شہر خموشاں میں خاموش ملاقاتیں!

اویس حفیظ  پير 6 اپريل 2015
نجانے کیسے کیسے نگینے لوگ اس مٹی میں خاک ہوچکے ہیں۔

نجانے کیسے کیسے نگینے لوگ اس مٹی میں خاک ہوچکے ہیں۔

اگرچہ اقتدار کے ایوانوں سے ہمیں اتنا ہی واسطہ ہے جتنا بقول ’’مشتاق یوسفی‘‘ تقسیم سے تین چار سو سال قبل چمڑے کے سوداگروں کو دلی کے دربار سے ہوا کرتا تھا، مگر اس کے باوجود محسوس یہی ہوتا ہے کہ ہمارا دل کہیں شہر اقتدار میں ہی اٹکا ہوا ہے۔

اسلام آباد جسے آباد کرنے کا کریڈٹ ممتاز مفتی قدرت اللہ شہاب کو دیتے ہیں اور جس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ شہر ’’گریڈز‘‘ کا شہر ہے یعنی ہر شخص اس شہر میں اپنے رینک کے حساب سے دوسروں سے ملتا جلتا ہے۔ کئی دنوں سے ہم ایک تشنگی محسوس کر رہے تھے، ایک ادھورا پن تھا، یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے کوئی پکار رہا ہے، اسی پکار کے جواب اور تسکین تشنہ لبی کیلئے اسلام آباد کا رخت سفر باندھا۔ نہ کوئی منزل تھی اور نہ ٹھکانہ فقط ایک تسلی تھی کہ ساماںِ افزاِراحت جاں وہیں موجود ہے۔

رات کے اندھیرے میں ’’شہر پرسانِ حال‘‘ کو چھوڑا تاکہ زیادہ سے زیادہ وقت شہر اقتدار کی نذر ہوسکے۔ اسلام آباد قدم رکھنے کے بعد ایک گہرا سانس لے کر ہوائے دیارِ یاراں سے موافقت پیدا کی اور شہر خموشاں کا رخ کر لیا۔ غالباً H-8 قبرستان کا یہ تیسرا گیٹ تھا جہاں ٹیکسی نے ہمیں چھوڑا۔ قبرستان میں داخل ہوئے تو چند قدموں پر ایک بورڈ نظر آیا کہ قبرستان میں مزید قبروں کی گنجائش نہیں ہے لہٰذا اب کسی کی بھی اس قبرستان میں تدفین نہیں ہوگی۔ ناک کی سیدھ میں ہم آگے بڑھ دئیے تو چند قدموں کی مسافت کے بعد بالکل سامنے ہمیں ’’پروین شاکر‘‘ محو استراحت نظر آئیں۔ دل کی دھڑکنیں سبک ہو گئیں کیونکہ ہم اس وقت پروین شاکر سے ملاقات کیلئے بالکل بھی تیار نہ تھے۔

یا رب! میرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہنر کو حوصلہِ لب کشائی دے
شہرِ سخن سے روح کو وہ آشنائی دے
آنکھیں بند بھی رکھوں تو رستہ سجھائی دے

پروین شاکر کی مرقد پر کندہ یہ اشعار اس کی دعا کی قبولیت کی غمازی کر رہے تھے، کچھ دیر تو یوں محسوس ہوا کہ ابھی پروین اُٹھ کھڑی ہوں گی اور خوشبوئے سخن سے فضائے ادب کو دوبارہ مہکا دیں گی۔ بہرحال ہم نے قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر پروین سے کچھ دیر باتیں کیں اور پھر اجازت لے کر آگے بڑھ دئیے۔ قبر سے دائیں جانب کچھ فاصلے پر ایک سیاہ کتبہ ہمیں بار بار متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، کتبے پر نام پڑھنے کی کوشش کی تو ایک جانا پہچانا سا نام نظر آیا۔ ہم تیز تیز قدم بڑھاتے وہاں پہنچے۔ وہ ’’احمد فراز‘‘ کی قبر تھی۔ ایک لمحے کو تو یہی محسوس ہوا کہ جیسے فراز صاحب کہہ رہے ہوں کہ ’’بھائی! اگر پروین شاکر کی محفل سے فارغ ہوجاؤ تو جاتے ہوئے میری بھی بات سنتے جانا۔‘‘

میں صحرائے محبت کا مسافر تھا فرازؔ
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا

کچھ دیر ہم فراز کی صحبت میں رہے اورپھر سلام دعا لے کر آگے بڑھنے لگے کہ ہمیں فراز کی مرقد کے بالکل پیچھے ایک چھوٹی سی قبر نظر آئی جس پر یہ کتبہ لگا تھا

’’ماما کی پری
پاپا کا جن
یہاں سو رہا ہے‘‘

کتبہ پڑھتے ہی اس معصوم روح کیلئے دعا آنکھوں کے رستے سے باہر آگئی۔ خدا اس کے والدین کوصبر و اجر دے، آمین۔ آہ!

حسرت ان غنچوں پر
جو بن کھلے مرجھا گئے

کچھ دیر ہم مرقدوں کے درمیان گھومتے رہے پھر سامنے ایک اجڑا ہوا جنگل سا نظر آیا۔ ویسے یہ عجب بات تھی اور ہم راستے میں بھی یہ مشاہدہ کرچکے تھے کہ اسلام آباد میں ہمیں درختوں پر کسی قسم کا کوئی برگ وبار نظر نہیں آیا۔ ہم نے مختلف ٹیکسی ڈرائیوروں سے بھی اس بابت دریافت کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو یہی جواب ملا کہ ٹھنڈ کی وجہ سے درختوں کے سب پتے جھڑ چکے ہیں اور ہم اس جواب پر یہی سوچتے رہ گئے کہ ہمارے ہاں تو سردیوں میں درخت ٹنڈ منڈ کا منظر پیش نہیں کرتے۔ ابھی ہم جنگل کے بارے میں ہی سوچ رہے تھے کہ ایک قبر پر؛

’’اقبال بیگم
بیگم ممتاز مفتی‘‘

کا کتبہ لگا نظر آیا۔ فاتحہ سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے ممتاز مفتی کی تلاش شروع کردی کیونکہ ہمیں یقین تھا کہ مفتی صاحب بھی ’’بھابھی جی‘‘ کے پاس ہی کہیں ہوں گے، کیونکہ کامیاب شادی کا اصول یہی ہے کہ بیوی کے پلو کے سائے میں ہی بسیرا کیا جائے اور پھر بیگم مفتی، مفتی صاحب جیسے آزاد منش شخص کو کیسے تا حشر اپنی نظروں سے اوجھل کرسکتی تھیں، بہر کیف تھوڑی سے نظروں کی مشق کے بعد ہمیں ایک قبر پر ’’ممتاز مفتی‘‘ کا بڑا سا کتبہ نظر آ ہی گیا۔ اقبال بیگم کی قبر سے ذرا سا ہٹ کر پیچھے کی جانب مفتی صاحب چھپ کر بیٹھے تھے جیسے کہہ رہے ہوں کہ ’’کتنا چھپ کر بیٹھا تھا مگر لوگ یہاں بھی سکون سے نہیں رہنے دیتے۔‘‘ کچھ دیر ہم نے مفتی صاحب کے ساتھ راز و نیاز کی باتیں کیں اور پھر آگے بڑھ دئیے۔ آگے چلتے چلتے ہمیں ایک قبر کے کتبے پر لکھا نظر آیا؛

جو کوئی مومن کرے اس پر نظر
فاتحہ لِللّٰہ پڑھ لے اس قبر پر

فاتحہ پڑھ کر ہم فارغ ہوئے اور اسی ’’توارد یا خیالِ سفر‘‘ کا ایک اور شعر یاد آ گیا؛

اٹھا لے ہاتھ آج فاتحہ کے واسطے
تُو بھی مجبور ہو گا کل اس دعا کے واسطے

زمین پر اکڑ کر چلتے وقت ہمیں کبھی یہ خیال نہیں ستاتا کہ کل کو ہم نے اس زمین کے نیچے جا سونا ہے، یہی مٹی ہمارا اوڑھنا، بچھونا ہو گی۔ ہم نے دنیا کو جائے امتحان کی بجائے جائے تماشا سمجھ لیا ہے اور اس میں یوں مگن ہے کہ آس پڑوس کی کوئی خبر ہی نہیں۔ کسی کا خیر ذکر ہی کیا کہ ہمیں بھی ان خیالات نے شہر خموشاں میں ہی آکر گھیرا تھا اور یقین تھا کہ باہر نکلتے ہی شہر کی رنگینیوں میں ایسے مگن ہوں گے کہ پھر ایسی ’’راہ سے بھٹکانے والی ‘‘ فکریں پاس بھی نہ پھٹکیں گی۔انہی سوچوں میں مگن چلتے ہوئے ہمیں اچانک ایک سر سبز و شاداب قبر نظر آئی جس کے سیاہ کتبے پر ہم سے صرف

’’شہر افسانہ
محمد منشاء یاد‘‘

ہی پڑھا گیا۔ کتبے پر منشاء کے افسانوں سے دو اقتباسات بھی درج تھے مگر سبزے میں ڈھکے ہونے کے باعث ہم وہ پڑھنے سے محروم رہے۔ یہاں پر فاتحہ پڑھ کر آگے بڑھے اورخاک نوردی کرتے ہوئے ہمیں ’’مولانا کوثر نیازی‘‘ کی قبر نظر آئی۔

مولانا کوثر نیازی کی قبر پر حاضری لگوا کر آگے بڑھے تو بے چینی سے ہونے لگی، کیونکہ ہم جس قبر کی تلاش میں تھے اب تک اسے ڈھونڈنے سے عاجز تھے۔ ایک گورکن سے دیارفت کیا تو اس نے پہلا سوال یہی پوچھا کہ ’’پلاٹ نمبر کیا ہے؟‘‘ ہائیں! پلاٹ، قبروں کے بھی پلاٹ نمبر ہوتے ہیں؟ خیر کچھ دیر کی مغز کھپائی کے بعد اس نے ہمیں درست راہ پر گامزن کردیا۔ قبرستان کے پہلے گیٹ کے پاس ’’جناب قدرت اللہ شہاب ‘‘ محو آرام تھے۔ قبر پر نظر پڑتے ہی ہمارا یہاں آنے کا مقصد تمام ہو گیا، اس قبر پر ہم دوزانو ہو کر بیٹھ گئے، کچھ دیر کے ’’اکتساب ِ فیض‘‘ کے بعد نظریں اٹھائیں تو بالکل ساتھ موجود ایک قبر پر’’عطیہ ربانی‘‘ کا کتبہ نظر آیا۔ اگرچہ اب تک ہم اس کی تصدیق سے قاصر ہیں لیکن دل گواہی دیتا ہے کہ یہ عطیہ وہی ’’SEERعطیہ‘‘ ہیں جن کا تذکرہ ممتاز مفتی نے ’’الکھ نگری‘‘ میں کیا ہے۔ یہیں پر عقب میں ’’حاجی عبدالمعبود‘‘ کی بھی قبرموجود تھی جنہوں نے 162 سال کی عمر پائی، انہوں نے 1857ء کی جنگ آزادی میں بنفس نفیس حصہ لیا تھا، ان کا تذکرہ بھی الکھ نگری میں تفصیلی کیا گیا ہے۔

یہاں پر حیرانی کی بات یہ تھی کہ دو قبروں پر عبدالمعبود کا کتبہ لگا نظر آیا۔ ایک پر ’’جائے فاتحہ‘‘ لکھا تھا، خیر ہم نے فاتحہ پڑھی اوران سب سے اجازت لے کر واپسی کی راہ لی۔ ابھی اس قبرستان میں ہمارے علم کے مطابق ایک اور شخصیت کی قبر باقی تھی لہٰذا ایک گورکن کی رہنمائی میں ہم ’’نسیم حجازی‘‘ کی قبر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ فاتحہ سے فارغ ہوئے تو اس گورکن سے گفتگو شروع ہو گئی۔ کچھ تو ماحول کا اثر تھا اور کچھ ادب و احترام کہ اس گورکن کا نام ہم نے ہی پوچھا نہ ہی اس نے بتایا، البتہ اس سے ہماری گفتگو کافی دیر چلتی رہی۔ اس نے بتایا کہ پچھلے گیارہ سال سے وہ اس قبرستان میں فرائض انجام دے رہا تھا اور اسی نے یہ پتے کی بات بتائی کہ ’’اگرچہ قبر کے اندر کا حال کوئی نہیں جانتا مگر لوگوں کی آمد سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کسے خدا کے ہاں کتنا شرفِ قبولیت حاصل ہے‘‘۔ اس نے بتایا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ممتاز مفتی کی قبر پر کوئی نہ آتا ہو، بلا ناغہ خواتین سمیت درجنوں لوگ مفتی صاحب کی قبر کا رخ کرتے ہیں، جن میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد ’’قدرت اللہ شہاب‘‘ کی قبر لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے۔(قدر ت اللہ شہاب کو وہ کبھی شہاب اللہ کہہ دیتا اور کبھی شہاب الدین)۔

اس کے بقول مشاہیر میں سب سے کم آمد نسیم حجازی اور مولانا کوثر نیازی کی قبر پر ہے۔ اسے یہ بھی گلہ تھا کہ پچھلے گیارہ سالوں میں نے اس نے مولانا کوثر نیازی کے بیٹے کو بھی صرف ایک بار والد کے قبر پر حاضری دیتے ہوئے دیکھا ہے۔ خیر مجھے اس بات سے اختلاف تھا کہ ہم جیسے لوگوں کا اِن تمام لوگوں سے کوئی رشتہ نہ تھا پھر بھی ہم اپنا شہر چھوڑ کر گھنٹوں کا سفر طے کرنے کے بعد یہاں پہنچے اور سب کیلئے دعائے مغفرت کی۔ نجانے ہمارے گزرنے کے بعد کوئی اپنا بھی ہمارے لئے ہاتھ بلند کرتا ہے یا نہیں۔ البتہ اس گورکن کی ایک بات تو بالکل ٹھیک تھی کہ ’’ٹماٹر کا بھی علم ہوتا ہے کہ کم از کم دو،چار دن تو چلے گا مگر انسان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ اگلے لمحے وہ موجود ہو گا یا نہیں‘‘۔

کیا بشر کی بساط
آج ہے کل نہیں

ہم نے گورکن سے صرف ایک سوال کیا کہ اس قبرستان میں اتنے مشاہیر دفن ہیں، کچھ کو ہم نے ڈھونڈھ نکالا، کچھ نے ہمیں اپنے پاس بلا لیا، انتظامیہ اس بارے میں کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھاتی کہ قبرستان کے تمام دروازوں پر ایک بورڈ ہی لگا دے کہ کون کون سے مشاہیر یہاں دفن ہیں اور ان کی قبر کس حصے میں موجود ہے۔ اب ہزاروں قبروں میں اپنے مطلب کی قبر ڈھونڈنا بھی ایک وقت طلب کام ہے اور وہ بھی ایسے میں جب آپ کو ’’پلاٹ نمبر‘‘ کا بھی علم نہ ہو۔ جواباً گورکن نے اسے انتظامیہ کی بے توجہی قرار دیا۔ خیر اس گفتگو سے فراغت ملی تو واپسی کی راہ لی۔

راہ چلتے ہمیں ایک قبر کی کھدائی ہوتے ہوئے نظر آئی جو ہمارے لئے باعث حیرانی بھی تھی کیونکہ قبرستان کے دروازے پر ہم نے نوٹس لگا دیکھا تھا کہ قبرستان میں مزید قبروں کی گنجائش نہیں ہے۔ پھر یہ کھدائی؟ہمیں احساس ہو گیا کہ پاکستان میں کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔ ابھی چند دن قبل یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ اسلام آباد کے قبرستانوں H-8 اور H-11 میں اسلام آباد کا شناختی کارڈ نہ رکھنے والوں کیلئے قبر کا حصول ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ اس خبر میں ہی ہم نے یہ تفصیل پڑھی کہ H-8 کا یہ سرکاری قبرستان 500 کنال تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میں قبروں کیلئے 190 پلاٹ بنائے گئے تھے اور ایک پلاٹ میں 128 سے 150 قبروں کی جگہ بنائی گئی ہیں۔

اب اگر ہر پلاٹ میں زیادہ سے زیادہ یعنی 150 قبریں بھی ہوں تو 190 پلاٹوں میں 28500 قبریں ہونا چاہئے تھیں مگر اخباری اعداد و شمار کے مطابق قبرستان میں اس وقت تقریبا ً40 ہزار سے زائد قبریں موجود ہیں جبکہ قبرستان کے ایک گورکن سے ہم نے اس حوالے سے استفسار کیا تو اس نے بتایا کہ اس قبرستان میں کم از کم ایک لاکھ قبریں موجود ہیں۔ خدا سب کی مغفرت کرے۔

نجانے کیسے کیسے نگینے لوگ اس مٹی میں خاک ہوچکے ہیں۔ چونکہ یہ شہر اقتدار کا قبرستان تھا اس وجہ سے اقتدار کے ایوانوں کے مقیم اور سرکاری محکموں میں فائلوں پر سانپ بن کر بیٹھنے والے بھی کئی افراد یہاں پراپنی حقیقی منزل کو پاچکے ہوں گے جو ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ عمر خضر کے بعد بھی ٹھکانہ یہی دو گز زمین ہے۔ عہدہ جتنا بھی بڑا ہو، کفن جتنا بھی مہنگا ہو اور قبر کا کتبہ جتنا بھی دیدہ زیب ہو، سفر آخرت کیلئے یہ رخت کام نہیں آتا۔ کاش کہ ہم غفلت میں ڈوبنے کی بجائے اپنے اس اٹل سفرکے لئے کچھ سامان جمع کریں، خد اہمیں ہدایت دے اور آنکھیں بند ہونے سے پہلے آنکھیں کھولنے کی توفیق دے۔

یوں تو شہر خموشاں کو جائے عبرت کہا جاتا ہے اور سامان عبرت کا حصول ہی وہ واحد شرط ہے جس کے تحت قبروں کی زیارت کی شریعت میں اجازت مرحمت کی گئی لیکن اس شہر خموشاں میں دفن مشاہیر سے خاموش ملاقاتیں کرنے کے بعد جب ہم رخصت ہو رہے تھے تو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے 4 دہائیاں قبل کے ’’پاک ٹی ہاؤس‘‘ سے چائے پی کر رخصت ہو رہے ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جاسکتے ہیں۔

اویس حفیظ

اویس حفیظ

ایک موقر ملکی روزنامے اورمقامی جریدے سے قلم کاتعلق قائم رکھنے والا اویس حفیظ، جو اپنی قلم طرازیوں کی بدولت ادب و صحافت سے تعلق جوڑنے کی ایک ناکام سعی میں مصروف ہے، خود بھی نہیں جانتا کہ وہ کون ہے۔ جامعہ پنجاب سے ترقیاتی صحافیات میں ایم ایس سی تو ہوگئی تھی مگر تعلیم کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔