- حکومت کا سوشل میڈیا کنٹرول کرنے کے لئے فائر وال کی تنصیب کا فیصلہ
- بھارتی فوج کی فائرنگ سے ایک اور بنگلادیشی شہری جاں بحق
- راولپنڈی؛ ڈاکو گھر سے ڈالرز سمیت پونے 2 کروڑ سے زائد کی لوٹ مار کرکے فرار
- سب سے پہلے محسن نقوی کی سرجری ہونی چاہیے، عمران خان
- پنجاب اسمبلی جعلی بھرتی کیس میں محمد خان بھٹی کی ضمانت منظور، رہائی کا حکم
- بچوں کی اسمگلنگ کے مقدمے میں صارم برنی کی درخواست ضمانت مسترد
- اسٹیٹ بینک کا چھوٹے اور درمیانے کاروبار کی سہولت کیلیے بڑا اقدام
- پشاور میں موبائل چھیننے کا ملزم پولیس مقابلے میں ہلاک
- میانوالی ریلوے اسٹیشن پر مسافر حادثے سے بال بال بچ گیا
- مارگلہ کے پہاڑوں پر آتشزدگی، چیئرمین سی ڈی اے کا کالی بھیڑوں کا اعتراف
- کئی حصوں میں بٹی قومی کرکٹ ٹیم بکھر کر رہ گئی
- عدت میں نکاح؛ ہو سکتا ہے جج کی کیس سے الگ ہونے کی وجہ درست نہ ہو، اسلام آباد ہائیکورٹ
- مقامی ماہرین نے آئی ایم ایف کا متبادل معاشی منصوبہ پیش کردیا
- تنخواہوں میں 15 فیصد تک اضافہ متوقع ، بجٹ کل پیش کیا جائے گا
- الیکشن ٹربیونل کیوں تبدیل کیا، الیکشن کمیشن کو جوابدہ ہونا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
- ملوں کو ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت
- ہیڈ کوچ نے سینئر کرکٹرز کو سخت وارننگ دے دی
- چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیا جائے
- ہارگئے تو کیا سر دیوار پر ماردیں، ناکامی سے زندگی ختم نہیں ہوتی
- ہتک عزت قانون کے 3سیکشن پر عملدرآمد لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے سے مشروط
جج کسی کی بی ٹیم نہیں، عدلیہ کا احترام نہ کرنے والا کوئی توقع نہ رکھے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
لاہور: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد نے کہا ہے کہ ججز کسی کی بی ٹیم نہیں ہیں، ہم کسی سے لڑائی نہیں چاہتے تاہم عدلیہ کا احترام نہ کرنے والا ہم سے کوئی توقع نہ رکھے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے لاہور پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی پرقار تقریب پنجاب کی عدلیہ میں آنے والے نئے ججز کی ٹریننگ کی اختتامی تقریب ہے، یہ بات باعث اطمینان ہے کہ نئے ججز میں خواتین کی تعداد، بھی موجود ہے۔
چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان پری سروس ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد عملی انصاف کی جانب گامزن ہونگے، نئے ججز مشکل مراحل سے گزر کر آج پنجاب کی عدلیہ کا حصہ بنے ہیں جنہیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ عدل کرنا اللہ تعالی کی صفت ہے اور ایک جج اللہ کی جانب سے چنا جاتا ہے جو بے خوف لالچ سے دور، جرأت اور دانشمند ہوتا ہے، جج کا منصب نوکری نہیں ہے جس میں ملازمت کا کوئی خوف ہو۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت پنجاب کی ضلعی عدلیہ میں 14 لاکھ کے قریب مقدمات زیرالتواء ہیں، پنجاب کی عدلیہ میں نئے ججز کو شامل کرکے 1760 ججز تعینات ہیں جبکہ اب بھی 800 جوڈیشل افسران کی کمی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ کمی کے باوجود بھی دنیا کے ساتھ مقابلے کیلیے ہمارے ججز سب سے زیادہ کام کرتے ہیں، زیرالتواء مقدمات میں کمی لانے کے لئے ویڈیو لنک سے استفادہ وقت کی اہم ضرورت ہے، پنجاب میں بہت جلد شہادتوں کے ریکارڈ اور عدالتی کارروائی کے لئے ویڈیو کی سہولت کا آغاز کیا جائے گا۔
جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے ججز پر زور دیا کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مکمل عبور حاصل کریں تاکہ اے ڈی آر سے مکمل طور پر استفادہ کیا جاسکے، اس وقت پوری دنیا میں انصاف کے متبادل نظام قائم کردیئے گئے ہیں۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ مقدمات میں تاخیر کی بڑی وجہ ہڑتال کلچر ہے، لاہور میں گزشتہ عرصہ میں 73 دن تک عدالتیں بند کی گئیں اور صوبے کے دارالحکومت میں جنگل کا قانون نافذ کر کے عوام کو انصاف تک رسائی کے حقوق کو ختم کردیا گیا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ 90 فیصد سے زائد وکلاء پروفیشنل ہیں، مجھے امید ہے کہ پروفیشل وکلا ہڑتال کلچر کو ختم کرنے میں ہمارا ساتھ دیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم کورٹ کے ججز نے ہڑتال کلچر کو ختم کرنے میں بہترین کرداد ادا کیا۔ ہڑتال کی کال کے باوجود چیف جسٹس پاکستان اور سپریم کورٹ کے باقی ججز نے مقدمات کی سماعت کی، ہمیں اس منصب پر آنے کے بعد اپنی آئینی زمہ داریاں پوری کرنی ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ کسی ہائیکورٹ نے ہڑتال کی کال نہیں دی، انشاءاللہ عدالتوں کا تقدس برقرار رہے گا اور یہ ہڑتال کلچر ختم ہوگا۔ جسٹس ملک شہزاد نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان بانی پاکستان کے قریبی ساتھی قاضی عیسیٰ کے بیٹے ہیں، انہوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہمیشہ آئین و قانون کو مقدم رکھا ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے واضح کیا کہ ہم کسی کی بی ٹیم نہیں ہیں، ہم صرف اللہ تعالیٰ کو جوابدہ ہیں، یہ عدالتی نظام کسی طاقتور کے لئے نہیں بنا ہے بلکہ انصاف کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ہم کسی سے لڑائی نہیں چاہتے تاہم اگر کوئی عدلیہ کا احترام نہیں کرتا تو ہم سے بھی کوئی امید یا توقع نہ رکھے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔