انسداد سہولت کاری

قمر عباس نقوی  منگل 1 مارچ 2016

یہ واقعہ ہے چار عشرہ قبل کا۔ جب محلہ اور آس پڑوس کی عورتوں میں باہمی اتفاق و یگانگت اور میل میلاپ کا رجحان تھا۔ ہمیں یاد ہے اس زمانہ میں محلہ کے بچے نے کسی بھی قسم کا شرارتی عمل کیا تو فوراً محلہ کی عورتیں ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیا کرتی تھیں اور ایک آدھ تھپڑ بھی رسید کردیا کرتی تھیں، مگر مجال ہے اس کے اس عمل کا متذکرہ بچے کی ماں برا مناتی، بلکہ مائیں عورتوں کے اس عمل کو Appreciate کیا کرتی تھیں۔ بچپن کا زمانہ تھا، ہم لاہور کے اسکول میں پرائمری لیول کے طالب علم تھے کہ ہماری کلاس ہی کے ساتھی سے جنگ چھڑگئی۔

اسکول سے گھر کی طرف واپسی پر متاثرہ بچے کی ماں نے جب بچے کے کپڑے پھٹے ہوئے دیکھے تو فوراً غصے میں ہماری والدہ کے پاس شکایت لے کر پہنچ گئیں۔ ہماری والدہ نے یک دم شکایت کنندہ خاتون سے برملا کہا کہ بہن تم نے اس کو سزا کیوں نہ دی۔ ان خاتون کے سامنے ہماری والدہ نے ہماری خوب پٹائی کی کہ شکایت کنندہ خاتون ہی نے ہماری جان خلاصی کرائی اور ہم پر شفقت کا ہاتھ پھیرتے ہوئے ہمیں منالیا۔ یہ تھی ماؤں کی اولاد کے حوالے سے لازوال تربیت۔ اب آپ اولاد کی تربیت کا دوسرا پہلو بھی ملاحظہ کیجیے۔ ایک زمانہ تھا چھوٹے موٹے چوروں کا جو رات کی تاریکی میں گھروں اور دکانوں میں نقب زنی کرتے اور مال غنیمت لوٹ کر لے جاتے۔ جب پولیس یا محلے کے لوگوں کے ہاتھوں پکڑے جاتے تو خوب ان کی درگت بنائی جاتی تھی۔

اسی طرح ایک مجرم کو عدالت کی طرف سے پھانسی کا حکم ہوا۔ پھانسی کے وقت جیل انتظامیہ نے حسب معمول مجرم سے پوچھا، بتاؤ تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ مجھے میری ماں سے ملوایا جائے، لہٰذا اس کی خواہش کی تکمیل کرتے ہوئے اس کی ماں کو پیش کیا گیا۔ جونہی وہ اس کے قریب پہنچی اس نے اپنی ماں کے رخسار پر پیار کرنے کے بجائے زور سے کاٹ لیا اور کہا کہ ماں آج یہاں تک نوبت تمہاری ہی تربیت کا نتیجہ ہے، اگر تو پہلی ہی چوری پر مجھے سزا دے دیتی تو آج مجھے اتنی تکلیف دہ سزا نہیں کاٹنا پڑتی اور میں معاشرے کا اچھا انسان ہوتا۔

درحقیقت عدم تربیت کی ایسی مثالیں ہمارے سماج میں سیکڑوں کی تعداد میں بھری پڑی ہیں اور قابل رنج و الم امر یہ ہے کہ ان کی اصلاح کے لیے نجی اور سرکاری سطح پر کاوشیں معدوم ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات میں چور ترقی کرکے ڈکیت، دہشت گرد، ٹارگٹ کلر، تخریب کار جیسی سماجی برائیوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ ان تمام سماجی برائیوں کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر بنیادی وجہ ملک میں ہونے والی بیروزگاری، مالی تنگدستیاں، بنیادی حقوق سے محرومی، ظالم اور ہوس زر میں مبتلا حکمران بھی ان برائیوں کی پیداوار کا حصہ ہیں۔ اس ضمن میں والدین کی طرف سے دی جانے والی اچھی اور معیاری تربیت کا شدید فقدان بتایا جاتا ہے۔

آج کل برقی اور پرنٹ میڈیا پر دہشت گردی کے حوالے سے نئی اصطلاح ’’سہولت کاری‘‘ کا خوب چرچا ہے اور اس امر میں مزے کی بات یہ ہے کہ یہ لفظ زبان زد عام وخاص ہے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ دہشت گردی کے پس منظر میں سہولت کاروں کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔ بلاشبہ کامیاب دہشت گردی معیاری اور منفرد سہولت کاری پر منحصر ہے۔ ہم بھی کتنے سیدھے ہیں، اب تک خرکاری، کاشتکاری، سفارت کاری، ریاکاری، پیشکاری جیسے اردو کے معروف الفاظ سے واقفیت تک محدود تھے۔ ہماری تشویش میں اس وقت اضافہ ہوا جب اس کا حلقہ اختیارات وسعت اختیار کرتا ہوا دکھائی دیا اور ہم نے لغت کا سہارا لیتے ہوئے تحقیق کا آغاز کیا۔

دراصل سہولت کار اور مددگار دونوں اردو میں بولے جانے والے دو متوازی اہمیت رکھنے والے الفاظ ہیں۔ برے وقت میں کسی کی مدد کرنا چیریٹی (Charity) یا فلاح وبہبود کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ سہولتیں فراہم کرنا کمرشل خدمات کا ایک اہم زاویہ ہے، یعنی کارپوریٹ سروسز کی ہی ایک قسم ہے۔ ویسے بھی دور جدید کارپوریٹ کے بجائے فرنچائز کا ہے، جس میں فرنچائز اپنے صارفین کو دی جانے والی سہولتوں (Facilities) کے پیکیجز کا میڈیا پر بھی اعلانات کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حکومت اور اس کے کارندے بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک کی بیگار معیشت کو بھی فرنچائز بنادیا جائے۔

فرنچائز کو دوسرے معنوں میں ٹھیکے داری کا ہی نام دیا جاتا ہے۔ دراصل فرنچائز parent organization کی goodwill استعمال کرتے ہوئے کاروبار کرتی ہیں۔ بہرحال سہولت کار عصر حاضر کی نئی ایجاد و دریافت کا نام ہے۔ منفی سماجی ومعاشرتی سرگرمیوں کے حوالے سے فرنٹ پر کام کرنے والے افراد کو مالی امداد کی مسلسل فراہمی، آتشیں اسلحہ و گولہ بارود کی فراہمی، مخبری کی سہولتوںکی فراہمی، سہولت کاری کے وسیع نیٹ ورک کے بغیر ناممکن ہے۔ یہاں میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ دہشت (Terror) منفی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے والا اردو کا وہ لفظ ہے جو اپنے اندر بڑی جامعیت کا حامل ہے اور سوسائٹی میں خوف کی علامت بھی۔

سماجی ناانصافیاں، قانون و انصاف کا عدم نفاذ، جاگیرداری کا ظالمانہ نظام ہی سہولت کاری اور دہشت گردی کی جڑ ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کے ساتھ انسداد سہولت کاری کی عدالتیں قائم کردی جائیں۔ مظلوم اور غریب طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محرومی پر انتقام پر آمادہ ہوجاتا ہے، یہی انتقامی آگ اسے دہشت گردی کی طرف راغب کرتی ہے۔ حال ہی میں رینجرز کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں دہشت گردوں کا ایک بڑا نیٹ ورک منظرعام پر آیا ہے، جس سے یہ حقائق سامنے آئے ہیں کہ اس وسیع نیٹ ورک کے پس منظر میں ایک مضبوط اور منظم گروہ سہولت کاروں (Facilitator) کا ہے۔

ہمارا اندازہ ہے کہ سہولت کاروں کی شکل میں سرد طبقاتی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی عسکری فورس ہے اور سہولت کار سول فورس ہے۔ دونوں فورسز متحد ہو کر خفیہ محاذ جنگ پر ہیں۔ ادھر ملک کی مٹھی بھر طاقت ور اشرافیہ (سہولت کار) ڈاکو، لٹیروں کو ملک کا سرمایہ ملک سے باہر بھیجنے میں سہولتیں فراہم کررہے ہیں۔ حکو مت کی جانب سے پرائیویٹائزیشن، ورلڈ بینک، آئی ایم ایف کے قرضوں کا منفی اور من گھڑت پروپیگنڈہ کرکے ملک کی دولت لوٹی جارہی ہے۔ یہ تمام گھناؤنے امور سہولت کاری ہی کے ذریعے عمل میں لائے جارہے ہیں۔

کاش! ہماری حکومتوں کے ذمے داران ملک کے عام آدمی کو بنیادی اور ضروری سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنائیں، جو ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل میں ممد و معاون ثابت ہوسکے (آمین)۔ لوگ خوشحال ہوں گے تو ملک سے دہشتگردی اور سہولت کاری جیسی منفی سرگرمیوں کا خودبخود قلع قمع ہوجائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔