یہ کیسے ستم کی داستاں میرے رگ میں سرائیت کرگئی کہ مجھے پھر مرثیہ لکھنا پڑا ہے۔ نواحِ قبلہ اول میں ظلمت کیا کہانی بُن رہی ہے۔ مجھے لگتا ہے شاید انبیا کی سرزمینِ خاص کی قسمت میں بس خوں ریزی لکھی ہوئی ہے۔ مجھے اس خاک کی تاریخ کو معلوم کرنا ہے۔ مجھے یہ سوچنا ہے قتل و غارت کے ستارے کیوں اسی کو جنگ کا میداں بناتے ہیں۔ نسل کشی کے 331 دن مکمل ہوگئے ہیں۔
صرف 6 لاشیں ملی تھیں مغوی اسرائیلیوں کی کسی غار سے اور کیسے محض 6 لاشوں پر 5 لاکھ سے زائد اسرائیلیوں نے پورا تل ابیب بند کرکے سیز فائر کا مطالبہ کردیا ہے اور ہمارے تو 40,000 سے زائد فلسطینیوں کی لاشیں جن کو صہیونیوں نے بے دردی سے قتل کردیا، جس میں بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی شامل ہے۔ وہ معصوم بچے بھی شامل ہیں جنھوں نے شاید دنیا میں چند ہی سانسیں لی ہوں گی اور وہ بھی بارود بھری فضا میں۔ ہم کتنی بار اپنی حکومتوں سے سیز فائر میں اپنے کردار کا مطالبہ لے کر سڑکوں پر آئے ہیں؟
فلسطین میں قتل ہوتے بچوں، عورتوں، جوانوں، بزرگوں کی تصویریں اور بچ جانے والوں کی آہیں عالمی ضمیر نامی چیز پر احساس کے کچوکے لگا رہی ہیں۔ اظہار کے سب طریقے اور تاسف کے سب انداز اپنے معنی کھو رہے ہیں۔ المیہ جنم لے چکا ہے اور تاریخ اپنے دامن میں ظلم کی نئی داستان رقم کیے بے بس کھڑی ہے۔
7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اس جنگ میں اسرائیل اب تک 70 فیصد سے زائد غزہ تباہ کرچکا ہے۔ 2.3 ملین لوگ، جس میں 47 فیصد بچے شامل ہیں، متاثر ہوئے ہیں۔ غزہ کی 60 فیصد رہائشی عمارتیں، 80 فیصد بازار اور دیگر سہولیات فراہم کرنے والے مراکز، 65 فیصد فصلیں اور اس سے ملحق زمینیں، 65 فیصد سڑکیں اور 85 فیصد تعلیمی ادارے مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں اور صرف 36 میں سے 17 اسپتال ہیں جو جزوی طور پر کام کررہے ہیں۔
اسرائیل دن بہ دن اپنے قدم بیت المقدس کی طرف بڑھاتا جارہا ہے۔ بات غیرت مسلم پر آگئی ہے، ہاں اگر جاگ جائے تو!
جاگنے کےلیے تو اتنا ہی کافی تھا کہ جب اسرائیلی قومی سلامتی کے وزیر ایتمار بن غفیر نے کہا کہ ''ہم مسجد الاقصیٰ کے احاطے میں یہودیوں کی عبادت گاہ بنائیں گے۔'' اور پھر ایک اور اسرائیلی سیاستدان موشے فیگلن نے بیان داغا کہ ''ہم مسجد اقصیٰ میں اپنا تیسرا ٹیمپل بنانے سے زیادہ دور نہیں۔''
البتہ مذمت ضرور آئی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات وغیرہ سے، مگر آپ کا پاکستان یہاں بھی خاموش رہا۔ شاید سمجھتا ہے کہ نیتن یاہو کو دہشت گرد قرار دے کر فرض کفایہ ادا کردیا ہے۔
یہ سب دیکھ سارے ایمان کی آخری حد تک تو پہنچ گئے مگر پھر یہ سوال داغ دیتے ہیں کہ
'' آخر ہم کر ہی کیا سکتے ہیں؟''
اور جب بتایا جائے ''یہ سب'' کرسکتے ہیں تو پھر پوچھتے ہیں ''اس سب سے ہوگا کیا؟''
اور یہی وجہ حیرت ہے کہ نیکی کے کام کو بھی پوچھ کر اور سوال کے ساتھ کیا جارہا ہے اور وہ بھی شاید زبردستی۔
اب تو الفاظ کے ہتھیار بھی پھینک دیے جائیں، مذمتوں اور قراردادوں سے سیاہ ہونے والے کاغذوں کی کشتیاں بنالی جائیں۔ کیونکہ فلسطینی اپنی جنگ خود لڑ رہے ہیں اور شاید اکیلے ہی لڑتے رہیں گے۔
فلسطینیوں کی واحد امید 52 اسلامی ممالک ہیں یا شاید تھے، کیونکہ 41 ممالک پر مشتمل ایک فوج جن کے سپہ سالار پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف ہیں، وہ صرف یمن کے باغی گروہ کو شکست دینے کےلیے ہی بنی تھی یا صلاحیت ہی اتنی تھی، کیونکہ وہ نیتن یاہو کا تو ہاتھ نہ کاٹ سکے، نہ روک سکے ہیں، اب تک جو وہ فلسطینیوں کے ساتھ ساتھ اب الاقصیٰ کی طرف بھی آہستہ آہستہ بڑھا رہا ہے۔
ابھی تو یہ سارے الفاظ سے دھمکیاں لگارہے ہیں لیکن مسلم دنیا کی خاموشی نے اگر انھیں اور شہ دے دی اور کوئی عملی قدم اٹھالیا تو یہ سارے نامی مسلمان نہ اپنی نسلوں کو منہ دکھانے کے قابل ہوں گے اور نہ خدا کو جواب دینے کے۔ میرے الفاظ کا اختتام تو شاید کہیں نہ کہیں ہو ہی جائے مگر کون جانے اس ظلم کا اختتام کب اور کیسے لکھا ہے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔