پاک بھارت مذاکرات

ڈاکٹر توصیف احمد خان  بدھ 18 فروری 2015
tauceeph@gmail.com

[email protected]

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے میاں نواز شریف کو ٹیلیفون پر خوش خبری سنائی کہ نئے بھارتی سیکریٹری خارجہ جلد اسلام آباد کا دورہ کریں گے۔ بھارت نے پانچ ماہ قبل پاکستانی ہائی کمشنر کی نئی دہلی میں حریت کانفرنس کے رہنماؤں سے ملاقات کے بعد جامع مذاکرات کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا۔ اس دوران خطے میں اہم واقعات رونما ہوئے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے بھارت کا دورہ کیا اور بھارت کو افغانستان میں اپنا پارٹنر مقرر کرنے اور بھارت سے تجارتی تعلقات کو وسیع کرنے کے تاریخی اعلانات کیے۔ بھارت کے زیرِ کنٹرول کشمیر میں ریاستی انتخابات پر امن طور پر منعقد ہوئے مگر وزیر اعظم مودی کی انتہاپسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ان انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی۔

عمران خان کے اسلام آباد کے حساس علاقے میں دھرنے کی بناء پر چین کے صدر کا دورہ اسلام آباد ملتوی ہو گیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ یوں تو دونوں ممالک کے تعلقات گزشتہ 67 برسوں کے دوران سرد و گرم صورتحال کا شکار رہے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان دو بڑی جنگوں اور چھوٹے معرکوں کے باوجود کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ان جنگوں اور جنگ جیسی صورتحال سے متاثر ہوئے۔

دونوں ممالک کو امریکا اور یورپی ممالک سے کھربوں ڈالر کے قرضے لینے پڑے۔ اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کے اثاثے بڑھ گئے۔ برصغیر میں غربت و افلاس کی شرح کم نہ ہوسکی۔ پاکستان میں موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے اخبارات میں وادئ نیلم کی یہ خبریں شایع ہوئیں کہ وہاں کے مکین غیر ریاستی کردار Non State Actors کی شروع ہونے والی سرگرمیوں سے پریشان ہیں پھر کنٹرول لائن پر فائرنگ کی خبریں آنے لگیں، اس فائرنگ میں کئی بے گناہ افراد جاں بحق ہوئے۔ سیالکوٹ میں آباد دیہات کے لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔ ان کی فصلیں تباہ ہو گئیں اور مویشی ہلاک ہو گئے۔

نریندر مودی وزیر اعظم منتخب ہوئے تو انھوں نے میاں نواز شریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تو میاں نوازشریف کی دہلی میں وزیراعظم مودی سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد پاکستان اور بھارت کے جنرل ہیڈکوارٹرز GHQ کے افسران میں رابطے ہوئے اور لائن آف کنٹرول پر کشیدگی کچھ کم ہوئی۔ اس دوران پاکستان کے زیرِکنٹرول کشمیر اور بھارت کے زیرِکنٹرول کشمیر میں تجارتی معاملات میں گڑبڑ ہوئی۔ بھارتی حکام نے پاکستان سے جانے والے ایک ٹرک سے ہیروئن برآمد کرنے کا الزام لگایا اور ٹرک ڈرائیور کو گرفتار کر لیا اور ٹرکوں کی آمد و رفت روک دی۔ یہ سلسلہ کچھ دنوں بعد حل ہوا۔

مگر گزشتہ ہفتے پھر یہ صورتحال پیدا ہوئی، یوں کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان تجارت پھر رکی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف بھارت سے تجارت کا حجم بڑھانے کے خواہش مند ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کے معاملے کو معمول پر لانے کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان بھارت کو انتہائی پسندیدہ ملک (MFN) قرار دے۔ بھارت بہت سال پہلے پاکستان کو یہ درجہ دے چکا ہے مگر وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش کے باوجود یہ معاملہ ہنوز التواء کا شکار ہے۔ وزیر تجارت خرم دستگیر پہلے اس بارے میں خاصے متحرک تھے مگر انھوں نے اس طرح خاموشی اختیار کر لی ہے جیسے پیپلز پارٹی کے دورِ اقتدار میں وزیر تجارت مخدوم امین فہیم نے اختیار کر لی تھی۔

سیاچن گلیشیئر کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کا معاملہ دونوں ممالک کے درمیان اہم ہے۔ 80ء کی دھائی سے سیاچن میں دونوں ممالک کی فوج کشی سے ایک طرف ہزاروں فوجیوں کی جانیں گئیں تو دوسری طرف دونوں ممالک سالانہ اربوں روپے اس پروجیکٹ پر خرچ کرنے پر مجبور ہیں، جب کہ گولہ بارود کے استعمال سے ماحولیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس جنگی صورتحال کی بناء پر گلیشیئر کے پگھلنے کا عمل تیز ہو گیا ہے، جنگلات تباہ ہو رہے ہیں۔

اس صورتحال میں سیلاب آنے کی شرح بڑھ گئی ہے۔بھارت کی فوجی بیوروکریسی سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کے حق میں نہیں ہے۔ یہ فوجی بیوروکریسی اس معاملے کو عسکری برتری کے حوالے سے دیکھتی ہے۔ سیاچن کے معاملے کو انسانی اور خطے میں امن کی مجموعی صورتحال کے حوالے سے دیکھا جائے تو بھارت کی منتخب حکومت کو اس معاملے میں اپنی بالادستی کو یقینی بنانا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک اہم معاملہ ممبئی میں ہونے والی دہشت گردی ہے۔

پاکستان میں متحرک غیرریاستی کرداروں کے بارے میں امریکا اور اقوامِ متحدہ کا بھی یہی مؤقف ہے۔ امریکا نے لشکرِ طیبہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیدیا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی کارروائی محض کاغذات تک موجود ہے۔ نائن الیون کے بعد دنیا کی بدلتی ہوئی صورتحال اور ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی بناء پر غیر ریاستی کرداروں کی سرگرمیاں خطرناک ہیں۔ سابق صدر پرویز مشرف نے افغانستان میں صدر حامد کرزئی حکومت کے خلاف پراکسی وار کا اقرار کر کے اپنی حکومت کو ہی ایکسپوز نہیں کیا بلکہ پاکستان کے مؤقف کو بھی کمزور کر دیا ہے۔ پاکستان بھارت پر بلوچستان، فاٹا اور کراچی میں دہشت گردی کے الزامات لگا رہا ہے۔

پھر دونوں ممالک کے ماہی گیر سرحدوں کی خلاف ورزی پر سزائیں پا رہے ہیں۔ اب رہائی پا رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے سیکریٹری خارجہ کے مذاکرات میں یہ مسائل سرفہرست ہونگے۔ حکومت نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عملدرآمد کر کے نہ صرف ملک میں دہشت گردی کے واقعات کا تدارک کر سکتی ہے بلکہ بھارت اور بین الاقوامی برادری کے خدشات کو بھی دور کیا جا سکتا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے تعلقات سے دونوں ممالک کے عوام براہِ راست متاثر ہوتے ہیں۔ دونوں ممالک کی ویزا پالیسی کی پابندیاں اسی نوعیت کی ہیں جیسی پابندیاں امریکا اور یورپ نے ایشیائی ممالک کے شہریوں پر عائد کی ہیں۔ برصغیر کے لوگ ایک نسل سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا تاریخی پس منظر اور لاکھوں لوگوں کا مذہب ایک ہے۔ پھر لاکھوں لوگوں کے آباؤ اجداد ہجرت کر کے گئے تھے۔ ان کے سفر پر پابندیوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔

پاکستان اور بھارت کو شہریوں کے لیے ویزا کی پابندیوں کو گاندھی اور محمد علی جناح کی خواہشات کے مطابق نرم کرنا چاہیے۔ ویزے کی رسائی کے لیے بھارت میں ممبئی، کلکتہ، مدراس اور لکھنو اور پاکستان میں کراچی، لاہور اور پشاور میں قونصل خانے قائم کرنے چاہئیں۔ ہوائی اڈوں اور سرحدی پوائنٹ پر ویزے ملنے چاہئیں۔ کراچی سے راجھستان جانے والی تھر ایکسپریس کے آغاز کو 9 سال گزر گئے مگر کراچی کی سرحد کے داخلی مرکز پر ویزے کی سہولت نہ ہونے کی بناء پر اس ریل گاڑی میں سفر کرنے والے افراد کی تعداد کم ہے۔ پھر کتابوں اور اخبارات کی برآمد و درآمد پر اتنا ہی ٹیکس عائد ہے جتنا کہ امریکا اور یورپ سے آنے والی کتابوں پر ہے۔

اصولی طور پر  کتابوں و اخبارات پر کسی قسم کا ٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔ پہلے مرحلے میں پاکستان اور بھارت کی کتابوں کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دینا چاہیے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے کشمیر میں کامیاب ہونے والی جماعت پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (PDP) کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔ پی ڈی پی کی اہم شرط پاکستان سے مذاکرات شروع کرنا ہے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے سابق سیکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل محمود درانی کی ٹریک ٹوڈپلومیسی کامیاب رہی۔

بھارتی صحافی اور دانشور جاوید نقوی کی جانب سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذاکرات کا آغاز کرکٹ ڈپلومیسی کی وجہ سے ہے۔ مگر کچھ مبصرین اس کا سہرا صدر اوباما کو خطے میں ان کی کوششوں سے منسلک کرتے ہیں، اس کا سہرا کسی کو بھی جائے دونوں ممالک کے لیے بات چیت کی امید برصغیر کے کروڑوں عوام کے لیے خوشخبری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔