سیلاب کی تباہ کاریاں

ایڈیٹوریل  منگل 9 ستمبر 2014
یہ سیلاب اس قدر زیادہ شدید اور تباہ کن ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کی ضرورت ہے. فوٹو: آن لائن

یہ سیلاب اس قدر زیادہ شدید اور تباہ کن ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کی ضرورت ہے. فوٹو: آن لائن

ملک بھر میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریاں مسلسل جاری ہیں اور مزید سیکڑوں بستیاں اور دیہات بہہ گئے ہیں‘ پنجاب اور آزاد کشمیر میں سیلاب میں بہنے، بارشیں اور چھتیں گرنے سے 60 سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ سیلاب کا پانی کئی شہروں میں داخل ہونے سے سارا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ سیکڑوں دیہات زیر آب آنے سے ہزاروں ایکڑ فصل تباہ ہو گئی ہے، دیہات کے درمیان باہمی رابطے منقطع ہو گئے اور بجلی کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔

متعدد مقامات پر سڑکیں اور پل ٹوٹ گئے ہیں جس کے باعث لوگوں کو محفوظ مقامات تک منتقل ہونے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فوج مشکل کی اس گھڑی میں بڑے پیمانے پر سیلاب زدگان کی مدد کر رہی ہے اس کے علاوہ حکومتی امدادی ٹیمیں اور مقامی انتظامیہ بھی لوگوں کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکال رہی ہے۔موسلا دھار بارشوں اور سیلاب سے گھروں کی چھتیں اور دیواریں گرنے سے سیکڑوں گھر اجڑ گئے ہیں ، لوگوں کے گھر کا سامان‘ اناج اور زندگی بھر کی جمع پونجی سیلاب کی نذر ہو گئی ہے اور لوگ شکوہ کر رہے ہیں اس مشکل وقت میں ان کی مدد نہیں کی جا رہی اور وہ کھلے آسمان تلے فاقے کاٹنے پر مجبور ہیں۔

یہ سیلاب اس قدر زیادہ شدید اور تباہ کن ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر امدادی سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ حکومت تن تنہا اتنے بڑے پیمانے پر شہریوں کی فوری طور پر مدد نہیں کر سکتی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی اور فلاحی تنظیمیں میدان میں آئیں اور لوگوں کی مدد کریں۔ جب تک بڑے پیمانے پر عوامی رضاکار اس مہم میں شامل نہیں ہوں گے سیلاب زدگان کے مسئلے سے نمٹنا ایک مشکل امر ہے۔

وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے اتوار کو سیالکوٹ میں بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقے کے دورہ کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ بارشوں نے گزشتہ بیس سال کا ریکارڈ توڑ دیا ہے۔ دھرنا دینے والے سیاستدان سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لیے آگے آئیں اور ان کی بحالی میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کریں۔

موجودہ مشکل صورتحال سے نکلنے کے لیے تمام سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے مکمل تعاون کی ضرورت ہے،یہی وہ وقت ہے جب تمام سیاسی جماعتیں متحرک ہوں اور سیلاب زدگان کی مدد کر کے انھیں زندگی کی خوشیاں واپس لوٹائیں۔ سیلاب نے جو تباہی مچاہی ہے اس کا شمار تو فی الحال ممکن نہیں ،صورتحال یہ ہے کہ اس وقت سڑکیں تباہ ہونے کے باعث نارووال کا دوسرے شہروں سے رابطہ بحال نہیں ہو سکا، حافظ آباد میں سیلابی ریلے نے 22سالہ ریکارڈ توڑ دیا اور 200 سے زائد دیہات میں تباہی مچا دی۔

اس علاقے میں مزید 226 دیہات خالی کرنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔ جلال پور بھٹیاں شہر کا حفاظتی بند ٹوٹنے سے پانی شہر میں داخل ہو گیا‘ سیالکوٹ اور نارووال میں 50 سے زائد دیہات ڈوب چکے ہیں‘ نالہ ایک اور ڈیک میں طغیانی کے باعث ڈسکہ میں درجنوں دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔ سیلاب مزید کتنے دن تک تباہی مچاتا ہے ابھی اس کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا مشکل امر ہے لیکن یہ واضح ہے کہ سیلاب کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں نے زرعی شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے اس سے زرعی ان پٹ کی قلت کا خدشہ ہے جس سے ملک میں صنعتی و کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔

ذرایع کے مطابق سیلاب سے پیدا شدہ صورت حال کو کنٹرول کرنے کے بعد سیلاب کی تباہ کاریوں کے نقصانات کا تخمینہ لگایا جائے گا اور اس کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائے گا کہ رواں مالی سال کے لیے مقررہ معاشی اہداف پر نظرثانی کرنا ہے یا نہیں۔ وزارت خزانہ کے ذرایع کا کہنا ہے کہ ملکی مجموعی پیداوار، مالیاتی خسارہ اورٹیکس ریونیو سمیت دیگرمعاشی اہداف میںکمی کرنا پڑے گی کیونکہ سیلاب سے قبل تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مارچ اور دھرنوںسے پیدا صورتحال کے باعث ملکی معیشت کو ایک ہزار ارب روپے کے لگ بھگ نقصان پہنچ چکا ہے اور اب سیلاب سے مزید نقصان پہنچا ہے۔

سیلاب سے آزاد اور مقبوضہ کشمیر کا علاقہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں سیلاب سے انسانی جانوں کے ضیاع پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ہر ممکن مدد کی پیش کش کی۔ ترجمان دفتر خارجہ نے اس صورت حال میں پاکستانی حکومت کا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ ہم مقبوضہ کشمیر کے عوام کے درد کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے وزیراعظم نواز شریف کو خط لکھا ہے اور متاثرین سیلاب کی امداد کی پیشکش کی ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان نے نریندر مودی کی جانب سے امداد کی پیشکش پر یہ کہہ کر موقف دینے سے انکار کر دیا کہ مذکورہ پیشکش کا جائزہ لینے کے بعد میڈیا کو اس بارے میں اپنے موقف سے آگاہ کیا جائے گا۔

ملک میں سیلاب پہلی بار نہیں آیا یہ ہر سال آتا ہے گزشتہ چند برسوں سے آنے والا سیلاب بہت زیادہ تباہی مچا رہا ہے لیکن حکومتی اداروں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ابھی تک کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ جب سیلاب آتا ہے تو فوری طور پر لوگوں کی مدد کر کے انھیں ریلیف تو دیا جاتا ہے مگر جب سیلاب ختم ہوتا ہے تو حکومت اس مسئلے کو نظر انداز کر دیتی اور اس کے مستقل حل کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ ایڈہاک ازن کی ان پالیسیوں کے باعث پوری قوم کو ہر سال سیلاب سے پیدا ہونے والی تباہ کاریوں کا بڑے پیمانے پر سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مبصرین کے مطابق پہاڑی علاقوں میں درختوں کی وسیع پیمانے پر ہونے والی کٹائی کے باعث بھی سیلاب کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ چین اور بھارت نے سیلاب سے نمٹنے کے لیے سیکڑوں ڈیم‘ بیراج اور پانی کے ذخائر تعمیر کیے ہیں جس سے ان ممالک میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریاں پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئی سالوں سے سیلاب کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر ڈیم‘ بیراج اور آبی ذخائر کی تعمیر کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی جس کے باعث سیلاب کا یہ پانی جو رحمت بن سکتا ہے زحمت بن کر ضایع ہو جاتا ہے۔ دوسری جانب شہروں میں بھی سیوریج، ڈرین سسٹم اور برساتی نالوں کی صفائی اور مرمت کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ شہروں کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ماسٹر پلان بنانے کی ضرورت ہے اگر سیوریج اور ڈرین سسٹم ہی جدید خطوط پرتشکیل دیا جائے تو صورت حال وہ نہ ہو جو اس وقت نظر آ رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔