نمکین پانی

ارم فاطمہ  پير 3 اگست 2015
کھلے آسمان تلے بے گھر انسانوں کا ہجوم جن کی آنکھیں نمکین پانی سے بھری ہوئیں شکوہ کناں ہیں۔ فوٹو :فائل

کھلے آسمان تلے بے گھر انسانوں کا ہجوم جن کی آنکھیں نمکین پانی سے بھری ہوئیں شکوہ کناں ہیں۔ فوٹو :فائل

آج کوئی نئی بات نہیں تھی۔ یہ تو روز اس کے ساتھ ہوتا تھا۔ پھر آج ایسی کیا بات ہوئی کہ اس کی آنکھوں کا نمکین پانی اس کے بھیگے تکیے کو بھگو رہا تھا۔ تعلیم حاصل کرنا اس کا خواب تھا۔ اس راہ میں مگر کیا یہ ضروری تھا کہ ہر روز اس کے احساس محرومی کو نمایاں کیا جاتا۔ آج پھر وہ کلاس میں سر جھکائے کھڑی تھی۔ وجہ وہی تھی یعنی اس کی یونیفارم پر پانی اور مٹی کے نشانات۔

وہ کسی کو کیسے بتاتی کہ وہ روز رات کو اپنے بستر پر لیٹ کرچھت سے ٹپکنے والی بوندوں کو ایسے شمار کرتی ہے جیسے لوگ چاندنی راتوں میں ستارے گنتے ہیں۔ مکان کی چھت کچی ہونے کے باعث کسی ایک دن بھی ہوئی بارش کا پانی کئی دنوں تک ایسے ٹپکتا رہتا ہے جیسے چھلنی سے پانی ٹپک رہا ہو، واپڈا والوں کی مہربانی سونے پہ سہاگہ کا کام کرتی ہے مطلب نہ بجلی نہ استعمال کا پانی، قصور کس کا؟ سزا کس کے کھاتے میں؟ اس کی دوست ثانیہ نے کہا وہ اس کی امی سے بات کرتی ہے کہ ایک اور یونیفارم خرید لیں تاکہ اس روز کی ذلت سے بچا جا سکے۔ جب وہ رابعہ کے گھر پہنچی تواس کی امی اور چھوٹی بہن گھر کے آنگن میں کھڑے پانی کو بالٹیوں سے نکال رہیں تھیں۔ بکھرا ہوا چھت کا ملبہ ان کی بے چارگی اور کسمپرسی کی داستاں سنا رہا  تھا ۔

 ٹوٹا مرا مکان کھلے مفلسی کے بھید

بارش نے انکشاف سر عام کردیا

برسات کا موسم بھی کسی کے لئے رحمت اور کسی کے لئے زحمت کا سبب بن جاتا ہے۔ جن کے گھروں کی چھت سلامت رہتی ہے وہاں اس کا استقبال خوشیوں اور مسکراہٹوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اور جن گھروں کی چھت لرزنے لگتی ہے، ان کے ہاتھ بے اختیار آسمان کی طرف اٹھ جاتے ہیں۔ اس ملک میں نہ جانے کتنے ایسے خاندان ہیں جو رات کو اس فکر میں سوتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو صبح سر پر سائبان نہ بچے۔ یہ خستہ حالی کچھ تو ان کا مقدر ہے اور کچھ حالات کی ستم ظریفی کہ مہنگائی کے اس دور میں سفید پوش طبقہ خوراک اور رہائش کے اخراجات پورے کرے یا اپنے  بچوں کی آنکھوں میں بسے تعلیم کے خواب کو پورا کرنے کی سعی کریں۔ شاید ان کی قسمت میں یہی ہے کہ وہ اپنے خواب دفن کردیں اس زمیں میں کہ جہاں خوشحال حکمران کی ہر آسائش سے مزین بلند اور مظبوط محلات کھڑے ہیں۔

سوال یہ ہے! آخر کون ان کے کھلے سروں پر مضبوط چھت مہیا کرے گا؟ کون ان کے سائبان کو بچانے میں مددگار ہوگا؟ کتنا آسان ہے ان خوشحال، صاحب ثروت ارباب اختیار کے لئے ائیرکنڈیشنڈ گاڑی میں بیٹھ کر صحافتی نمائندوں کے جلو میں مخصوص علاقوں کا دورہ کرنا، برائے نام امدادی رقوم تقسیم کرنا، آس امید اور کل کے وعدوں کے خواب دکھانا اور یہ بھول جانا کہ یہ امداد مستحق افراد تک پہنچی بھی یا نہیں۔ ان کی ذمہ داری یہیں ختم ہوجاتی ہے۔ آگے وہ جانیں اور ان کا خدا جانے، آج ان کی آنکھیں بند ہیں۔ سیلاب کے بہتے ریلے کے ساتھ کسی غریب کی بیٹی کی شادی کے ارمان بہہ گئے یا ان ماؤں کے جگر گوشے جو رات کو تو ان کے پہلو میں سوئے صبح ان کی آنکھیں انہیں دیکھنے کو ترس گئیں۔ کھلے آسمان تلے بے گھر انسانوں کا ہجوم جن کی آنکھیں نمکین پانی سے بھری ہوئیں شکوہ کناں ہیں گویا کہہ رہی ہوں۔

’’ایک پل کے لئے یہ ضرور سوچنا کہ جس مالک حقیقی نے تمہیں صاحبِ اقتدار بنایا کل تمہیں بھی اس کے آگے جوابدہ ہونا ہے‘‘۔

آپ کے خیال میں اِن تمام تر مسائل کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔