سقوطِ قندوز: افغانستان و امریکا کی یکساں شکست؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 2 اکتوبر 2015
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

28 ستمبر 2015ء کو جب نیویارک میں دنیا کے تقریباً سبھی سربراہانِ مملکت اور حکمران اکٹھے تھے، افغان طالبان نے افغان صوبہ ’’قندوز‘‘ کے دارالحکومت پر قبضہ کر کے ساری دنیا کو ششدر کر دیا۔ اس وقت جب یہ کہا جا رہا تھا کہ افغان طالبان عدم مرکزیت اور متفقہ قیادت کے بحران کا شکار ہیں، ان ہی  افغان طالبان کے ہاتھوں سقوطِ قندوز نے سب کو دنگ کر دیا ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم سقوطِ قندوز، اس کی وجوہ اور اثرات کا جائزہ لیں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے صوبہ ’’قندوز‘‘ کے بارے میں ابتدائی باتیں کر لیں:

پشتون اسے ’’کندز‘‘ کہتے ہیں۔ فارسی داں اور فارسی خواں مگر اسے ’’قندوز‘‘ لکھتے اور بولتے ہیں۔ زیادہ مستعمل ’’قندوز‘‘ ہی ہے۔ یہ افغانستان کے 34 صوبوں میں سے ایک ہے۔ کابل کے شمال میں واقع ہے اور یہ کابل سے اتنا ہی دور ہے جتنا پشاور سے کابل۔ اس کی ایک سرحد تو تاجکستان سے ملتی ہے لیکن یہ تین اطراف سے افغانستان کے تین صوبوں (تالقان، بغلان اور خُلم) میں گھِرا ہے۔ آبادی دس لاکھ سے زائد نہیں۔ زیادہ تعداد پشتونوں کی ہے۔ اس کے بعد تاجک آتے ہیں۔

ہزارہ بھی ہیں اور ترکمان بھی اور ان کی زبانیں بھی۔ سات روکھے سُوکھے اضلاع (امام صاحب، قلع ذل، قندوز، چہار درہ، آرچی، خان آباد، علی آباد) پر مشتمل صوبہ ’’قندوز‘‘ اگرچہ ابھی مکمل طور پر افغان طالبان کے کنٹرول میں نہیں آیا لیکن خوفزدہ قندوزیوں کا خیال ہے کہ کابل میں بیٹھے افغان حکمرانوں کے وعدوں اور اعلانات کے برعکس، قابض طالبان کو یہاں سے باہر نکالنا اور اسے دوبارہ اپنی گرفت میں لینا بہت مشکل اور خونریز مہم ثابت ہو گی۔

اہلِ قندوز کو اس امر کا بھی افسوس ہے کہ جونہی افغان طالبان نے قندوز شہر کی جیل پر قبضہ کیا، قندوز کے گورنر محمد عمر صافی یہاں سے فرار ہونے والوں میں سرِ فہرست تھے۔ اگر صوبائی گورنر ہی اپنے پاؤں پر کھڑانہ رہ سکا تو قندوز میں تعینات دیگر سرکاری فورسز (مثلاً: افغان نیشنل آرمی، افغان نیشنل پولیس اور افغان بارڈر پولیس) بھلا طالبان کے سامنے کیسے اور کیونکر ثابت قدم رہ سکتی تھیں؟ افغان طالبان اس سے قبل قندوز کے ایک سابق گورنر کو بھی خود کش حملے میں ہلاک کر چکے ہیں۔ اس مقتول گورنر کا نام بھی محمد عمر تھا۔ قندوز کی شکست افغان صدر جناب اشرف غنی اور افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے لیے ندامت اور پریشانی کا سبب یہ بھی ہے کہ اس افغان صوبے کو افغانستان کے بقیہ شمالی صوبہ جات کے لیے گیٹ وے کی حیثیت حاصل ہے۔

ایک طویل عرصے بعد متحارب افغان طالبان کو افغانستان میں ایک بڑی کامیابی ملی ہے: افغان صوبہ ’’قندوز‘‘ کے مرکز پر قبضہ اور وہاں کی سب سے بڑی جیل میں مقید اپنے پانچ سو ساتھیوں کو رہا کروانا۔ یہ معمولی اقدام نہیں ہے۔ افغان طالبان کی اس کامیابی سے کابل کی حکومت ہی کو زبردست دھچکا نہیں پہنچا بلکہ یہ امریکی انتظامیہ کی بھی شکست ہے کہ وہ افغانستان کو پندرہ سال تک پامال کرنے کے باوجود اس قابل نہ تھی کہ طالبان کا مکمل خاتمہ کر سکے۔

یہ واقعہ سانحہ بن کر افغانستان نیشنل آرمی، جس سے دنیا نے بڑی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں، کے لیے بھی شدید شرمندگی کا باعث بنا ہے۔ 28ستمبر 2015ء کو وقوع پذیر ہونے والا یہ واقعہ ساری دنیا میں ایک دھماکے سے سنا گیا۔ اس روز افغانستان کے صدر جناب اشرف غنی اور افغان اقتدار کے دوسرے ساجھے دار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نیویارک میں تھے۔

اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک سے باہر دونوں مقتدر ترین افغان شخصیات کی پریشانی کا کیا عالم ہو گا! اسی پریشانی کے عالم میں غالباً جناب اشرف غنی نے غصے میں امریکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: ’’پاکستان سے برادرانہ تعلقات ہر گز نہیں۔ یہ بس دو ممالک کے تعلقات ہیں۔‘‘ قندوز میں افغان حکومت کی شکست اور پسپائی نے اخوت و برادری کے جذبات بھی سلب کر لیے؟ حیرت ہے! افغان صدر پر واضح رہنا چاہیے کہ قندوز میں افغان طالبان، جن کے سربراہ اب مبینہ طور پر ملا اختر منصور ہیں، کی جارحیت و فتح میں پاکستان کا کوئی کردار ہے نہ افغان طالبان کو پاکستان کی اعانت حاصل ہے۔

پاکستان کو بہرحال ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے کہ افغانستان میں بروئے کار بھارتی کارندے اور ’’را‘‘ کے ایجنٹ قندوز کی شکست کا ملبہ پاکستان پر گرانے کی کوشش کریں گے۔ ان کارندوں کی طرف سے جناب اشرف غنی کا ذہن مسموم کرنے اور پاکستان کے خلاف ان کے کان بھرنے کی بھی مقدور بھر کوششیں کی جائیں گی۔

ابھی پاکستان کے خلاف بھارتی لہجے میں افغان صدر کے الزامات کی بازگشت تھمی بھی نہ تھی کہ اقوامِ متحدہ کی تقریبات کے سلسلے میں نیویارک ہی میں بیٹھے افغان چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے ارشاد فرمایا: ’’چین سے ہماری گزارش ہے کہ وہ پاکستان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے اور دباؤ ڈالے کہ پاکستان ایمانداری اور دیانتداری سے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے راہیں ہموار کرے۔‘‘

افغان صدر اور افغان چیف ایگزیکٹو کے پاکستان کے خلاف یہ دل آزار بیانات اس وقت سامنے آئے جب پاکستانی وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف بھی نیویارک ہی میں موجود تھے لیکن ان دونوں مقتدر افغان حضرات نے نواز شریف سے براہ راست ملاقاتیں کر کے ان کے سامنے اپنے شکوے شکایات رکھنے سے دانستہ گریز کیا۔ اس کی ایک وجہ غالباً قندوز پر افغان طالبان کی فتح کا پرچم لہرانا بھی ہو سکتی ہے کہ اس واقعہ نے ان دونوں افغان لیڈروں کے اعصاب اور دماغ شَل کر دیے ہوں گے۔ پاکستان کے خلاف غصہ نکالنا مگر حکمت ہے نہ دانشمندی۔ پاکستان کے وزیر اعظم محمد نواز شریف، جنرل راحیل شریف اور مشیرِ امورِ خارجہ سرتاج عزیز بار بار افغان حکومت کو اپنا دستِ تعاون پیش کرنے کے عملی مظاہرے کر چکے ہیں۔

اس کے باوجود افغان قیادت، بھارتی مشیروں کے کندھوں پر سوار ہو کر، پاکستان کے دستِ تعاون کو بار بار جھٹک رہی ہے۔ پاکستان تو افغان طالبان کی نئی قیادت کی موجودگی میں بھی افغانستان سے صلح کرانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ مری میں ہونے والے مذاکرات اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ اس کے باوجود، بقول ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ، پاکستانی کوششوں کو ’’ایماندارانہ اور دیانتدارانہ‘‘ نہ کہنا افسوس اور پرلے درجے کی بداعتمادی کا اظہار ہے۔

تازہ سوال یہ ہے کہ افغان طالبان کے ہاتھوں معرضِ عمل میں آنے والا سقوطِ قندوز اب کیا رُخ اختیار کرے گا؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ سقوطِ قندوز بیک وقت افغانستان اور امریکا کے حکمرانوں کی شکست ہے۔ یہ دراصل ڈیڑھ عشرہ تک افغانستان میں قابض امریکی فوجوں کی ایک اور ناکامی کا بھی منہ بولتا ثبوت سامنے آیا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے یہ قیافے اندازے بھی درست ثابت ہوئے ہیں کہ جونہی افغانستان سے امریکی فوجیں اپنا بوریا بستر سمیٹیں گی، افغان طالبان پھر ابھر کر سامنے آئیں گے اور ان کی جارحیت میں اضافہ ہو جائے گا۔ سقوطِ قندوز نے ان قیافوں پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ افغان طالبان کے سابق امیر ملا محمد عمر کے مبینہ انتقال کے بعد نئے (مگر کسی قدر متنازعہ) طالبان امیر ملا اختر منصور کی یہ پہلی نمایاں کامیابی ہے جسے دنیا بھر میں دیکھا اور سنا گیا ہے؛ چنانچہ ملا اختر منصور یقینا کوشش کریں گے کہ اس کامیابی کو اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ کیش کروائیں، طالبان پر اپنی گرفت مضبوط کریں اور یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کریں کہ وہی فی الحقیقت ملا محمد عمر کے جائز، بجا اور نہایت اہل جانشین ہیں۔ وہ عالمی قوتیں (جن میں پاکستان، چین اور امریکا نمایاں ہیں) جو افغانستان میں قیامِ امن کے لیے افغان طالبان اور افغان حکمرانوں کے لیے کوئی قابلِ قبول حل سامنے لانا چاہتی ہیں۔

اندازہ یہ ہے کہ سقوطِ قندوز کے بعد اب ملا اختر منصور کی شرائط اور لہجہ سخت ہو سکتا ہے کہ قندوز کی شکست نے افغان حکومت کی ایک بڑی کمزوری کو بہت بری طرح عیاں کر دیا ہے۔ اگرچہ یہ امکانات بھی موجود ہیں کہ افغان نیشنل آرمی امریکیوں کے تعاون سے اگلے چند روز میں قندوز کو طالبان کے قبضے سے چھڑا لیں مگر افغانستان کی مرکزی حکومت کو ایک زبردست دھچکا تو پہنچ چکا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔