سیاسی پچ پر ’’کپتان‘‘ کی دھواں دھار ’’بیٹنگ‘‘

عارف عزیز  بدھ 24 ستمبر 2014
اسٹیج پر عمران خان، شاہ محمود قریشی و دیگر موجود ہیں۔ فوٹو: محمد ثاقب/ایکسپریس

اسٹیج پر عمران خان، شاہ محمود قریشی و دیگر موجود ہیں۔ فوٹو: محمد ثاقب/ایکسپریس

کراچی: متحدہ قومی موومنٹ اور تحریکِ انصاف عرصے کے بعد ایک مرتبہ پھر پچھلے دنوں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی نظر آئیں۔

اس بار ان کے مابین سیاسی تلخی کی وجہ ایم کیو ایم کا انتظامی بنیادوں پر سندھ کی تقسیم کا مطالبہ بنا، لیکن اس سے پہلے کہ الزامات اور تنقید کا سلسلہ دراز ہوتا ’خاموش مفاہمت‘ ہو گئی۔ کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور شیخ رشید نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس مفاہمت کی ایک جھلک ایم کیو ایم کا عمران خان کو کراچی میں خوش آمدید کہنا اور دوسری جانب اپنے جلسے میں عمران خان کا ایم کیو ایم کے خلاف بات نہ کرنا ہے۔ سندھ کی انتظامی لحاظ سے تقسیم کا مطالبہ پچھلے دنوں الطاف حسین نے کیا تھا، جس پر پیپلز پارٹی کا ردعمل تو اس جماعت کی ’ضرورت‘ جب کہ قوم پرستوں کی سیاست کا تقاضا ہے، لیکن یہ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم میں اختلافات کو ہوا دینے کا باعث ضرور بنا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کا کراچی میں جلسہ اس جماعت کی طرف سے بھرپور سیاسی قوت کا مظاہرہ تھا۔ اتوار کو نیو ایم اے جناح روڈ پر تحریک انصاف کے دھرنے میں کارکنان اور شہریوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ شرکا نے مختلف بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر ’’گو نواز گو‘‘ کے علاوہ ’’چاروں صوبوں کی کمان عمران خان عمران خان‘‘ کا نعرہ اور مختلف سیاسی مطالبات درج تھے۔ شرکا نے ہاتھوں میں قومی اور پارٹی جھنڈے اور عمران خان کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔

کراچی آمد کے بعد عمران خان جلوس کی شکل میں جلسہ گاہ پہنچے، جہاں ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔ اس موقع پر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری جلسہ گاہ کے اطراف میں تعینات تھی اور تمام شرکا کو واک تھرو گیٹ سے گزرا گیا۔ اس احتجاجی دھرنے سے پارٹی کے سینئر وائس چیئرمین مخدوم شاہ محمود قریشی، عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد، پی ٹی آئی سندھ کے صدر سردار نادر اکمل لغاری، مایۂ ناز کرکٹر جاوید میاں داد، پارٹی راہ نماؤں ناز بلوچ، سبحان علی ساحل، اشرف قریشی و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

پارٹی کے قائد عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ میں غلامی کی زنجیریں توڑنے آپ کو ایک قوم بنانے کے لیے کراچی آیا ہوں، ہمیں پختون، مہاجر، سندھی، بلوچی، سرائیکی، پنجابی میں تقسیم کر کے سیاسی فائدہ اٹھایا گیا، عوام سے ان کا بنیادی حق چھینا جاتا رہا ہے اور اب میں یہ نہیں ہونے دوں گا۔ انہوں نے نواز شریف سے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ نیا پاکستان بننے تک جاری رہے گی۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ ہم قانون بنائیں گے، ظالم کو کم زور پر ظلم کرنے سے روکیں گے۔ انہوں نے سندھ کے غریب طبقوں اور ہاریوں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ان پر جاگیردار ظلم کرتا ہے، جسے ہم روکیں گے اور مظلوم کو انصاف دیں گے۔

عمران خان نے کہا کہ وہ اساتذہ کو اہمیت اور تعلیم کو اولیت دیں گے، اس کے بعد پولیس کو ٹھیک کریں گے، اسے غیر سیاسی بنائیں گے اور پھر عدلیہ کی بہتری کے لیے کام کریں گے، ججوں کی تنخواہیں بڑھائیں گے تاکہ کوئی انہیں رشوت نہ دے سکے۔ عمران خان نے زور دے کر کہا کہ انصاف ہو گا تو ملک ترقی کرے گا۔ کرپشن کا خاتمہ اور کرپٹ حکومتوں کا احتساب کرنا ہوگا اور ہم یہ کر کے دکھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت کی مضبوطی کی بنیاد بلدیاتی نظام پر ہے، بلدیاتی نظام میں پولیس پر چیک ہوتا ہے، عوام کو اختیارات ملتے ہیں۔

اپنے خطاب میں عمران خان نے اقلیتی طبقے کے ساتھ امتیازی سلوک کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ قانون پر عمل درآمد سے انہیں تحفظ اور عزت ملے گی۔ عمران خان کا کہنا تھاکہ وہ موروثی سیاست کا خاتمہ کریں گے اور پی ٹی آئی میں الیکشن ہوں گے۔ اس جماعت میں رشتے داریاں نہیں نبھائی جائیں گی۔ ان کا کہنا تھاکہ 2013 کے الیکشن دھاندلی ہوئی اور ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ انہوں نے اندرون سندھ کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آرہا ہوں، آپ میرا ساتھ دیں، ہم سندھ سے جاگیردارانہ اور استحصالی نظام کا خاتمہ کر دیں گے۔

عمران خان نے کراچی کے بنیادی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ وہ ہر قسم کے مافیا کو مٹا دیں گے اور اس کے لیے عوام کا ساتھ ضروری ہے۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہاکہ عام انتخابات میں کراچی کے عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا، جس پر ان کے شکرگزار ہیں۔ عمران خان نے پاکستانی قوم کو جگا دیا ہے اور آج ثابت ہوگیا ہے کہ کراچی زندہ ہے۔ شاہ محمود نے کہا کہ ہم سندھ کے ہر ضلع اور ہر تعلقے میں جائیں گے، میں نے لاڑکانہ میں سندھی نوجوانوں کے بدلے ہوئے تیور دیکھے ہیں، اب پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی جماعت نہیں رہی بلکہ زر اور زرداری کی جماعت ہوگئی ہے۔

تحریک انصاف کراچی کو امن دے گی، کراچی والے خوف کی زنجیریں توڑ کر عمران خان کو کام یاب بنائیں۔ اس جلسے سے خطاب میں شیخ رشید نے کہاکہ شہر میں ٹارگیٹ کلنگ اور بھتا خوری عروج پر ہے، ڈاکٹر اور انجینئر ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، عمران خان کراچی میں بھتا خوری اور ٹارگیٹ کلنگ ختم کرنے آئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے راہ نما نادر اکمل لغاری نے کہا کہ کراچی سمیت پورا سندھ عمران خان کا گھر ہے، کبھی ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے نام پر تو کبھی قائد اعظم کی مسلم لیگ کے نام پر بیچا جاتا ہے، اب سندھ کے مجبور اور سہولیات سے محروم عوام عمران خان کی جانب دیکھ رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کی راہ نما ناز بلوچ نے اپنے خطاب میں عمران خان کو مسائل کا نجات دہندہ بتایا اور کہا کہ کراچی کے مسائل کا حل پی ٹی آئی کے پاس ہے۔ سیاسی تبصرہ نگاروں نے اس جلسے کو پی ٹی آئی کی بڑی کام یابی قرار دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کراچی کے اس جلسے سے اسلام آباد میں موجود دھرنے کے شرکا کا حوصلہ بڑھا ہے اور لاہور میں پی ٹی آئی اپنے حامیوں کو بڑی تعداد میں جلسہ گاہ تک لے آئی تو  مسلم لیگ (ن) کو زبردست دھچکا لگے گا۔

دوسری جانب ہفتے کے روز ڈیفنس، کلفٹن ریزیڈنس کمیٹی اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھی تین تلوار، کلفٹن پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ یہ مظاہرہ صوبے میں انتظامی یونٹس کے حق میں اور تحریک انصاف کے راہ نماؤں کے اس سلسلے میں بیانات کا ردعمل تھا۔ اس مظاہرے میں تحریکِ انصاف کے خلاف نعروں پر مشتمل پلے کارڈز اور بینرز نظر آئے۔ مظاہرین نے انتظامی یونٹس کے قیام کا مطالبہ کیا اور ترقی و خوش حالی کا راستہ کہا۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسے سندھ کی وحدت کے خلاف اور سندھ دشمنی کے مترادف قرار دینا غلط ہے۔ سندھ دھرتی سب کی ماں ہے اور کوئی اسے توڑنے کی بات نہیں کررہا۔

احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے خوش بخت شجاعت نے کہا کہ ہم محب وطن پاکستانی ہیں اور ہم سندھ اور پاکستان کی تقسیم کا سوچ بھی نہیں سکتے، دیگر قوموں کی طرح ہم بھی سندھ کو اپنا سمجھتے ہیں، ہماری حب الوطنی پر شک کیا جاتا ہے اور ہم پر طرح طرح کے الزامات لگائے جاتے ہیں، ہمیں کسی سے حبُ الوطنی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ کراچی کی قسمت کے فیصلے یہاں کے عوام خود کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکم راں بتائیں کہ کراچی اور سندھ میں بلدیاتی نظام کیوں ختم کیا گیا؟ آج کراچی اور سندھ مسائل کا گڑھ بن گیا ہے۔

شہرِ قائد میں صوبۂ پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں کے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے علاوہ مذہبی اور فلاحی تنظیمیں بھی خاصی متحرک ہیں اور شہر کے مختلف علاقوں میں ان کے قائم کردہ کیمپس میں شہری اشیائے خورونوش پہنچانے کے ساتھ عام ضرورت کا دیگر سامان بھی عطیہ کررہے ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔