبار سے) خصوصی طور پر دعا قبول ہوتی ہے، رتبہ کے اعتبار سے بڑی بلند ہے۔

حضرت عبداﷲ ابن عباسؓ فرماتے ہیں: ’’آپ جنابؐ نے خدا کی قسم کھا کر فرمایا کہ جب بھی ملتزم کے پاس دعا کی تو وہ ضرور قبول ہوئی۔‘‘ آنحضورؐ اسی مقام پر اپنے دونوں ہاتھ اس طرح رکھتے کہ لگتا تھا کہ اس سے لپٹ گئے ہوں اور پھر بلک بلک کر دعائیں فرماتے تھے۔

خانہ کعبہ کی قدیم تعمیر حضرت ابراہیمؑ کے دست مبارک سے ہوئی جب تعمیر مکمل ہوگئی تو آپؑ نے مشرقی سمت کی جانب زمین سے ملا ہوا ایک دروازہ رکھا جس میں نہ چوکھٹ تھی اور نہ ہی کواڑ یا پٹ۔ یہ خانۂ کعبہ میں اندر داخل ہونے کے لیے راستہ کہا جاسکتا ہے۔ قریش مکہ نے جب اسے دوبارہ تعمیر کیا تو اپنی برتری کو برقرار ثابت کرنے کے لیے اس دروازے کو زمین سے سات فٹ بلندی پر نصب کیا اور پھر اس میں پٹ یا کواڑ لگا کر تالا لگا دیا اور کلید (چابی) اپنے پاس رکھ لی۔

اس کلید بردار کو شیبی کہا جاتا ہے۔ خانۂ کعبہ پر تالا لگانے کا مقصد کتابوں میں یہ لکھا گیا ہے کہ قریش سب سے بہتر اور برتر قبیلہ اپنے آپ کو کہا کرتے تھے وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی بھی غیر قریش قبیلہ بغیر ان کی اجازت خانۂ کعبہ میں داخل ہو، تاکہ ان کی سرداری کو کوئی آنچ نہ پہنچ سکے۔ آنحضور ﷺ کی بعثت سے تقریباً سات سو سال قبل سلاطین یمن میں تبع نام کا ایک بادشاہ گزرا ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں بھی ہے، مفہوم: ’’بھلا یہ بہتر ہیں یا قوم تبع ہم نے ان سب کو ہلاک کردیا یقیناً وہ گناہ گار تھے۔‘‘ (سورہ الدخان)

مفسرین کرام لکھتے ہیں کہ تبع سے مراد قوم سبا ہے، سبا میں حمیر قبیلہ تھا جو اپنے بادشاہ کو تبع کہا کرتے تھے۔ جیسے سلطنت روم (یورپ نہیں) بل کہ شام وغیرہ کے علاقے کے بادشاہ کو قیصر فارس کے شاہ کو کسٰری، مصر کے سلطان کو فرعون اور حبشہ کے حکم رانوں کو ہیل سلاسی اور نجاشی کہا جاتا ہے۔

تبع ایک بڑی اور بہادر قوم گزری ہے جو اپنے انبیاء کی تکذیب کی پاداش میں تہس نہس کردی گئی۔ خانۂ کعبہ کا پہلا دروازہ اسی قوم نے لگایا تھا۔ باب کعبہ مختلف ادوار میں تبدیل ہوتا رہا بعض تاریخی کتب میں ہمیں اس کی تفصیل اس طرح ملتی ہے 550ھ میں گورنر موصل (عراق) نے بڑا دیدہ زیب دروازہ بھجوایا پھر659ھ جب شاہ یمن مظفر حج پر آیا تو اس نے ایک نیا دروازہ تیار کروایا جس پر 60 رطل چاندی کے پترے چڑھے ہوئے تھے۔

اس کے بعد شاہ مصر محمد بن ملادون نے چوبی دروازہ جس پر 35300 درہم چاندی چڑھی تھی بھیجا اس طرح 25 دروازے بدلے گئے پھر سلطان مراد نے 1045ھ میں دروازہ بدلا اور بہ مقدار ایک ہزار دینار سونا چڑھوایا پھر1119ھ سلطان احمد خان اور پھر ملک عبدالعزیز فرماں رواء سعودی عرب نے 1370ھ میں چاندی اور سونے سے مزین دروازہ اسی بلندی پر لگوایا جو آج تک خانۂ کعبہ کی زینت بنا ہُوا ہے اسے ہر وقت دیکھنے کو جی چاہتا ہے ۔ بازار میں آج کل اسی کا ماڈل فروخت ہو رہا ہے ۔

باب کعبہ کی سمت کے آخری کونے پر رکن عراقی اور دوسرے کونے پر رکن شامی ہیں ان دونوں کونوں (ارکان) کے درمیان حطیم کا علاقہ ہے جو ہلالی شکل میں بنا ہُوا ہے جسے 1396ھ میں شاہ خالد نے سفید مرمر سے تعمیر کروایا ہے اب یہ دیوار 3 فٹ چوڑی ہے اس تعمیر سے قبل یہ دیوار کافی بلند تھی جس پر قرآنی آیات خط کوفی میں لکھی ہوئی تھیں۔

حطیم کی فضیلت یہ ہے کہ اسے بھی خانۂ کعبہ کا حصہ کہا جاتا ہے اس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے: (مفہوم) حضرت عائشہؓ نے عرض کیا کہ میں چاہتی ہوں کہ بیت اﷲ کے اندر نماز پڑھو ں تو حضور اکرم ؐ نے حضرت عائشہؓ کے ہاتھ پکڑ کر حطیم کے اندر داخل کردیا اور فرمایا کہ جب کبھی تمہارا خانۂ کعبہ میں داخل ہونے کو جی چاہے تو حطیم میں آجایا کرو۔‘‘ یہ آٹھ فٹ کا حصہ جو کہ میزاب رحمت کے نیچے ہے بیت اﷲ شریف کے اندر کا حصہ ہے جو تعمیر قریش کے وقت سرمائے کی قلت کی بناء پر چھوٹ گیا تھا۔

ایک روایت میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے حضورؐ سے دریافت فرمایا: یا رسول اﷲ ﷺ! یہ حطیم کیا بیت اﷲ کا حصہ ہے ؟ تو آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں!‘‘ تو پھر حضرت عائشہؓ نے اس کی وجہ دریافت کی کہ اس حصے کو خانۂ کعبہ میں کیوں شامل نہیں کیا؟ تو آپ نے فرمایا: ’’تیری قوم کے پاس سرمایہ کی کمی تھی اس لیے اس حصے کو رہنے دیا۔‘‘ ہم گناہ گاروں کو اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیے کہ جو حصہ اس وقت تعمیر میں چھوٹ گیا وہ آج ہمارے لیے باعث رحمت بن گیا ذرا تصور کیجیے! اگر یہ تعمیر ہوجاتا تو آج کے دور میں جو تیس لاکھ سے زاید حجاج حج کی سعادت حاصل کررہے ہیں خانۂ کعبہ میں داخل نہیں ہو سکتے تھے صرف معدودے چند ہی افراد سات فٹ کی بلندی پر سیڑھی کے ذریعہ خانۂ خدا میں داخل ہوتے اور وہ بھی بڑی دھکم پیل اور دشواری کے ساتھ، خواتین اور بزرگ تو شاید اس سعادت سے محروم ہی رہ جاتے اس طرح اس کا کھلا رہنا ہمارے لیے باعث رحمت بنا اب ہر حاجی اور معتمر یہاں نوافل ادا کر سکتا ہے اور خوب برکات سمیٹتا ہے۔ حطیم کی دونوں سمتیں یعنی رکن عراقی اور رکن شامی کا استلام یا بوسہ نہیں لیا جاتا کیوں کہ یہ دونوں ارکان بنیادِ ابراہیمی سے ہٹ کر بنائے گئے ہیں جس کی وجہ سرمائے کی قلت بتائی جاتی ہے کچھ اور نہیں حطیم کی اصل شرعی حد 6 گز ہے مگر اس وقت کچھ زیادہ ہے۔ (بہ حوالہ: معلم الحجاج)

میزاب رحمت: اگر ہم حطیم میں کھڑے ہوں تو ہمارے سروں پر میزاب رحمت ہوگا یہ خانۂ کعبہ کی چھت میں نصب پرنالے کا نام ہے۔ دور قدیم میں خانۂ کعبہ پر چھت نہیں تھی جب آنحضور ﷺ کی عمر مبارک 35 برس ہوئی تو قریش مکہ نے اس کی تعمیر کا فیصلہ کیا اور یہ بھی عہد کیا کہ اس کی تعمیر میں صرف حلال کمائی لگائی جائے گی، ڈکیتی، غبن، غرض ہر قسم کی ناجائز دولت کے تصرف سے پرہیز کیا جائے گا۔ چناں چہ قدیم بوسیدہ تعمیر کو شہید کرکے نئی تعمیر کی گئی اور پھر اس پر چھت بھی ڈال دی گئی اسی کے ساتھ میزاب رحمت بھی لگا دیا گیا۔(ابن سعد، تذکرۃ الانبیاء)

میزاب رحمت کے ذریعے بارش کا پانی حطیم میں گرتا ہے وہاں پر موجود ہر زائر کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اس گرتے ہوئے پانی سے نہا کر اپنے گناہوں کو دھولے۔ یہ دعا کی قبولیت کا مقام ہے حطیم سے نکل کر رکن شامی سے رکن یمانی کی جانب چلتے ہیں اس مقام پر استلام کرلیں یہاں سے حجر اسود تک دعا کی قبولیت کا مقام ہے۔ حضورؐ نے خود بھی یہاں دعا فرمائی اور امت کو بھی تلقین دعا کی اور سب سے اچھی دعا دین و دنیا کے لیے یہ بتائی، مفہوم: ’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا۔‘‘ (سورہ بقرہ)

مقام ابراہیم: خانہ کعبہ کے مطاف میں (طواف کرنے والی جگہ) ایک جنگلہ بنا ہوا ہے اس میں محفوظ ایک پتھر کا نام مقام ابراہیمؑ ہے جس کے بارے میں متعدد روایات آئی ہیں کہ اس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیمؑ نے کعبۃ اﷲ کو تعمیر کیا تھا، تعمیری مرحلوں کے دوران یہ پتھر نرم پڑ جاتا تھا اور ضرورت کے تحت یہ پتھر اوپر نیچے بلند و پست اور طول و عرض میں گھٹتا اور بڑھ بھی جاتا تھا اس کی اسی نرمی والی کیفیت کی بناء پر حضرت ابراہیمؑ کے قدموں کے نشان اس پر ثبت ہوگئے اور آج ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود موسمی اور بیرونی تغیرات اس پر حاوی نہ ہوسکے، یہ اپنے نقوش کے ساتھ جوں کا توں موجود ہے جو ایک معجزہ ہے۔ اس مبارک پتھر کا ذکر قرآن حکیم میں موجود ہے، مفہوم: ’’جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں۔ مقام ابراہیم ہے۔‘‘

(سورہ آل عمران) مذہبی کتب و تواریخ میں لکھا ہے کہ سترہ ھجری میں زبردست سیلاب آیا تھا جس کی وجہ سے یہ پتھر اپنی جگہ سے ہٹ کر دیوار کعبہ کے پاس آگیا تھا خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروق ؓاپنے دور خلافت میں جب حج کے لیے تشریف لے گئے تو اس کو اپنے سابقہ مقام پر واپس رکھوا دیا مگر اس مرتبہ اس میں سیسہ پلا کر رکھوایا تاکہ اپنی جگہ سے دوبارہ نہ ہل سکے۔ مقام ابرہیمؑ زمانۂ قدیم میں ایک قبّہ نما چھوٹی سی عمارت میں رکھا ہوا تھا۔

اس قبے کی وجہ سے مطاف چھوٹا پڑ رہا تھا کیوں کہ ہر سال حجاج کرام کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے چناں چہ 1960ء کے عشرہ میں ملک عبدالعزیز کے بیٹوں نے جب حرمین شریفین میں توسیع کے منصوبے بنائے تو مطاف میں کشادگی کو برقرار رکھنے کے لیے اس قبہ نما عمارت کو شہید کیا اور پھر باب کعبہ سے مزید کچھ اور فاصلہ بڑھایا تاکہ طواف کرنے والوں کو دشواری نہ ہو۔ 22 اکتوبر1967ء مطابق 19 رجب1387ھ کو شاہ فیصل شہید نے اپنے ہاتھوں افتتاح کے بعد زائرین کے لیے کھول دیا۔ عمدۃ المناسک میں لکھا ہے کہ مقام ابراہیمؑ کی لمبائی دس بالشت اور چوڑائی سات بالشت ہے اور زمین سے ایک ہاتھ اونچا رکھا ہُوا ہے۔ جو باب کعبہ کے بالمقابل مطاف میں ہے۔

یہ جنّت کا پتھر ہے اس کی ایک اور فضیلت یہ ہے کہ ہر طواف کرنے والے کو حکم ہے کہ جب وہ اپنا طواف جو کہ سات چکروں پر مشتمل ہوتا ہے عربی میں چکر کو شوط جس کی جمع اشواط ہے مکمل کرلیں تو دو رکعت نماز نفل اس کے پیچھے ادا کرلیں۔ ارشاد باری کا مفہوم: ’’اور مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لیا کرو۔‘‘ مشاہد ہ میں آیا ہے کہ اس مقام پر اکثر لوگ نظم و ضبط اور اسلامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے دکھائی دیتے ہیں استفسار پر جواب دیتے ہیں کہ اس کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم ہے جواب تو بجا ہے مگر غور کیجیے کہ اگر آپ کسی مسجد میں نماز ادا کر رہے ہوں تو آپ کی نیّت امام کے پیچھے ہوتی ہے کتنا پیچھے پہلی صف میں ہوتے یا ہزارویں صف میں آپ امام کے پیچھے ہی کہلائیں گے، یہی اصول مقام ابرہیمؑ کا بھی ہے رش ہو تو جتنی پیچھے جگہ ملے نماز پڑھ لیں ورنہ حرم میں جہاں بھی جگہ ملے نماز ادا فرمالیں کیوں کہ پورا حرم قبولیت دعا کا مقام ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔