- پانچواں ٹی 20: پاکستان نے نیوزی لینڈ کو شکست دیکر سیریز برابر کردی
- یوراج سنگھ نے ٹی 20 ورلڈ کپ کی سیمی فائنلسٹ ٹیموں کی پیش گوئی کردی
- سیکیورٹی فورسز کی ہرنائی میں بروقت کارروائی، ایک دہشت گرد ہلاک
- بھارت؛ منی پور میں مبینہ علیحدگی پسندوں کے حملے میں دو سیکیورٹی اہلکار ہلاک
- پی ٹی آئی میں اختلافات، شبلی فراز اور شیر افضل مروت آمنے سامنے آگئے
- بابر اعظم نے ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ میں ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا
- بابر اعظم نے ٹی 20 انٹرنیشنل کرکٹ میں ایک اور اعزاز اپنے نام کرلیا
- داؤد انجینیئرنگ یونیورسٹی کی فیکلٹی انفارمیشن اینڈ کمپیوٹنگ کی گلبرگ ٹاؤن منتقلی کیلئے معاہدہ
- ججز کو کسی کا اثر رسوخ لینے کے بجائے قانون پر چلنا چاہئے، جسٹس اطہر من اللہ
- امیر خسروؒ کا عرس: بھارت میں پاکستانی زائرین کے ساتھ ناروا سلوک
- جنگ بندی کی تجویز پر اسرائیل کا جواب موصول ہوگیا ہے، حماس
- فواد چودھری کی پی ٹی آئی میں واپسی کا امکان
- اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات، پی ٹی آئی فوج کو دوبارہ سیاست میں دھکیل رہی ہے، حکومتی اتحاد
- سیشن جج وزیرستان کو مسلح افراد نے اغوا کر کے گاڑی نذر آتش کردی
- سبزیجاتی اشیاء پر انتباہ کو واضح درج کرنے پر زور
- روزانہ ہزاروں ڈالرز کا سونا اگلنے والا آتش فشاں پہاڑ
- واٹس ایپ کا آئی فون صارفین کے لیے نیا فیچر
- غزہ میں اسرائیلی بمباری سے فلسطینی شاعر کی بیٹی پورے خاندان سمیت شہید
- عمران خان نے پارٹی قیادت کو اسٹیبلمشنٹ اور سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت دیدی
- سپریم کورٹ کا ملک بھر سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم
’’وومن آن ویلز‘‘ برداشت کیجئے!
تمام رجعت پسند معاشروں میں مرد کا سب سے بڑا مسئلہ عورت کا وجود رہا ہے۔ ایسے معاشروں میں مرد کی تمام تر توانائیاں عورت ذات کو محبوس و محکوم بنا کر رکھنے میں استعمال ہوتی ہیں۔ مرد کی حکمرانی عورت کی محکومیت سے مشروط ہے۔ اگر عورت اس مقام پر موجود نہیں رہتی تو معاشرتی سطح پر مرد حاکم بھی نہیں رہ سکتا۔ ایسے معاشروں میں عورت کا معاشرتی و ذہنی سطح پر آزاد ہونے کا تصور بھی مرد کی حسِ حاکمیت پر لرزہ طاری کر دینے کے لئے کافی ہے۔
ایسے ٹھیکیدار مرد حضرات آئے دن مذہب، معاشرت، معیشت اور روایات کی آڑ میں خواتین کا ہر سطح پر استحصال کرتے نظر آتے ہیں۔ یہ وہ خوامخواہ کے مرد حضرات ہیں جو خواتین کے ہنسنے، مسکرانے، کھانے، پینے، اٹھنے بیٹھنے کے انداز تک پر معترض ہوتے ہیں اور قابل اتنے کہ یہی کام درست طریقے سے سر انجام دینے کے طریقے عورتوں کو عملاً سمجھاتے بھی ہیں۔
https://twitter.com/AfshanMasab/status/686269836167659521
پاکستان کی مثال دیکھ لیجئے! پاکستانی معاشرہ اکثریتی و روایتی طور پر ایک رجعت پسند معاشرہ کہلایا جاسکتا ہے۔ لیکن آبادی میں نوجوانوں کی کثیر تعداد و تناسب، تعلیم اور تیزی سے ترقی کرتی دنیا کے اثرات کے باعث بڑی تبدیلی کی جانب بھی گامزن ہے۔ شہروں کی حد تک پاکستان کی خواتین آج پہلے سے کہیں زیادہ اپنے حقوق سے متعلق آگاہی رکھتی ہیں۔ زندگی کی دوڑ سے اپنا حصہ حاصل کرنا چاہتی ہیں، آزادی چاہتی ہیں، خود مختار ہونا چاہتی ہیں، پُر اعتماد ہیں، گھروں سے نکلتی ہیں، کام کرتی ہیں، اپنے اور اپنے خاندان کے لئے وسائل پیدا کرتی ہیں۔
اس ملک کے مرد حضرات کا فرض ہے کہ خواتین کے لئے ایسا سازگار ماحول پیدا کرنے میں ہر قسم کا تعاون کرنے پر تیار رہیں جہاں خواتین کو تحفظ کا احساس دلایا جا سکے۔ تازہ مثال پنجاب حکومت کا خواتین کے لئے اعلان کردہ پروگرام ’’وومن آن ویلز‘‘ ہے۔ جس کے تحت خواتین کو پنجاب حکومت کی جانب سے نہ صرف موٹر سائیکل چلانے کی باقاعدہ تربیت فراہم کی گئی ہے بلکہ ابتدائی طور پر کام کرنے والی خواتین کو مستقبل قریب میں ایک ہزار گلابی رنگ کے اسکوٹرز 50 فیصد رعایتی قیمت پر فراہم بھی کیے جائیں گے۔ یہ پروگرام حکومت پنجاب کی جانب سے خواتین کی خودمختاری، آزادی اور اعتماد میں اضافے کے مقصد سے اٹھایا گیا انتہائی احسن قدم ہے۔
Just WOW. #Womenonwheels: Reclaiming space, women in Lahore hold motorcycle rally.150 women trained by Lahore police pic.twitter.com/z55yIVb2jA
— Naila Inayat (@nailainayat) January 10, 2016
اب وہ رجعت پسند طبقہ جو اس پروگرام کے باعث کڑھ رہا ہے اور پاک وطن کے شہر لاہور کی سڑکوں پر فحاشی پھیلنے کے مینیا میں مبتلا ہو رہا ہے، اُس سے درخواست ہے کہ آپ کی پاکباز نظروں اور حسنِ سلوک سے تو چار چار سال کی بچیاں کیا بچے بھی محفوظ نہیں، تو خدارا! اس بارے میں زیادہ پریشان نہ ہوں۔ خواتین جو موٹر سائیکل چلانا جانتی ہیں وہ اپنا تحفظ کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ خواتین چار پہیوں کی سواری پہلے ہی چلا رہی ہیں تو دو پہیوں پر اتنا مضطرب کیوں ہوتے ہیں؟ بہرحال یہ ایک نفسیاتی و دماغی مسئلہ ہے۔ چند دنوں میں خواتین کو موٹر سائیکلیں چلاتے دیکھنے کی عادت ہوجائے گی تو فحاشی کا عنصر خود بخود ذہن سے غائب ہوجائے گا، اور افاقہ نصیب ہوگا بس چند دن برداشت کی زحمت کیجئے۔
Riding a motorcycle is such a taboo for women. Would be so refreshing & groundbreaking to see women driving bikes as a norm. #WomenonWheels
— Majaz (@LifeofSigh) January 8, 2016
ملالہ یوسف زئی، شرمین عبید چنائے، عائشہ فاروق، ارفع کریم، نازیہ حسن، مہک گل، ماریہ وزیر، لاریب عطا محض چند نام ہیں۔ ایک طویل فہرست سے محض چند نام جنہوں نے ناموافق، بدترین اور ناسازگار ماحول کے باوجود پاکستان کا نام دنیا میں یوں سربلند کیا ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔ کیا خیال ہے اگر پاکستان کی اس 52 فیصد صلاحیت کو برابر کے مواقع، آزادی اور اعتماد بخش دیا جائے تو یہ پاکستانی خواتین کیا کیا کارنامے سرانجام نہیں دے سکتیں۔ پاکستانی رجعت پسند مرد کو ان سے خوف کھانے کی ضرورت نہیں، نہ ہی کسی بہانے سے اس صنف کو محکوم رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ سرزمینِ پاکستان اور اس کے وسائل پر خواتین کا اتنا ہی حق ہے جتنا کسی پاکستانی مرد کا۔
خواتین کو اپنی تعلیم اور صلاحیت کے بل بوتے پر ہر وہ کام کرنے کا پورا پورا حق ہے جس کی انہیں خواہش و جستجو ہو۔ ضرورت ہے تو صرف سازگار ماحول کی، قانون سازی کی اور خواتین کو بطور مساوی انسان قبولیت بخشنے کی۔
خواتین کوئی گولی ٹافی نہیں بلکہ مکمل اور باصلاحیت انسان ہیں۔ جو خواتین اپنے آپ کو گولی ٹافی سمجھتی ہیں اپنے آپ سے خود زیادتی کی مرتکب ہو رہی ہیں۔ یہ کائنات بہت وسیع ہے، یہ دنیا بہت چھوٹی، انسان کا جسم بہت چھوٹا ہے لیکن دماغ بہت وسیع۔
اپنا حق مانگیے، لیکن پہلے اپنا حق تسلیم کیجئے۔ گاڑی کیا، موٹر سائیکل کیا آپ جہاز بھی اڑائیں اور راکٹ بھی، وومن آن ویلز صرف موٹر سائیکل چلانے کی بات نہیں یہ استعارہ ہے، خواتین کی آزادی اور خودمختاری کا۔ اس پروگرام کو یقیناً پاکستان کے ہر صوبے اور شہر ہر گاؤں تک پھیلانا چاہیئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔