ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران کہا ہے کہ سپرنٹنڈنٹ بیان حلفی دے گا کہ اڈیالہ جیل میں ملاقات کی جگہ کوئی ریکارڈنگ ڈیوائس نہیں لگی۔
اڈیالہ جیل میں پی ٹی آئی وکیل فیصل چوہدری اور نعیم حیدرپنجوتھہ کو روکنے کیخلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کی، جس میں سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل اور پراسیکیوٹر جنرل اسلام آباد پیش ہوئے۔
سماعت میں ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ ، ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب نعیم سنگھیڑا بھی عدالت میں پیش ہوئے جب کہ 190 ملین پاؤنڈز نیب کیس کے تفتیشی افسر میاں عمر ندیم بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اڈیالہ جیل سے کون آیا ہے، جس پر جیل سپرنٹنڈنٹ غفور انجم روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ تمام معزز وکلا کو جیل داخلے کی اجازت دیتے ہیںْ۔ عدالت نے کہا کہ وکلا کی شکایت ہے کہ 2 گھنٹے ان کو انتظار کروایا جاتا ہے۔ وہاں بتایا جاتا ہے پانی پینے کی سہولت بھی میسر نہیں۔ جس پر جیل سپرنٹنڈنٹ نے عدالت کو بتایا کہ تمام وکلا کو پوری سہولت فراہم کرتے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ وکیلوں کی گاڑی 10 منٹ کی چیکنگ کے بعد بیرون دروازے سے اندر جانے کی اجازت ہو گی۔ 3 ممبرز کا کمیشن اڈیالہ جیل کا دورہ کرکے غیر جانبدار رپورٹ دے گا۔ اڈیالہ جیل سپرنٹنڈنٹ بیان حلفی دے گا کہ کوئی ریکارڈنگ ڈیوائس ملاقات کی جگہ نہیں لگائی گئی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ جن وکلا کے وکالت نامے ہیں ان کے 3، 3 ایسوسی ایٹس کو جیل میں جانے اجازت ہو گی ۔ اس موقع پر پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ عدالت 3 ایسوسی ایٹس کے بجائے ایک کر دے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملزم 3 کیا 900 وکیل کرنا چاہے تو اس کا حق ہے ۔ آپ کہہ رہے ہیں جیل میں ٹرائل کرنا ہے وہ اوپن ٹرائل ہے۔ آپ نے جب جیل ٹرائل کا فیصلہ کر لیا تو آپ کو اثرات کا پتا ہونا چاہیے تھا۔