مخصوص نشستیں کل سنی اتحاد کونسل کو کنٹرول کرنے والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے چیف جسٹس
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کے چیئرمین حامد رضا کے کاغذات نامزدگی طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی
سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ میرے حساب سے آپ کا کیس اچھا ہوتا اگر آپ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی جوائن کرتے، کل سنی اتحاد کونسل کو کنٹرول کرنے والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ کیس کی سماعت کی۔
سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ عدالت کو آئین کی پروگریسو تشریح کرنی ہوگی، جسٹس جمال مندوخیل اپنے ایک حالیہ فیصلے میں اسی نوعیت کی تشریح کر چکے ہیں، فیصلے میں کہا گیا کہ آئین درخت کی طرح ایک زندہ دستاویز ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آئین میں کیا لکھا ہوا ہے یہ بتائیں۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ کسی رکن کی پولیٹیکل پارٹیز میں شمولیت کے طریقے کار بارے بھی بتائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا ہم آئین کے نیچرل معنی کو نظر انداز کر دیں، ہم ایسا کیوں کریں۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اصل معاملہ آئینی شقوں کے مقصد کا ہے۔ سٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جنھوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی انھیں کیوں مخصوص نشستیں دی جائیں۔
جسٹس عرفان سعادت خان نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو آئین میں دیے گئے الفاظ ہی غیر موثر ہو جائیں گے، سنی اتحاد کونسل تو پولیٹیکل پارٹی ہی نہیں ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان چلے جانے کے بعد پولیٹیکل پارٹی نہیں رہی لیکن پولیٹیکل ان لسٹڈ پولیٹیکل پارٹی تو ہے، الیکشن کمیشن نے ان لسٹڈ پارٹی تو قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی کا وجود رکھتی ہے تو انھوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی، اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی، یہ تو آپکے اپنے دلائل کے خلاف ہے۔
جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے رول 92 کی ذیلی شق دو پڑھیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آزاد امیدوار الیکشن کمیشن نے قرار دیا لیکن الیکشن کمیشن کی رائے کا اطلاق ہم پر لازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی امیدواروں کو سپریم کورٹ فیصلے کے سبب آزاد امیدوار قرار دیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔
جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق منافی ہیں، پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کروا کر واپس کیوں لیے گئے۔
وکیل فیصل صدیقی نے دلائل میں کہا کہ مخصوص نشستیں صرف متناسب نمائندگی کے سسٹم کے تحت ہی دی جا سکتی ہیں اور متناسب نمائندگی کے نظام کے علاوہ مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا کوئی تصور نہیں، مخصوص نشستیں امیدواروں کا نہیں سیاسی جماعتوں کا حق ہوتا ہے، الیکشن کمیشن ایک جانب کہتا ہے آزاد امیدوار کسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتا ہے اور دوسری جانب الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ شمولیت صرف پارلیمان میں موجود جماعت میں ہوسکتی ہے، الیکشن کمیشن کی یہ تشریح خودکشی کے مترادف ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عدالت الیکشن کمیشن اور آپ کی تشریح کی پابند نہیں بلکہ آئین میں درج الفاظ کی پابند ہے، ممکن ہے کہ عدالت الیکشن کمیشن کی تشریح سے متفق ہو اور نہ آپ کی تشریح سے۔
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سوال یہی ہے کہ الیکشن میں حصہ نہ لینے والی جماعت کو مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں یا نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں عدالت آئین میں درج الفاظ کے مطلب پر تشریح نہ کرے، جس پر وکیل نے کہا کہ عدالت نے صرف مطلب کو نہیں بلکہ آئین کی شقوں کے مقصد کو بھی دیکھنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں ایسی جماعت کو کیسے دی جا سکتی ہیں جنہوں نے الیکشن لڑنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ جسٹس امین الدین خان نے سوال کیا کہ کیا آزاد ارکان نئی سیاسی جماعت قائم کر سکتے ہیں؟
وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ آزاد ارکان اگر تین دن میں سیاسی جماعت رجسٹر کروا سکتے ہیں تو ضرور اس میں شامل ہوسکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کہتے ہیں سیاسی جماعت کے لیے انتخابات میں نشست حاصل کرنا ضروری نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا انتخابی نشان نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں، الیکشن کمیشن تسلیم کرتا ہے کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل دونوں رجسٹرڈ جماعتیں ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پی ٹی آئی رجسٹرڈ جماعت ہے تو آزاد ارکان اس میں شامل کیوں نہیں ہوئے؟ کیا آزاد ارکان نے پی ٹی آئی جوائن نہ کرکے سیاسی خودکشی نہیں کی؟
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آپ کے دلائل مفادات کا ٹکراؤ ہیں، یا آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کریں یا پی ٹی آئی کی نمائندگی کریں، ہم نے صرف دیکھنا ہے آئین کیا کہتا ہے، ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا، نظریاتی میں گئے اور پھر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، آپ صرف سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کے لیے کوئی چوائس نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ملک میں ایسے عظیم ججز بھی گزرے ہیں جنھوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا، صرف آئین پر رہیں۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا، جس پر وکیل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اس سوال کا جواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رولز آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے کہا تھا 80 فیصد لوگ آزاد ہو جاتے ہیں تو کیا 10 فیصد والی سیاسی جماعتوں کو ساری مخصوص نشستیں دے دیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جی بالکل آئین یہی کہتا ہے، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیے اڑائی گئیں کیونکہ آئین پر عمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں، ہمارے آئین کو بنے 50 سال ہوئے ہیں، امریکا اور برطانیہ کے آئین کو صدیاں گزر چکی ہیں، جب آئین کے الفاظ واضح ہیں تو ہماری کیا مجال ہم تشریح کریں، کیا ہم پارلیمنٹ سے زیادہ عقلمند یا ہوشیار ہو چکے ہیں، اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہماری انا کی بات ہو جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ مشکل سے ملک پٹری پہ آتا ہے پھر کوئی آکر اڑا دیتا ہے، پھر کوئی بنیادی جمہوریت پسند بن جاتا ہے، ہمارا آئین ہے ہی پروگریسو ہے، اب اس سے زیادہ کیا پروگریسو ہوگا، کبھی کبھی پرانی چیزیں بھی اچھی ہوتی ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن پر سوالات اٹھائے گئے، جو کچھ 2018 میں ہوا وہی ابھی ہوا، جنھوں نے پریس کانفرنسز نہیں کیں، انھیں اٹھا لیا گیا، یہ باتیں سب کے علم میں ہیں، کیا سپریم کورٹ اس پر اپنی آنکھیں بند کر لے، لیول پلئینگ فلیڈ نہ ملنے کا کہا گیا۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ میں آپکی باتوں سے مکمل متفق ہوں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ جس کو لیول پلئینگ فیلڈ نہیں ملی وہ ہمارے سامنے آئے ہی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب ضرورت ہوتی ہے ہمارے پاس آتے ہیں، وہ وقت بھی یاد رکھیں جب الیکشن کے انتخابات کی تاریخ ہم نے دی تھی، الیکشن کس نے کروائے، الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، صدر مملکت اس وقت کون تھے، عارف علوی تھے، کیا پی ٹی آئی کو ہم نے کہا انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروائیں، منت، سماجت کی گئی الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کروائے، اس وقت وزیراعظم عمران خان تھے، عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثرانداز ہو رہے تھے، سال بھر کی تاریخ دی گئی الیکشن کروانے کیلئے، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں، جب ہم ووٹر کی بات کر رہے ہیں تو ساڑھے آٹھ پی ٹی آئی کے ممبران کا حق کدھر کیا، آدھی بات نہ کریں۔
وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن کے خلاف نظرثانی زیر التوا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ہم چیک کروا لیتے ہیں، حامد خان صاحب آپ نے ہمیں یاد بھی کروایا کہ نظرثانی زیر التوا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فرض کریں اگر یہ اصول طے کیا جاتا ہے کہ امیدوار پی ٹی آئی کے تھے تو پھر آپ کدھر کھڑے ہوں گے۔ وکیل نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا، جس پر جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آپ نے تو اپنے دلائل خود ہی دھو دیے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیسا فرق ہوتا ہے کہ کوئی آزاد الیکشن لڑ رہا ہے یا جماعت کا امیدوار ہے؟ کاغذات نامزدگی جمع کرواتے وقت سرٹیفکیٹ اسی لیے رکھا گیا ہے، وہاں ان امیدواروں نے خود کو کیا ظاہر کیا تھا وہاں سے شروع کریں۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر وہ امیدوار پی ٹی آئی میں ہی رہتے اور مخصوص نشستیں مانگتے، یہ لوگ دوسری جماعت میں چلے گئے اب پی ٹی آئی کا کیس ہمارے سامنے نہیں ہے۔
مختصر وقفے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میں سیکشن 104 کی ذیلی شق چار دکھانا چاہتا ہوں، اس سیکشن کے مطابق کسی جماعت کی ترجیحی فہرست ختم ہونے پر نیا شیڈول دیا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کسی ایک سیکشن کا ایک لفظ لے کر کیس آگے نہیں بڑھا سکتے، آپ نے تو کوئی مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہیں کرائی تھی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ ہم نے الیکشن کے بعد اپنی فہرست زیر غور لانے کی درخواست الیکشن کمیشن کو دی تھی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن سے پہلے آپ نے کوئی فہرست نہیں دی یہ کیوں نہیں کہتے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پھر وہ خالی نشستیں کہاں جائیں گی؟ فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ کو وہ نشستیں بھرنے کے لیے مکینزم ڈھونڈنا ہوگا، آئین میں وضاحت نہ ہونے پر آپ کو قانون دیکھنا ہوگا اور عدالتی فیصلے دیکھنا ہوں گے، آپ کو پھر دیکھنا ہوگا یہ آزاد امیدوار کون ہیں، چیف جسٹس صاحب نے ایک سوال پوچھا تھا اس کا جواب بھی دے لوں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ میرے سوال کا جواب دینے کے لیے آپ کو باقی ججز کی اجازت چاہیے؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کے مطابق سنی اتحاد کونسل کا آئین خواتین اور غیر مسلم کو ممبر نہیں بناتا کیا یہ درست ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ خواتین کو نہیں غیر مسلم کی حد تک یہ پابندی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ پاکستان کا جھنڈا دیکھیں اس میں کیا اقلیتوں کا حق شامل نہیں؟ قائد اعظم کا فرمان بھی دیکھ لیں، کیا آپ کی پارٹی کا آئین، آئین پاکستان کی خلاف ورزی نہیں؟ بطور آفیسر آف کورٹ اس سوال کا جواب دیں۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ میں اس سوال کا جواب اس لیے نہیں دے رہا کہ یہ اتنا سادہ نہیں، میں اس بات کا دفاع نہیں کروں گا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل نے غلطیاں نہیں کیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا انضمام ہو جاتا پھر بھی معاملہ حل ہوتا مگر وہ بھی نہیں ہوا۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے استفسار کیا کہ کیا کسی جگہ ووٹرز نے اعتراض کیا کہ آپ لوگوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کیوں کی؟ کسی نے آرٹیکل لکھا ہو یا کوئی پریس کانفرنس یا احتجاج کیا ہو؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ہمارے خلاف احتجاج اور اعتراض صرف الیکشن کمیشن نے کیا۔ سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے دلائل مکمل کر لیے۔
کنول شوزب کے وکیل سلمان اکرم راجہ کے دلائل
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی ویمن ونگ کی صدر ہیں لیکن الیکشن ایکٹ کیمطابق کوئی شخص دو جماعتوں کا رکن نہیں ہو سکتا، کنول شوزب کو پہلے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونا پڑے گا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کنول شوزب کیا اکیلی تھیں جو سنی اتحاد کونسل میں نہیں گئیں؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب عام انتخابات میں منتخب نہیں ہوئیں، مخصوص نشستیں پی ٹی آئی یا سنی اتحاد کونسل کو ملنے پر انہیں منتخب ہونا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اوکے، تو یہ متاثرہ فریق ہیں، کیا کنول شوزب نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کنول شوزب متعلقہ فورم سے رجوع کیے بغیر کیسے براہ راست سپریم کورٹ آ سکتی ہیں؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا آرڈر چیلنج کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جس عدالت میں چیلنج کیا تھا اس کا فیصلہ کہاں ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ فیصلہ کچھ دیر تک ریکارڈ کا حصہ بنا دوں گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ جو حکم نامہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہی نہیں کیا گیا اس کا جائزہ کیسے لے سکتے ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا کنول شوزب سنی اتحاد کونسل کی فہرست میں شامل ہیں؟
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کنول شوزب کا نام سنی اتحاد کونسل کی فہرست میں موجود ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کی فہرست میں نام دکھائیں، جس پر وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فہرست لی ہی نہیں تو ریکارڈ سے کیسے دکھا سکتا ہوں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سب کچھ ہے آپ کے پاس لیکن کاغذات نہیں ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو بتایا گیا تھا کہ 8فروری کے حوالے سے بھی درخواست زیر التواء ہے، عدالت نے ہر غیر متعلقہ معاملے پر ازخود نوٹس لیا ہے لیکن الیکشن پر نہیں، انتخابات سے متعلق دائر درخواست سن لی جائے تو شاید یہ تمام ایشوز حل ہوجائیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس سب کے درمیان پی ٹی آئی کہاں ہے؟
سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ کنول شوزب پی ٹی آئی سے ہی ہیں۔ جسٹس میاں محمدعلی مظہر نے کہا کہ آپ نے کیس تو سنی اتحاد کونسل کا بنایا ہے۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سلمان راجہ صاحب آپ اس عدالت کے سامنے ہیں جو بنیادی حقوق کی محافظ ہے، اس عدالت کے سامنے 8 فروری کے الیکشن سے متعلق بھی کیس زیر التوا ہے، ہر غیر متعلقہ کیس پر سو موٹو لیا جاتا رہا یہ تو پرفیکٹ کیس تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں جسٹس اطہر من اللہ سے وسیع تناظر میں متفق ہوں، میری رائے میں مگر پی ٹی آئی کو ہمارے سامنے آنا چاہیے تھا، پی ٹی آئی کو آکر کہنا چاہیے تھا یہ ہماری نشستیں ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا ایسے حالات تھے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو سنی اتحاد کونسل میں جانا پڑا؟ کیا پی ٹی آئی کو پارٹی نہ ماننے والے آرڈر کیخلاف درخواست اسی کیس کے ساتھ نہیں سنی جانی چاہیے؟
سلمان اکرم راجہ نے دلائل میں کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں خود کو پی ٹی آئی امیدوار قرار دینے کیلئے رجوع کیا، ہائی کورٹ نے کہا انتخابات قریب ہیں مداخلت نہیں کر سکتے، الیکشن کمیشن نے دو فروری کا حکم سات فروری کو جاری کیا، سپریم کورٹ نے ہماری اپیل واپس کر دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اپیل کی واپسی تسلیم کر لی تو بات ختم، اگر رجسٹرار آفس کے کسی اقدام پر اعتراض تھا تو چیلنج کر دیتے، رجسٹرار آفس اور سپریم کورٹ میں فرق ہوتا ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ رجسٹرار آفس کا کیا اعتراض تھا؟ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ رجسٹرار آفس کے اعتراضات دور کر دیے تھے، رجسٹرار آفس نے کہا انتخابی عمل نشان الاٹ کرنے سے آگے بڑھ چکا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ اہم ترین معاملہ تھا لیکن آپ نے اپیل دائر نہیں کی، چیمبر اپیل دائر نہ کرنے سے اہم ترین معاملہ غیر مؤثر ہوگیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا چیمبر اپیل دائر کرنے کا وقت گزر چکا ہے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس میں کہا کہ تکنیکی معاملات میں جانے کے بجائے عدالت 184/3 کا اختیار کیوں نہیں استعمال کر سکتی؟ عدالت خود کو اپیلوں تک کیوں محدود کر رہی ہے؟ 184/3 کا نوٹس لینے میں کیا امر مانع ہے؟ جسٹس یحیحی آفریدی نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اگر بیان دے کہ کنول شوزب انکی امیدوار ہوں گی تو درخواست سن سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ فیصل صدیقی کا کیس تباہ کر رہے ہیں، جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ کسی کا کیس تباہ نہیں کر رہا، سمجھ نہیں آ رہا آپ بار بار یہ کیوں کہہ رہے ہیں، میرے دلائل آئینی تشریح والے معاملے پر فیصل صدیقی سے مختلف ہیں، میری رائے میں کسی پروگریسو تشریح کی ضرورت نہیں، آئین کی لیگوئیج ہی کسی بھی سیاسی جماعت میں شمولیت کا کہتی ہے پارلیمانی میں نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمانی پارٹی تو اس وقت ابھی موجود نہیں ہوتی اس لیے ایسا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ آپ کا دل پی ٹی آئی میں ہے بحث سنی اتحاد کونسل کی کر رہے ہیں، یہ تضاد ہمیں نظر آرہا ہے، آپ پی ٹی آئی کی بطور جماعت الیکشن میں شمولیت پر بحث کرتے تو ہم سنتے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ سلمان صاحب 86 لوگ ایک جماعت سے الیکشن لڑ کر بعد میں ایک شخص کو جوائن کر گئے کیوں؟ ہمیں وہ مجبوری تو بتا دیں وہ مجبوری کیا تھی؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کہا جا رہا تھا پی ٹی آئی کالعدم ہو جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی میں کوئی وکیل نہ ہوتا، پہلا الیکشن لڑ رہی ہوتی تو ہم یہ مفروضے سنتے، مجبوریوں پر جائیں تو ملک نہیں چلے گا، کل کوئی کہے گا مجبوری ہے سگنل پر رک نہیں سکتا۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ سینیئر وکلا نے کہا سنی اتحاد کونسل میں جانے میں کوئی نقصان نہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی نے غلط ایڈوائس دی ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ایسا ہو سکتا ہے شاید مگر یہ فیصلہ تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ تو یہ مشورہ دینے والے پر کیس کریں۔
چیف جسٹس نے سلمان اکرم راجہ کو آئین کی کتاب دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ آئین عوام کے منتخب نمائندوں نے بنایا ہے، آئین میں جو واضح ہے اس پر عمل کریں یہ سیدھا سادہ آئین ہے، آپ بار بار عوامی منشا کی بات کر رہے ہیں پھر تو سب نشستوں پر الیکشن ہونا چاہیے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عوامی منشا کی ہی بات کریں لوگوں نے ووٹ پی ٹی آئی کو دیا تھا، کیا ووٹرز کو پتہ تھا آپ سنی اتحاد کونسل میں جائیں گے؟
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب سچ بول دیں، مجھے نہیں سمجھ آتی ہر کوئی سچ کو دبانا کیوں چاہتا ہے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم کہہ رہے ہیں ووٹرز کے حقوق کا تحفظ کریں، پھر سارا قصور امیدوار کا کیسے ہو سکتا ہے وہ کسی بھی جماعت میں جائے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ ہم سے ایسی چیز پر مہر لگوانا چاہتے ہیں جو مستقبل میں سیاسی انجینئرنگ کا راستہ کھولے؟ یا تو آپ پوری طرح سے سچ بول دیں، فاطمہ جناح کے الیکشن سے اب تک کیا ہوا۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے ہمیں جماعت ماننے سے انکار کیا ہم سپریم کورٹ تک گئے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لوز بال نہ کھیلیں، آپ سپریم کورٹ نہیں آئے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا حالات تھے کہ آپ نے رجسٹرار اعتراضات کے خلاف اپیل دائر نہیں کی، آپ آج بھی وہ اپیل دائر نہیں کر رہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ خود غلط تشریح کرتے رہے ہیں تو ہم کیا کریں؟ میرے حساب سے آپ کا کیس اچھا ہوتا اگر آپ الیکشن کے بعد پی ٹی آئی جوائن کرتے، کل سنی اتحاد کونسل کو کنٹرول کرنے والوں کا موڈ بدلا تو آپ کہیں کے نہیں رہیں گے۔ آزاد امیدواروں نے پی ٹی آئی کے بجائے سنی اتحاد کونسل کا انتخاب کیوں کیا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ آزاد اراکین کا سنی اتحاد کونسل میں جانے کا فیصلہ کیسے ہوا، کیا پی ٹی آئی کی جنرل کونسل نے منظوری دی یا جماعت کی کابینہ نے فیصلہ کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر ایک پارٹی پولیٹیکل پارٹی ہی نہیں ہے تو پھر مخصوص نشستیں کدھر جائیں گی۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ارکان آزاد رہیں گے، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ امیدواروں نے تو حلفیہ بیان جمع کرایا ہم آزاد امیدوار ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے سلمان اکرم راجہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پی ٹی آئی کی طرف سے دلائل نہیں دے سکتے، جس پر وکیل نے کہا کہ میں آئین کی طرف سے دلائل دے رہا ہوں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس میں کہا کہ آپ ایک سیاسی جماعت کے امیدوار رہ چکے ہیں اس لیے آپ کو عدالتی معاون بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کی ہیں پی ٹی آئی کی نہیں۔
چیف جسٹس نے آپ کہہ رہے کہ سنی اتحاد کونسل کو جوائن کرنا کوئی مسئلہ نہیں، ہر چیز قانون کی بنیاد پر ہوتی ہے، بظاہر قانون کی زبان بڑی واضح ہے، ہر سیاسی جماعت کی اپنی منزل ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مشاورت سے سنی اتحاد کونسل کو اپنایا گیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے درست کہا کہ جب آپ آزاد امیدوار ہیں تو پھر ایسی جماعت میں جانا ہوگا جس نے سیٹ انتخابات میں حاصل کی ہوگی۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کیا آپ کہنا چاہ رہے کہ الیکشن میں نہ جیتی آزاد ملے تو سیٹ حاصل کرلی؟ واضح کر دیا گیا ہے کہ جو سیٹیں آپ نے جیتی ان میں آزاد شامل ہوں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن میں جیتی گئی سیٹیں اور حاصل کردہ دونوں میں فرق ہیں۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حاصل کردہ سیٹوں سے مطلب جیتی گئی سیٹ لیا جا رہا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ووٹر سب سیاسی جماعتوں کے منشور نہیں پڑھتا، چھوٹی سیاسی جماعت میں اگر آزاد امیدوار شامل ہوجائے تو کیا ہوگا؟
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ اگر کوئی ارب پتی سیاسی جماعت خرید لے اور کہے کہ آزاد امیدوار خریدوں گا پھر؟ جسٹس اطہر من اللہ ریمارکس دیے کہ 86 نمائندے آزاد نہیں تھے انہیں پی ٹی آئی کی وجہ سے ووٹ پڑے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہم آزاد امیدوار ہونے کی ہی وجہ سے سیاسی جماعت میں شامل ہوئے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے سوال کیا کہ سمجھ لیں کوئی آزاد امیدوار نہیں؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر آذاد امیدوار آزاد ہی رہتے تو پھر مخصوص نشستوں کا کیا ہوتا؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ پھر مخصوص نشستیں خالی رہتی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ تو آپ آئین کے بر خلاف جا رہے ہیں، اج تک کبھی ایسا ہوا نہیں مخصوص نشستوں کو خالی رکھا جائے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ شروع میں الیکشن کمیشن نے ساری سیٹیں سیاسی جماعتوں میں تقسیم کر دی، بعد میں مقدمہ بازی کی وجہ سے ان سیٹوں کو روک دیا گیا۔ سلمان اکرم راجہ نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کی وجہ سے ہم آزاد ممبر ہوئے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو مکمل طور پر غلط سمجھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت ہر سیٹ ایک ووٹ سے ہار جائے، ایک ووٹ سے ہارنے کے بعد حاصل کردہ ووٹوں کی اہمیت نہیں رہے گی، ہمارا نظام قانون کی بنیاد پر ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ قانون میں سیاسی جماعت کے لیے تین الفاظ استعمال کیے گئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ راجہ صاحب آپ عدالت کے سامنے دو موقف اپنا رہے ہیں، ایک موقف ہے کہ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بھئی اگر انہوں نے غلط تشریح کرلی آپ نے تو نہیں کی، آپ تو غلط تشریح نہیں کرتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ بات تو ماننے والی ہے مجموعی طور پر تحریک انصاف نے برے انداز میں کیس کو چلایا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ جے یو آئی کو بھی جوائن کر سکتے تھے، اچکزئی صاحب کی جماعت میں بھی جا سکتے تھے، جس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ہمیں ایسی جماعت کی تلاش تھی جس کے ساتھ چل سکیں کل وہ ہم میں ضم ہو سکے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا آپ یہ فیصلہ کرتے ہوئے ووٹرز کے ساتھ فیئر تھے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ووٹرز ہم سے راضی ہیں، دوسری جماعت میں ہمیں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد مجبورا جانا پڑا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ عدالتی فیصلے کی غلط تشریح سے مسئلہ پیدا ہوا تو کیا یہ عدالت اسے درست کر سکتی ہے؟ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ اگر عدالت آرٹیکل 187 کے تحت مکمل انصاف کرے تو میں اسے عظیم فیصلہ کہوں گا، پاکستان کے عوام بھی اس فیصلے پر جشن منائیں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ورکر پارٹی کیس کے مطابق الیکشن کمیشن کا تقرر ہم نے نہیں کرنا، الیکشن کمیشن کا آپ نے تقرر کیا۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کبھی کبھی غلطیاں بھی کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ تو پھر غلطی ہم نے تو نہیں کی، آپ الیکشن کمیشن میں غلطی دیکھتے ہیں تو درخواست لائیں یا پارلیمنٹ جائیں لیکن ہم پارلیمان یا الیکشن کمیشن کی بے توقیری قبول نہیں کریں گے، ایسا ہی رویہ میں اپنے لیے بھی توقع رکھتا ہوں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا ہ میرا موقف ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو جوائن کرنے پر پابندی نہیں تھی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر یہ نکتہ خودکشی ہوگا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف کے امیدواران نے کاغذات نامزدگی میں کیا لکھا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ مجھے معلومات لینا ہوں گیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی معلومات نہیں پتہ تو پھر ہمارے سامنے کیا کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کے چیئرمین حامد رضا کے کاغذات نامزدگی طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کر دی.