مودی، مسلمان اور بھارتی جمہوریت کا اگلا قدم

خالد محمود رسول  ہفتہ 25 مئ 2024

بھارت میں الیکشن 2024 اپنے پانچ مراحل پورے کر چکا، آخری دو مراحل اگلے ہفتے مکمل ہونے کے بعد گنتی اور نتائج کا مرحلہ ہے۔ نریندر مودی تیسری بار وزیراعظم بن پائیں گے؟ اپوزیشن اتحاد بی جے پی اور نریندر مودی کو جھنجھوڑ سکے گا یا نہیں؟

یہ بنیادی سوالات ہیں جو عالمی میڈیا اور بھارتی سیاسی منظر پر جوابات کے منتظر ہیں۔ الیکشن 2024میں 960ملین ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ پانچ مراحل کے بعد سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق ووٹرز ٹرن آؤٹ میں 2019 ء کی نسبت کمی ہوئی۔ ہمارے ایک دوست اور سابق بیوروکریٹ ان انتخابات کو بہت دلچسپی اور تفصیل سے فالو کر رہے ہیں۔

انھوں نے ایک دلچسپ رپورٹ شئیر کی جس کے مطابق اب تک چناؤ والی ریاستوں میں ایک تہائی نشستوں یعنی 115نشستوں پر 2014اور 2019کے رجحان کے برعکس ووٹرز کی تعداد میں متناسب اضافے کے بجائے کمی ہوئی۔ 2019 میں 2014کے انتخابات کے مقابلے مجموعی ووٹرز کی تعداد میں 12.فیصد اضافہ ہوا جب کہ 2024 میں یہ اضافہ فقط 4 فیصد رہا۔ جب کہ اس دوران میں آبادی اور نئے ووٹرز کی تعداد میں کہیں زیادہ اضافہ ہوا۔ یہ رجحان بی جے پی کے حق میں مفید ہوگا یا اپوزیشن کے لیے اس میں کوئی سرپرائز ہوگا؟ تجزیہ کار اپنی اپنی بولیاں بول رہے ہیں لیکن آخری بولی نتائج ہی کی ہوگی۔

گزشتہ دونوں انتخابات کے مقابلے میں اس بار انتخابی ماحول میں بہت فرق رہا۔ اول، یہ کہ نریندر مودی کی شخصیت کی برانڈنگ ایک کامیاب لیڈر بلکہ ایک مسیحا کے طور پر کی گئی جس نے گم گشتہ ہندوتوا شناخت اور عروج کو پھر سے زندہ کر دیا۔ دوم، بی جے پی اور نریندر مودی نے اپنی گزشتہ سیاسی روایت قائم رکھتے ہوئے میڈیا اور سیاسی مخالفین کے خلاف نہ صرف زمین تنگ اور جیلوں کے دروازے کھلے رکھے بلکہ ہر ہر حربے سے مخالفین کو دبانے، خوفزدہ کرنے اور میدان چھوڑنے پر ببانگ دہل عمل آمد کیا۔

خوف و ہراس، ناقدین و مخالفین پر زمین تنگ کرنے کا یہ انتہائی خوفناک ماحول اس نہج پر پہلی بار دیکھنے میں آیا۔ اپوزیشن اتحاد کے راہول گاندھی کو لوک سبھا سے معطل کیا گیا، دو سال قبل ایک مقدمے میں گرفتار کیا گیا ، بعد ازاں سپریم کورٹ کے حکم سے انھیں رہائی ملی۔ 2018 کے ٹیکس الزام میں کانگریس کے بینک اکاؤنٹ عین انتخابات میں منجمد کر دیے گئے۔ نیو دہلی کے وزیر اعلیٰ کیجری وال کو 2018 میں شراب کے ٹھیکے میں رشوت کے الزام میں عین انتخابات کے دوران گرفتار کرلیا تھا۔ بسیار خرابی سپریم کورٹ نے 21 دن کے لیے رہا کرنے کا حکم دیا تو موصوف انتخابی مہم چلانے کے قابل ہوئے۔

گجرات، سورت اور گاندھی نگر سمیت کئی حلقوں سے مخالفین کو مختلف ہتھکنڈوں سے الیکشن سے دستبردار ہونے یا دوسری صورت میں گرفتاری سمیت دیگر حربوں سے ’’سیدھا‘‘ کرنے کا کام دھڑلے سے ہوا۔ عالمی میڈیا اور سوشل میڈیا میں خبریں، مضامین اور وڈیو کلپس سامنے آئے مگر نریندر مودی کا جادو اور بی جے پی کی اندھی طاقت کے سامنے سب ہیچ ثابت ہوئے۔

الیکشن شروع ہوا تو نریندر مودی کی خوداعتمادی عروج پر تھی۔ انھوں نے چار سو کے پار یعنی دو تہائی اکثریت کا نعرہ لگا کر اپنے حریفوں کو انتہائی کمزور باور کرانے کی کوشش کی۔ الیکشن مراحل شروع ہوئے تو بیشتر غیر جانبدار مبصرین نے سادہ اکثریت ہی کو کافی بتلایا ، بلکہ چند ایک معروف تجزیہ کار تو سادہ اکثریت بھی ہاتھ سے نکلتی دیکھنے کے دعوے دار ہوئے۔ بی جے پی کے اپنے اندازوں کے برعکس ہونے کا عندیہ مودی اور ان کے قریبی ساتھیوں کی مزید زور شور سے مسلم مخالف انتخابی اسٹرٹیجی پر عمل پیرا ہونے سے ہوا۔

یوں تو مسلمان فیکٹر ہمیشہ سے ہی بھارتی انتخابات میں اہم رہا ہے لیکن 80 کی دہائی سے زور پکڑنے والی ہندوتوا سیاست نے مسلمانوں کے لیے سیاسی اور سماجی زمین ہر گزرتے سال تنگ کی۔   بابری مسجد کے تنازعے سمیت مسلمان بی جے پی اور نریندر مودی کا خاص نشانہ رہے۔ مسلمان ووٹ تقسیم کرنے کا سیاسی کام بھی چالاکی سے جاری رہا اور الیکشن مہم میں مسلمان مخالف الزامات کی بھرمار بھی جاری رہی۔ نریندر مودی نے جلسوں میں نام لینے کے بجائے تحقیر سے طنز کیا۔

وہ جو درانداز (infiltrator) ہیں اس دھرتی پر ..۔۔ مخالف جماعت کانگریس پر ایک عجیب تہمت لگائی کہ یہ جو وسائل کی تقسیم نو کی بات کر رہے ہیں یہ اصلا’’مالدار ہندوؤں کا پیسہ اور منگل سوتر چھین کر’’زیادہ اولاد‘‘ والی کمیونٹی کو دیں گے۔ مسلمانوں کے خلاف ووٹ جہاد کے افسانے کو بھی ہوا دی گئی۔ غرض مسلمان بے چارے اس الیکشن میں بی جے پی کا اولین ہدف رہے۔ یو پی کے وزیر اعلیٰ یوگی نے فخریہ اپنی کامیابی گنوائی کہ یو پی کی سڑکوں پر اب کسی مسلمان کی سر عام نماز پڑھنے کی ہمت نہیں!

بی جے پی اور نریندر مودی کے مقابل اپوزیشن بظاہر ایک اتحاد کی صورت میں موجود تو ہے لیکن اس اتحاد میں سیاسی رقابتیں، انتشار اور یگانگت کی کمی نمایاں ہے۔ راہول گاندھی گزشتہ دو تین سال سے انتہائی متحرک رہے، کانگریس کی سیاست کو نئی توانائی دینے کی جاندار کوششیں کیں۔ تاہم مجموعی طور پر نریندر مودی کے مقابل ان کا امیج اور بطور متبادل لیڈر مقبولیت میں ہم پلہ نہ ہو سکا۔ علاقائی سطح پر کئی ریاستوں میں اپوزیشن اتحاد نے مضبوطی کا مظاہر دکھایا لیکن الیکشن مجموعی گنتی میں اکثریت اور نشستوں کی جیت کا نام ہے۔ اپوزیشن کے دل توانا نے اپنے تئیں مقابلہ تو خوب کیا۔ اب دیکھیے نتائج کیا رنگ دکھاتے ہیں۔

مودی حکومت کے دوران مین اسٹریم میڈیا آہستہ آہستہ کارپوریٹ جغادری گروپس کے زیر انتظام چلا گیا۔پرنٹ اور مین اسٹریم میڈیا کے تمام بڑے برانڈ اب سالہا سال سے مودی مالا جپ رہے ہیں، چہار جانب بی جے پی کا روپ سنگھار چھایا ہوا ہے۔ مخالف اور ناقد صحافیوں پر بہانے بہانے سے عرصہ حیات و روزگار تنگ کیا گیا۔ ایسے میں میڈیا پر تبصروں میں مودی ہمدرد فضا غالب ہے۔ خوف اور دہشت کے اس ماحول میں دنیا کی سب سے بڑی ڈیموکریسی میں انتخابات کے نتائج کس حد تک آزادانہ، شفاف اور عوامی امنگوں کا اظہار ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

انتخابات میں نریندر مودی سادہ اکثریت شاید ضرور حاصل کر لیں لیکن مندرجہ بالا پس منظر میں یہ غیر لبرل ڈیموکریسی کا ایک نیا دور ہوگا۔ امکان یہی ہے کہ یہ دور مودی کے پہلے دو ادوار کا تسلسل ہوگا : یعنی مخالفین پر بھاری، مسلمانوں پر آفت ، کارپوریٹ بزرجمہروں کے لیے سنہری، مغرب کے لیے قابل قبول اور پاکستان کے لیے جارحانہ طرز عمل کا تسلسل۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔