یہ لوٹ مار کی جنگ

خالد گورایا  جمعرات 28 اگست 2014
k_goraya@yahoo.com

[email protected]

دھرنوں کے باعث پاکستان کے مجموعی سسٹم پر سوالیہ نشان واضح طور پر ابھر کر سامنے آ گیا ہے۔ حکمران اور اس کی اتحادی جماعتیں بار بار باور کرا رہی ہیں کہ کہیں اس احتجاج اور دھرنوں سے جمہوریت نہ ختم ہو جائے۔ ٹرائیکی (جاگیردار+سرمایہ کار+اعلیٰ بیوروکریٹس) طبقہ جمہوریت کے لیے اتنا پریشان کیوں ہے۔ اس کے پیچھے کیا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ آج تک فوجی حکومتوں جن میں ٹرائیکی طبقہ ہی موجود رہا ہے ان سب کے ادوار میں عوام کی خوشحالی کی مسلسل نفی کی گئی ہے۔ ایک طرف سامراج نے عوام کو لوٹا ہے۔ 1947-48ء میں 3.308 روپے کا ایک ڈالر تھا۔ آج یہ ڈالر سو روپے سے پھر اوپر چلا گیا ہے۔ روپے کی قیمت میں 2937 فیصد کمی کر دی گئی ہے۔

اسی نسبت سے عوام کے لیے باہر سے آنے والی ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے اور سامراجی ملکوں کے لیے اسی نسبت فیصد سے پاکستانی تمام اشیا سستی کر دی گئی ہیں۔ غیر ملکی کمپنیاں تیزی سے عوامی سرمایہ باہر لے جا رہی ہیں، کرنسی کی قیمت میں کمی کی نسبت سے بجٹ، ادارے، تجارت مسلسل خسارے میں جا رہے ہیں، 16 اکتوبر 1951ء کے بعد سے آج تک تمام حکومتوں نے عوامی ضروریات کے مد نظر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی ہے۔ اور الٹا ٹرائیکی طبقہ جمہوریت کو استعمال کر کے عوام کی قوت خرید کو لوٹ رہا ہے۔

درج ذیل مالیاتی اعداد و شمار کتابوں Pakistan Statistical Year Book 2009-10 اور Statistical Supplement Pakistan Economic Survey 2012-13 اور2013-14 سے لیے گئے ہیں۔ مالی سال 2008-09ء میں ریونیو 1850901.0 ملین روپے سامراجی قرض وصولی 49694.4 ملین روپے۔ زرمبادلہ (Worker’s Rimittance) 613185.9 ملین روپے۔ ان تینوں مدوں کا ٹوٹل 25 کھرب 13 ارب 78 کروڑ 13 لاکھ روپے ہوتا ہے۔ اور 2008-09ء کے مالی سال کا Expenditure اخراجات 25 کھرب 31 ارب 30 کروڑ 80 لاکھ روپے تھا۔

تینوں متذکرہ مدوں کے ٹوٹل اور اخراجات کے ٹوٹل کو نفی کرتے ہیں تو 17526.7 ملین روپے کا خسارہ سامنے آتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس کتاب اکنامک سروے 2013-14ء کے صفحے 58 پر بجٹ خسارہ 6 کھرب 80 ارب 40 کروڑ 70 لاکھ روپے دکھایا گیا ہے۔ اس غلط بیانی کو بنیاد بنا کر حکومت نے ملکی (اسٹیٹ) بینک سے متذکرہ کتاب کے صفحے 132 کے مطابق مالی سال 2008-09ء میں 5 کھرب 86 ارب روپے کا قرضہ حاصل کیا۔

ایک طرف مہارت سے بجٹ کے اعداد و شمار کو پیش کیا گیا۔ پھر دھوکے سے بینک سے قرض لیا گیا۔ بجٹ میں دکھایا ہی نہیں گیا۔ دوسرا فراڈ جب زرمبادلہ ملک میں آتا ہے تو بینکوں کے ذریعے اس کی ادائیگی روپے کی شکل میں کر دی جاتی ہے اور یہ حکومتی تحویل ہونے کی وجہ سے حکومتی آمدنی بن جاتی ہے۔ اسے بھی بجٹ میں گول کر دیا جاتا ہے۔ حقیقت میں بجٹ خسارہ 17 ارب 52 کروڑ 67 لاکھ روپے تھا۔ اور 2008-09ء میں حکومت نے 5 کھرب 86 ارب روپے کا قرض لے کر ہڑپ کر لیا۔ اس کے بدلے کتنے کھرب کے ڈالر لے کر باہر منتقل کیے؟

مالی سال 2009-10(1)ء عوام سے ٹیکس وصولی 20 کھرب 78 ارب 16 کروڑ 50 لاکھ روپے۔ (2)۔سامراجی قرض وصولی 34 کروڑ 20 لاکھ روپے۔(3)۔زرمبادلہ 7 کھرب 63 ارب 29 کروڑ 56 لاکھ روپے۔ (8905.9 ملین ڈالر، ایک ڈالر 83.8017 روپے)ان تینوں کا ٹوٹل 28 کھرب 41 ارب 80 کروڑ 26 لاکھ روپے ہوتا ہے۔ متذکرہ کتاب کے صفحے 58 پر مالی سال 2009-10ء کا اخراجاتی بجٹ 30 کھرب 7 ارب 22 کروڑ 60 لاکھ روپے تھا اور اسی صفحے پر بجٹ خسارہ 9 کھرب 29 ارب 6 کروڑ 10 لاکھ روپے دکھایا گیا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ خسارہ ایک کھرب 65 ارب 42 کروڑ 34 لاکھ روپے تھا۔

حکومت نے زیادہ خسارہ دکھا کر مالی سال 2009-10ء میں 7 کھرب 99 ارب روپے کا قرضہ بینکوں سے لیا۔ اب یہاں یہ بالکل واضح حقیقت سامنے آ گئی اصل خسارے سے ہٹ کر حکومت نے ہر حال میں اپنا مقرر کردہ ٹارگٹ 6 کھرب کے آس پاس دھاندلی کو پورا کرنا تھا۔ مالی سال 2010-11ء کے اعداد و شمار کو بھی کتاب پاکستان اکنامک سروے 2013-14ء سے ہی لیا گیا ہے۔

2010-11ء میں (1)۔ریونیو 22 کھرب 52 ارب 85 کروڑ 50 لاکھ روپے تھا۔(2)۔سامراجی قرضہ 71 ارب 73 کروڑ 59 لاکھ 26 ہزار روپے۔(3)۔زرمبادلہ 9 کھرب 99 ارب 52 کروڑ 86 لاکھ 39 ہزار روپے۔ تینوں کا ٹوٹل 33 کھرب 24 ارب 11 کروڑ 95 لاکھ 65 ہزار روپے بنتا ہے۔ متذکرہ کتاب کے صفحے 58 پر اخراجاتی بجٹ 34 کھرب 47 ارب26کروڑ 30 لاکھ روپے دکھایا گیا ہے۔ اور خسارہ11 کھرب 94 ارب 40 کروڑ 80 لاکھ روپے دکھایا گیا۔ لیکن اصل حقیقت میں خسارہ ایک کھرب 23 ارب 14 کروڑ 34 لاکھ 35 ہزار روپے تھا۔

دراصل حکمراں اعداد و شمار کے ہیر پھیر سے خسارہ اس لیے زیادہ دکھاتے ہیں کہ حکومتی خزانے سے قرض لینے کا جواز بن سکے۔ مالی سال 2010-11ء کو حکمرانوں نے خسارے کو جواز بنا کر 13 کھرب 65 ارب روپے کا ملکی بینک سے قرضہ لے لیا۔ مالی سال 2011-12ء کا (1)۔ریونیو25 کھرب 66 ارب51کروڑ 40 لاکھ روپے تھا۔ (2)۔ سامراجی قرضہ وصولی 99 ارب 31 کروڑ 95 لاکھ57 ہزار روپے۔(3)۔ زرمبادلہ 12 کھرب 42 ارب 32 کروڑ 97 لاکھ روپے۔ تینوں کا ٹوٹل 39 کھرب 8 ارب16 کروڑ 32 لاکھ 57 ہزار روپے بنتا ہے۔

اور بجٹ میں اخراجات 39 کھرب 36 ارب 21 کروڑ 80 لاکھ روپے تھا اور بجٹ میں خسارہ 13 کھرب 69 ارب 70 کروڑ 40 لاکھ روپے دکھایا گیا۔ لیکن اصل خسارہ 28 ارب 5 کروڑ 47 لاکھ 43 ہزار روپے تھا۔ حکومت نے بڑھتے خسارے کا جواز لے کر 16 کھرب 21 ارب روپے کا قرض ملکی بینک سے لے کر گھپلا کیا۔

جاگیرداروں کو اس جمہوری کلچر میں آنے کا شوق اس لیے ہوتا ہے کہ انھیں عوام سے حاصل ہونے والے ٹیکسوں سے عیاشیاں اور نقد روپے بیرونی ملکوں کے دورے اور اشیا میسر آتی ہیں۔ اسی طرح مالی سال 2012-13ء کا (1)۔ ریونیو 29 کھرب 82 ارب 43 کروڑ 60 لاکھ روپے تھا۔ (2)۔سامراجی قرض وصولی 2 ارب 99 کروڑ 85 لاکھ 43 ہزار روپے۔(3)۔زرمبادلہ 13 کھرب 46 ارب 62 کروڑ25 لاکھ 37 ہزار روپے۔ ان تینوں کا ٹوٹل 43 کھرب 32 ارب 5 کروڑ 70 لاکھ 80 ہزار روپے بنتا ہے۔

حکومت نے بجٹ میں اخراجات 48 کھرب 16 ارب 30 کروڑ روپے دکھائے ہیں اور حکومتی بجٹ خسارہ 18 کھرب 33 ارب 86 کروڑ 40 لاکھ روپے دکھایا گیا ہے۔ لیکن حقیقت میں خسارہ 40 کھرب 84 ارب 24 کروڑ 29 لاکھ 20 ہزار روپے تھا۔ حکومت نے اعداد و شمار کا ہیر پھیر کر کے خسارہ زیادہ دکھا کر 18 کھرب 80 ارب روپے حکومتی بینک سے قرضہ لے کر استعمال کیا۔ کہاں کیا یہ سب جانتے ہیں۔

یہاں پر ایک چیز کی وضاحت کر دوں کہ مالی سال 2011-12ء کو تجارتی خسارہ 18 کھرب 98 ارب 48 کروڑ 80 لاکھ روپے (ڈالر میں 21 ارب 27 کروڑ 10 لاکھ ڈالر تھا) ہوا تھا۔ اس میں خسارہ اس بات کو کہا جاتا ہے کہ پاکستانی تاجروں نے بیرونی تاجروں کے مقابلے میں کم ایکسپورٹرز اور امپورٹرز کو اگر منافع نہ ملے تو تجارت ختم ہو گئی ہوتی۔ حکومت ان سے روپے کی قیمت میں کمی کر کے کمیشن کھاتی ہے۔

ڈاکٹر طاہر القادری اور عمران خان کے لیے بہتر تھا کہ یہ مطالبہ بھی پیش کرتے (1)۔ سرمایہ داروں+ جاگیرداروں+ اعلیٰ بیوروکریٹس کی نمایندگی کو ہر سطح پر صوبائی، قومی، سینیٹ اسمبلیوں میں غیر قانونی قرار دیا جائے۔ غریبوں کی نمایندگی کو صرف غریب عوام کے لیے قانونی قرار دیا جائے۔ملک میں جوں جوں آبادی اور پارٹیاں بڑھتی جا رہی ہیں توں توں یہ اپنی اپنی جگہ بنانے کے لیے سرگرم ہو جاتی ہیں۔ اب عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کہاں تک سودے بازی میں آگے جائیں گے۔ چند دن میں سامنے آ جائے گا۔ اور پاکستان پرستوں کی آزمائشیں بھی ہو جائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔