فرقہ واریت کا فروغ، ذمے دار کون؟

جبار قریشی  جمعرات 23 اکتوبر 2014

ہر مذہب کا اپنا ایک فلسفہ ہوتا ہے۔ جس کے تحت وہ خدا، روح، کائنات، خیر و شر، سزا و جزا، بندش اور آزادی کا ایک خاص تصور رکھتے ہیں۔ اس کی روشنی میں ہی ان کے قواعد، تعلیمات، عبادات، رسوم و رواج اور ضابطہ اخلاق وجود میں آتے ہیں۔

کوئی بھی انسانی معاشرہ جب تبدیلی کے عمل سے گزرتا ہے تو وہ اپنے ساتھ نئے چیلنجز لے کر آتا ہے۔ ایسے حالات میں ہر مذہب میں فرقے وجود میں آتے ہیں۔ یہ سب فطری اصولوں کے تحت ہوتا ہے لیکن جب یہ فطری اصول اپنی حدود سے تجاوز کر جائیں یعنی ایک فرقہ دوسرے فرقے کے وجود کو تسلیم نہ کرے اور دوسرے سے نفرت کا اظہار کرے اسے فرقہ پرستی کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ فرقہ پرست معاشرہ تصور کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اس ضمن میں ایک نقطہ نظر سیکولر قوتوں کا ہے۔ ان کے نزدیک فرقہ پرستی دراصل حلوے مانڈے اور عطیات کی لڑائی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ کیونکہ دینی اور مذہبی جماعتوں کا کوئی واضح مالیاتی نظام نہیں ہے ان کے مالی وسائل کا زیادہ تر دارومدار عطیات، زکوٰۃ، فطرہ، صدقات اور قربانی کی کھالوں پر ہے کوئی جماعت بھی اپنے ان وسائل سے محروم ہونا نہیں چاہتی۔ ہر جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کے مالی وسائل میں اضافہ ہو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اختلافات بنائے اور ابھارے جاتے ہیں اس سے تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے، سادہ لوح عوام عطیات کی اس لڑائی کو نظریات کی لڑائی سمجھتے ہوئے ان جماعتوں کو مالی وسائل مہیا کرتے ہیں۔ آپ کراچی میں متنازع مساجد کا سروے کر لیں آپ کو وہ مساجد متنازع نظر آئیں گی جو اپنے محل وقوع کے اعتبار سے کسی منافع بخش جگہ پر واقع ہوں گی۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا ماہر معاشیات ہونا ضروری نہیں۔

فرقہ پرستی کے شکار ذہن کی ایک نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو حق پر دوسرے کو گمراہ کن تصور کرتا ہے پھر نتیجہ میں اس پر لازم ہو جاتا ہے کہ گمراہ کن فرقے کو راہ راست پر لائیں اس میں بعض اوقات طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے اس سے معاشرے میں تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے اور اس طرح معاشرہ تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے۔

مذہبی اور دینی طبقہ ان تمام الزامات اور خدشات کو مسترد کرتا ہے ان کے نزدیک یہ بات درست ہے کہ ہمارے یہاں چند مذہبی گروہوں کی سرگرمیوں کا اصل محرک حصول فنڈ ہے وہ اس مقصد کو پانے کے لیے منفی سرگرمیاں اختیار کرتی ہیں مگر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ چند کالی بھیڑوں کے اس طرز عمل کو تمام دینی اور مذہبی عناصر کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر شخص قرآن کی تمام باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی ہر شخص کے پاس حدیث مبارکہ کا ایسا علم ہے کہ وہ خود شریعت کے احکامات معلوم کر سکے اس لیے بزرگان دین نے عام لوگوں کی آسانی کے لیے برسوں کی محنت اور تحقیق کے بعد قرآن و حدیث کے احکامات پر غور کر کے مفصل قوانین مرتب کر دیے ہیں جن کو فقہہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے جب چند آدمی کسی معاملے کی تحقیق کرتے ہیں یا کسی بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی تحقیق اور سمجھ میں تھوڑا بہت اختلاف ضرور ہوتا ہے۔ اس لیے مختلف مکاتب فکر میں جو فقہی اختلافات پائے جاتے ہیں وہ قدرتی امر ہے اس لیے اسے حلوے مانڈے اور عطیات کی لڑائی قرار دینا کسی لحاظ سے درست عمل نہیں ہے۔

دینی قوتوں کے نزدیک یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ سیکولر عناصر جب کسی مسئلے پر اہل علم حضرات اپنا علیحدہ علیحدہ نقطہ نظر رکھتے ہوں تو ان کے نزدیک یہ بات علم و دانش کی علامت سمجھی جاتی ہے اس کے برعکس مذہبی اور دینی حوالے سے کسی مسئلے پر مختلف نقطہ نظر پیش کیا جائے تو یہ عمل ملائیت اور فرقہ واریت بن جاتا ہے۔

جہاں تک مختلف فرقوں کے باہمی تصادم کا تعلق ہے تو یہ بات جزوی طور پر درست ہے کلی طور پر درست نہیں حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کبھی عوامی مسئلہ نہیں رہا اور نہ ہی پاکستان میں عوامی سطح پر فرقہ واریت کو کبھی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔

پاکستان میں علما کے اختلافات کو خواہ مخواہ ہوّا بنا کر پیش کیا جاتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ عوام الناس کی اسلام سے جو دلی اور جذباتی وابستگی ہے اسے علما سے بدظن کر کے ختم کر دیا جائے۔ پاکستان میں لادینی عناصر پاکستان کا اسلامی تشخص ختم کر کے یہاں باطل نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔ علما پاکستان میں ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اس لیے یہ عناصر فرقہ واریت کی آڑ لے کر علما کو عوام الناس بالخصوص پڑھے لکھے لوگوں کے آگے قابل نفرت بنانا چاہتے ہیں تا کہ علما کی صورت میں پاکستان میں ان کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں جو سب سے بڑی مزاحمتی قوت ہے اسے غیر موثر بنایا جا سکے۔

راقم التحریر کی رائے میں فرقہ پرستی ایک جزوی مسئلہ صحیح لیکن معاشرے میں ایک مسئلے کی صورت میں موجود ہے اسے ختم ہونا چاہیے کیونکہ اس کے نتیجے میں جمہوری روایات کی کوئی اہمیت نہیں رہتی اور نہ ہی انسانی حقوق اہم رہتے ہیں معاشرہ مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جاتا ہے اس سے قومی یکجہتی کو نقصان پہنچتا ہے۔

اس میں سب سے زیادہ کردار ان نام نہاد علما کا ہے جو تحفظ مسلک کے نام پر تمام اخلاقی اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر پہلے تو اپنے سے مختلف نقطہ نظر رکھنے والے مسلک کی تحریروں کو جمع کرتے ہیں بالخصوص ایسے معاملات پر جو انھیں دوسرے مسلک کے لوگوں سے جداگانہ حیثیت دیتے ہیں پھر ان تحریروں سے اسے غلط مفہوم اور نتائج نکالتے ہیں کہ صاحب تحریر حواس باختہ ہو جاتا ہے وہ سب کچھ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔

ایسی کالی بھیڑیں ہر مکتب فکر میں موجود ہیں پھر ان کالی بھیڑوں میں لفظی جنگ شروع ہو جاتی ہے لفظوں کی اس جنگ میں فتح اور شکست کسی بھی فریق کی ہو شہادت صرف سچائی کی ہی ہوتی ہے یعنی بے چاری سچائی ماری جاتی ہے۔ منفی طرز عمل رکھنے والے نام نہاد علما یہ بات بھول جاتے ہیں کہ قلم ایک مقدس امانت ہے خدا تعالیٰ نے خود اس کی حرمت کی قسم کھائی ہے۔ ایک دن انھیں اپنے رب کے حضور اس امانت کا جواب دینا ہو گا۔ بدقسمتی سے یہ لوگ اپنے آپ کو علم کے اس درجے پر فائز سمجھتے ہیں جس پر پہنچنے کا خود علم بھی دعویدار نہیں ہے۔

مجھ جیسا سطحی علم رکھنے والا شخص جب ان کی توجہ ان کے اسمنفی طرز عمل کی جانب دلاتا ہے اور انسان دوستی پر زور دیتا ہے تو ان لوگوں کی جانب سے ایسے شخص کو مغرب زدہ ذہنیت کا مارا اور سیکولر کا علم بردار قرار دے دیا جاتا ہے لہٰذا وہ بے چارا چپ اور خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت محسوس کرتا ہے۔

اگر ہم فرقہ پرستی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں نام نہاد علما کے اس منفی طرز عمل کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرنی ہو گی بلکہ مزاحمت بھی کرنی ہو گی۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر ایسا قانون بنانا ہو گا کہ کوئی نام نہاد علما اس منفی طرز عمل کو اختیار نہ کر سکے۔

ہمیں یہ بات بھی سمجھنی چاہیے کہ انسان جس ماحول میں آنکھ کھولتا ہے وہ اس ماحول سے تعلق رکھنے والے مذہب، زبان، مسلک، لباس اور کلچر کو اختیار کر لیتا ہے۔ وہ اسے نہ صرف درست تسلیم کرتا ہے بلکہ اس پر فخر بھی کرتا ہے۔ یہ سب اس کی فطرت کے تحت ہوتا ہے اس میں اس کی ذات کا کوئی کمال نہیں ہوتا ہے یعنی خالق کائنات نے اسے جہاں پیدا کر دیا اس میں اس شخص کا کوئی عمل اور کردار نہیں ہوتا اس لحاظ سے ایک فرقے کا دوسرے فرقے ایک زبان بولنے والے کا دوسری زبان بولنے والے سے نفرت کا اظہار کرنا اس کے وجود کو تسلیم نہ کرنا بالکل بے معنی بات ہے۔

موجودہ بدلتے ہوئے عالمی حالات میں امت مسلمہ کی اس کمزوری کو بعض بین الاقوامی طاقتیں اپنے مکروہ سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لیے فرقہ واریت کو خوفناک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہیں پوری مسلم دنیا اس سازش کی لپیٹ میں ہے ایسے حالات میں ہم پر یہ بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس سازش کو ناکام بنائیں اس ضمن میں علما حق آگے آئیں اور قرآن و سنت اور ہمارے آخری نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں عوام کی رہنمائی کریں اسی میں ہماری فلاح بھی ہے اور نجات بھی۔

تعصب چھوڑ نادان دہر کے آئینہ خانے میں
یہ تصویریں ہیں تیری جن کو سمجھا ہے برا تو نے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔