وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کردی ہے، ایسا نہ ہو لوگوں کا ردعمل قابو سے باہر ہو جائے۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ سے متعلق اہم اجلاس وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت ہوا، جس میں چیف سیکرٹری، ایڈیشنل چیف سیکرٹری داخلہ، وزیر اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری، سیکرٹری انرجی اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں وفاقی حکام کے ساتھ وزیر اعلیٰ کے اجلاس کے بعد صوبے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ خصوصاً عیدالاضحیٰ کے دوران لوڈشیڈنگ کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔
اجلاس میں متعلقہ حکام کی طرف سے وزیر اعلیٰ کو صوبے میں لوڈشیڈنگ کی تازہ صورتحال، ریکوریز سمیت دیگر امور پر بریفنگ دی گئی، جس میں بتایا گیا کہ گزشتہ ایک ماہ میں صوبائی حکومت کے تعاون سے صوبے کے لاسز والے علاقوں سے تقریباً ایک ارب روپے کی ریکوری کی گئی ہے۔ صوبے میں پیسکو کی تنصیبات اور عملے کو پولیس کی مکمل سکیورٹی فراہم کی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے ہر ضلع میں پولیس کی مخصوص ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں۔
یہ خبر بھی پڑھیں: پختونخوا؛ اہم شخصیات کی گرڈاسٹیشنز میں مداخلت پر مقدمے کیلیے وزیر داخلہ کو خط
بریفنگ میں شرکا کو بتایا گیا کہ عیدالاضحیٰ کے ایام میں زیرو لوڈشیڈنگ کا وعدہ گیا گیا تھا لیکن اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ پیسکو کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق عیدالاضحیٰ کے دوران صوبے کے بیشتر علاقوں میں 12 سے 18 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی گئی۔ یکم مئی 2024 سے اب تک صوبے میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف 81 مختلف احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں۔
بریفنگ میں کہا گیا کہ صوبے میں پہلی بار خواتین نے بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے۔ اگر صورتحال میں بہتری نہ آئی تو صوبے میں امن وامان کے سنگین مسائل جنم لینے کا خدشہ ہے۔
اس موقع پر وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے کہا کہ بجلی سے جڑے مسائل حل کرنے کے لیے صوبائی حکومت اپنے وعدے کے مطابق مکمل تعاون کر رہی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ وفاقی حکومت اپنے کیے ہوئے وعدے پورے نہیں کر رہی۔ پہلی دفعہ عید الاضحٰی کے موقع پر بھی صوبے کے بیشتر علاقوں میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی گئی۔ لاسز والے علاقوں سے خاطرخواہ ریکوریاں ہونے کے باوجود بھی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس ناروا لوڈشیڈنگ کی وجہ سے صوبے میں لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ صوبے میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی رد عمل سخت سے سخت ہوتا جارہا ہے۔ لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کسی ایک سیاسی جماعت یا صوبائی حکومت کا نہیں بلکہ یہ ایک عوامی مسئلہ ہے اور عوام کا رد عمل بے جا نہیں ہے۔ لوگوں کو گھروں میں پینے اور مساجد میں وضو کر نے کے لیے پانی نہیں مل رہا۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوامی رد عمل قابو سے باہر ہو جائے۔ وفاقی حکومت کو اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ صوبے میں لاسز کو ختم کرنے کے لیے بھر پور تعاون کر رہے ہیں۔ گزشتہ ایک مہینے کے دوران ریکوری صورتحال میں خاطر خواہ بہتری آئی ہے۔ صوبے میں 12 گھنٹوں سے زیادہ لوڈشیڈنگ کسی صورت قبول نہیں۔