پُرآشوب دور کا پُرعزم حکم راں

ڈاکٹر سید جعفر احمد  منگل 16 اکتوبر 2012
قائدِ ملت لیاقت علی خان کو بہ طور وزیرِاعظم بُحرانوں سے عہدہ برآ ہونا پڑا.  فوٹو : فائل

قائدِ ملت لیاقت علی خان کو بہ طور وزیرِاعظم بُحرانوں سے عہدہ برآ ہونا پڑا. فوٹو : فائل

پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کا دورِ حکومت چار سال اور دو ماہ کی مدت پر محیط ہے۔

انہوں نے 15 اگست 1947 کو وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالا اور 16 اگست 1951 تک وہ اسی منصب پر فائز رہے۔ چار سال کی یہ مدت ایک پُرآشوب دور کی حیثیت رکھتی ہے، جس میں نوزائیدہ مملکتِ پاکستان تقسیمِ ہند کے بعد کے واقعات سے عہدہ برا ہورہی تھی۔ یہ ایک پُرآشوب دور تھا جس کی حشرسامانیاں تاریخ میں اپنی نظیر نہیں رکھتیں۔ پاکستان اپنے قیام پر ہی بقا کی آزمائش سے دوچار ہوچکا تھا۔ اسی دور میں ملک کے مستقبل کے خدوخال بھی کسی نہ کسی حد تک اُجاگر ہونا شروع ہوگئے تھے اور بعد کے برسوں میں پاکستان نے جن سیاسی بحرانوں کا مشاہدہ کیا، اُن کے ابتدائی نقوش بھی اسی دور میں نمایاں ہونے شروع ہوئے تھے۔ غرض چار سال کی اس مدت کو چند سطور میں سمیٹنا خاصا دشوار کام ہے۔

لیاقت علی خان کے حوالے سے یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد وزارتِ عظمیٰ کے منصب کے لیے قائداعظم کی نگاہ لیاقت علی خان پر جاکر ٹھہری۔ یہ بات بجائے خود اہم ہے، کیوںکہ اُس وقت مسلم لیگ میں بہت زیادہ نہ سہی چند ایک ایسے راہ نما اور بھی موجود تھے، جنہیں اس منصب کے لیے زیرِغور لایا جاسکتا تھا۔ مثلاً چوہدری خلیق الزماں اور حسین شہید سہروردی ایسے راہ نما تھے جنہوں نے ہندوستان کی سیاست میں اپنے لیے ایک مقام بنایا تھا اور خود مسلم لیگ کے لیے ان کی خدمات کچھ کم اہم نہیں تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ قائداعظم نے ان ناموں پر بھی غور کیا ہو اور پھر اُن کا حتمی فیصلہ لیاقت علی خان کے حق میں رہا ہو۔

سیاست کی دنیا میں کسی بھی فیصلے کے حوالے سے دو آراء ہوسکتی ہیں، مثلاً آج یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے طور پر سہروردی کا انتخاب کیا جاتا تو شاید یہ ملک کے مستقبل کے نقطۂ نظر سے بہتر فیصلہ ہوتا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وزیراعظم کا تقرر کرتے وقت قائداعظم نے کسی ایک یا دوسرے صوبے کی قیادت میں سے کسی کو منتخب کرنے کے بجائے مسلم لیگ کی مرکزی قیادت میں سے کسی کو منتخب کرنا پسند کیا۔ مسلم لیگ کے سیکریٹری کی حیثیت سے لیاقت علی خان، قائداعظم سے قریب بھی تھے اور دونوں میں اچھی ورکنگ ریلیشن شپ بھی موجود تھی۔ قائداعظم اُن کی تنظیمی صلاحیتوں اور خلوص کے بھی معترف تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خاصا عرصہ ساتھ کام کرنے کے نتیجے میں دونوں میں شخصی سطح پر ایک طرح کی ہم آہنگی اور باہمی مزاج شناسی بھی پیدا ہوگئی تھی، جو اُن کی آپس کی مراسلت سے بھی واضح ہے۔

قیامِ پاکستان کے بعد کے تیرہ ماہ میں، جب کہ قائداعظم حیات تھے، اُس وقت تک ظاہر ہے کہ لیاقت علی خان کا کردار محض ثانوی نوعیت کا تھا۔ یہی نہیں بلکہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 اور قانونِ آزادیٔ ہند نے گورنر جنرل کو جو غیرمعمولی اختیارات دے رکھے تھے، اُن کی موجودگی میں ایک نام زد کردہ وزیراعظم، جس کا انتخاب بھی معروف پارلیمانی طریقے سے نہ ہوا ہو، ویسے بھی بے اختیار ہی ہوسکتا تھا۔ لیاقت علی خان کا سیاسی قد کاٹھ اُس وقت نکلا جب قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کے منصب پر فائز ہوئے۔ ناظم الدین نے گورنر جنرل کے اختیارات کو صرف واجبی طور پر ہی استعمال کیا۔ بیوروکریسی میں کیوںکہ بنگال کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا، جب کہ گورنر جنرل کے اختیارات کا استعمال زیادہ تر بیوروکریسی کے ذریعے ہی ہوتا تھا، اس لیے بھی ناظم الدین زیادہ مؤثر کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے اور یوں لیاقت علی خان کو زیادہ وسیع دائرۂ عمل میسر آگیا۔

لیاقت علی خان کے دور کا جائزہ لیں تو جو نمایاں ترین حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں، اُن میں سرفہرست تقسیم ہند کے بعد کی بحرانی صورتِ حال تھی، جس سے انہیں عہدہ برا ہونا پڑا۔ تقسیم کے وقت کے فسادات، لاکھوں افراد کی نقل آبادی اور ہندوستان کے ساتھ اثاثوں کی تقسیم کے معاملات بہت زیادہ اعصابی قوت اور سیاسی سمجھ بوجھ کا تقاضا کرتے تھے۔ لیاقت علی خان کی حکومت اس بحران سے کسی نہ کسی طور پر نکلنے میں کام یاب ہوگئی۔ اس ضمن میں نہرو سے اُن کی ملاقاتیں اہمیت کی حامل تھیں، جن میں تقسیم کے بعد کے بعض پیچیدہ مسئلوں کو افہام و تفہیم کے ذریعے حل کیا گیا۔

ملک میں انتظامی ڈھانچے کی تعمیر، پاکستان کے بیرونی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام اور ملک میں بنیادی اقتصادی اداروں کا قیام اُن کی حکومت کے چند ایک ایسے کام تھے، جن کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ لیاقت علی خان کو ایک اور بڑا مسئلہ کشمیر کی جنگ کی صورت میں درپیش ہوا۔ اسے انگریزی استعمار کا ناقابلِ فراموش جرم ہی قرار دیا جاسکتا ہے کہ اس نے ہندوستان کی تقسیم کے وقت ایسے بہت سے اُمور کو تشنہ اور نامکمل چھوڑ دیا جو بعد میں بڑے قضیوں کا موضوع بنے۔ انگریزی استعمار جس کو اپنی جہاں بانی اور سیاسی بصیرت پر غیرمعمولی ناز تھا، نہ تو ریاستوں کے بارے میں کوئی قابلِ اطمینان فیصلہ کرسکا اور نہ ہی ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں کے تعین اور دونوں ملکوں میں اثاثوں کی تقسیم کے کام کو خوش اسلوبی اور سلیقے کے ساتھ سرانجام دے سکا۔

تقسیم کے وقت کے فسادات اور ان میں لاکھوں لوگوں کی ہلاکت انگریزی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی ہے، جو نہ تو اِن واقعات کا پیشگی اندازہ کرسکی اور نہ ہی واقعات کے ظہور میں آنے کے بعد ان کی مناسب روک تھام کرسکی۔ لیاقت علی خان کی حکومت کو کشمیر کا بحران استعمار کے ورثے کے طور پر ملا اور اُن کی انتظامیہ کی بیشتر توانائی اس کی نذر ہوگئی۔

لیاقت علی خان کے دور کی ایک اور حقیقت ملک کی سیاسی بے سروسامانی تھی۔ مسلم لیگ باوجود تحریکِ آزادی میں مسلمانوں کی راہ نمائی کرنے کے، ایک سیاسی تنظیم کے طور پر زیادہ مضبوط نہیں بن سکی تھی۔ لیگ میں قائداعظم کا کردار کلیدی حیثیت کا حامل تھا اور اُن کے بعد جو لوگ صف آرا تھے وہ زیادہ تر صوبائی سطح کے لوگ تھے اور اُن میں سے بھی بیشتر گروہوں میں تقسیم تھے۔ اُدھر لیاقت علی خان ماضی میں جس حلقے سے منتخب ہوتے رہے تھے، وہ ہندوستان میں رہ گیا تھا اور پاکستان میں اُن کی سیاسی بنیاد ہمہ گیر نوعیت کی نہیں تھی۔ چناںچہ ایک طرف انہیں بیوروکریسی کے ساتھ ہم آہنگ ہونا پڑا، دوسری طرف مختلف صوبوں میں باہم دست بہ گریباں مسلم لیگی گروپوں میں سے ایک نہ ایک گروپ کی حمایت حاصل کرنی پڑی۔ مثلاً بنگال میں انہوں نے نورالامین کی پشت پناہی کی، سرحد میں خان قیوم خان کی اور پنجاب میں افتخار حسین ممدوٹ کے مقابلے میں ممتاز دولتانہ کی۔ اس طرزِعمل نے اُن کے قومی لیڈر ہونے کے تشخص کو مجروح کیا۔

قیامِ پاکستان کے بعد مسلم لیگ کی اس سوچ نے کہ، کیوںکہ اُس نے ملک بنایا ہے، لہٰذا صرف اُسی کو حکومت کرنے کا اختیار حاصل ہے، آغاز کار ہی میں ہمارے ہاں ایک ایسے رجحان کی داغ بیل ڈال دی جو ملک میں جمہوریت کے قیام اور فروغ کے نقطۂ نظر سے بہت نقصان دہ تھا۔ بدقسمتی سے لیاقت علی خان بھی مسلم لیگ کی اس سوچ سے خود کو جدا اور بلند نہیں رکھ سکے اور حزبِ اختلاف کی طرف خود اُن کا رویہ بھی کوئی مثالی جمہوری رویہ نہیں تھا۔ اس حقیقت سے بھی کون آنکھیں چُرا سکتا ہے کہ بہت سے کالے قوانین کا آغاز اُسی زمانے میں ہوا، جنہوں نے بعد میں ہمارے ہاں شہری آزادی اور بنیادی حقوق کے تصور کو ایک ایسا خواب بناکر رکھ دیا جس کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے قوم آج تک کام یاب نہیں ہوسکی۔

لیاقت علی خان کے دور کا ایک اہم واقعہ راولپنڈی سازش کیس ہے، جس کی تفصیلات بڑی حد تک منظرِعام پر آچکی ہیں۔ اس واقعے کا ایک پہلو جو بالعموم زیربحث نہیں آتا وہ یہ ہے کہ فوج کی اعلیٰ قیادت کو، جس میں ایوب خان سب سے نمایاں تھے، پہلے سے علم تھا کہ فوج کے چند افسران اس قسم کی مہم جوئی پر مائل ہیں۔ ایوب خان اپنی کتاب ’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘ میں لکھ چکے ہیں کہ ان کے پیش رو جنرل گریسی نے فوج کا منصبِ قیادت ان کے سپرد کرتے وقت انہیں بتا دیا تھا کہ فوج میں موجود چند ’ینگ ٹرکس‘ کسی مہم جوئی کے مرتکب ہوسکتے ہیں۔ امریکی خفیہ دستاویزات سے یہ بات بھی منظرعام پر آئی ہے کہ سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا امریکی سفارت خانے کے افسران کو بہت پہلے اس بات کا عندیہ دے چکے تھے کہ فوج میں بعض عناصر لیاقت حکومت کی بعض پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ نہ ہی اسکندر مرزا نے اور نا ہی ایوب خان نے وزیراعظم کو ان حقائق سے آگاہ کیا۔ راولپنڈی سازش کا انکشاف ایک سویلین ادارے یعنی پولیس کے ذریعے ہوا اور جب لیاقت علی خان نے اسکندر مرزا اور ایوب خان کو طلب کرکے اس کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے یہ تاثر دیا کہ جیسے ان کے لیے بھی یہ ایک انکشاف ہے اور یہ کہ وہ تحقیق کرکے کارروائی کریں گے۔ یہ کارروائی بعد میں ہوئی بھی، لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ پنڈی سازش کرنے والے جنرل اکبر خان اور اُن کے ساتھی تو ناکام رہے۔

مگر ایوب خان اور اسکندر مرزا کا کردار یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اپنے آخری دور میں لیاقت علی خان فوج اور افسرشاہی کے سامنے کس قدر بے یارومددگار ہوچکے تھے۔ گویا پاکستان اپنے پہلے وزیراعظم کے دور ہی میں اُس رجحان کا شکار ہوگیا تھا جو آج تک برقرار ہے، یعنی ملک کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے مقابل سیاسی حکومتوں کی بے وقعتی اور غیر مؤثری کا رجحان۔ یہ رجحان کب تک برقرار رہے گا، یہ کہنا بہت مشکل ہے، مگر یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ جب تک ملک میں عوام کے منتخب اداروں کی بالادستی قائم نہیں ہوگی، پاکستان سیاسی استحکام حاصل نہیں کرسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔