راوی کے کنارے

قمر عباس نقوی  پير 21 مارچ 2016

جب ہم نے اس دنیا میں آنکھ کھولی تو راوی کے کنارے یہی شہر لاہور تھا جہاں ہمارا بچپن سے جوانی تک زندگی کا ایک قیمتی حصہ گزرا۔ عرصہ کیا تھا معاشی تنگدستیوں میں علم و آگہی کے حصول کی جدوجہد تھی، ویسے بھی وراثتی طور پر علم کا گہوارہ ہونے کا اعزاز اسی شہر کو حاصل ہے۔ یہ ایک تلخ اور خوشگوار لمحات بھرا عرصہ ہے کہ اس عمر رفتہ میں بھلائے نہیں بھولتا۔ اس شہر کی تاریخ کا باب اتنا وسیع ہے جس کو تحریر کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

آج جب میں لاہور شہر کو دیکھتا ہوں تو سوائے حیرت زدہ ہونے کے کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا ورائٹی ہے۔ درحقیقت لاہور کے باسی قدرت کی ہر نعمت سے مالا مال ہیں، دکھ ہے تو صرف سمندر سے محرومی کا۔ یہاں ہونے والی ترقی کا موازنہ منی پاکستان شہر کراچی سے کرتا ہوں تو ماتم کدہ ہونا پڑتا ہے۔ لاہور کی اس انداز میں ترقی کا سہرا وہاں کے مقامی عوامی رہنماؤں بالخصوص میاں نواز شریف اور ان کے برادر عزیز میاں شہباز شریف بشمول ان کے رفقائے کار کے سر جاتا ہے۔

کرشن نگر (اسلام پورہ) کی پرانی آبادی ہندوؤں کے تعمیر کردہ رہائشی مکانات کی تھی۔ اس کے اطراف اور گرد ونواح کا علاقہ نہایت زرخیز زمین پر منحصر تھا، جہاں زراعت کو بہت ہی اہمیت حاصل تھی۔ موسمی فصلوں کا بھرپور راج تھا، جن میں آلو، ہرا دھنیا، چقندر، گوبھی، گول بینگن، چولائی، پیلے پتوں سے دلہن کی طرح سجی سرسوں، اس علاقے کی مشہور فصل تھی۔

لہلہاتے کھیتوں کے درمیان بہتے ہوئے پانی کے نالے اور کچھ فاصلوں پر پانی کے کھوہ دلچسپ قدرتی منظر پیش کرتے تھے۔  دریائے راوی کے سیلابی پانی سے بچاؤ کے لیے بنایا جانے والا بند جس پر پچیس فٹ چوڑی سڑک تعمیر کی گئی تھی جس کی دونوں اطراف شہتوت کے ہرے بھرے درختوں سے مزین تھی اور یوں ہم بھی سرخ اور ہرے رنگ کے میٹھے اور شہد نما شہتوت سے مستفید ہوجایا کرتے تھے۔

تمام زرعی اراضی مختلف چوہدریوں، مہر خاندان کے لوگوں کی ملکیت تھیں۔ کینال، دو کینال کے ٹکڑوںمیں زمین کی فروخت کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ان زرعی زمینوں پر مکانات کی تعمیر کا نا رکنے والا سلسلے کا آغاز ہوگیا۔ ٹاؤن پلاننگ کے شدید فقدان کی وجہ سے چند مکانات کی تعمیر کے بعد گلیاں بند ہونا شروع ہوگئیں۔ گلیاں تنگ و تاریک ہوتی چلی گئیں۔ برسات کے موسم میں بارش کے پانی کی نکاسی کا خاطر خواہ انتظام نہ تھا۔ ادھر جابجا شہر میں بھینسوں کے باڑے ہوا کرتے تھے جس سے مچھروں کی پیدائش و افزائش بڑی تیزی سے ہوا کرتی تھی۔

قدرتی گیس نہیں تھی، بھینس کے گوبر سے تیار شدہ جسے اردو میں اُپلے اور پنجابی زبان میں تھاپیاں (یا گوئے کہا جاتا تھا) گھروں میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ بجلی کا نظام تھا مگر وولٹیج کم ہونے سے علاقے میں اندھیر ے کا راج تھا۔یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا، ہمارے علاقے سے سب سے پہلے میاں نواز شریف جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے الیکشن میں کھڑے ہوئے۔ اس وقت ہم اس نام اور شخصیت سے قطعاًنا واقف تھے۔

دوران الیکشن مہم میاں صاحب نے ہمارے علاقے کا انتخابی دورہ کیا تو وہاں کے مکینوں نے یہاں کی حالت زار ان کے گوش گزار کی۔ الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیابی کے فوراً بعد انھوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ شہر میں ٹاؤن پلاننگ کی بنیاد رکھی۔ بھینسوں کے باڑوں کو شہر سے باہر منتقل کرنے کے عملی اقدامات کیے۔ تمام گلیوں کو پختہ اینٹوں سے اس طرح بنوایا کہ گلی کہ دونوں اطراف ڈھال کی صورت میں برساتی نالیاں بنوائیں تاکہ بارش کے دوران پانی کی روانگی ان نالیوںکی طرف رواں دواں رہے۔

بلاشبہ ان کی طرف سے ایک ابتدائی کاوش تھی جو قابل تحسین اور قابل ستائش ہے کچھ ہی سال میں اﷲ تعالیٰ کی پاک ذات نے ان کو صوبے کے سربراہ کے منصب پر فائز کیا اور یہاں تک ان کی کاوشیں رنگ لائیں اور وہ ملکی وفاق کے سربراہ کے عہدے تک فائز ہوگئے۔ ماڈل ٹاؤن ایک اجاڑ اور بیاباں پتھریلا علاقہ تھا، جہاں اینٹوں کے بھٹوںکی بھرمار تھی، آج یہی ٹاؤن جدید شکل میں آپ کے سامنے ہے جہاں خود موصوف وزیراعظم اور ان کے برادر عزیز میاں شہباز شریف کی ذاتی رہائش ہے۔

گزشتہ دنوں جب انھوں نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا باضابطہ اعلان کیا تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ شخص اپنی ذات میں ایک اچھا انسان ہے جو غریب اور مفلوک الحال عوام کی کیفیت کو بخوبی سمجھتا ہے۔ زرعی اراضی کی جگہ رہائشی مکانات کی تعمیر قابل رنج وافسوس ضرور ہے یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اجناس خوردنی ختم کرنے کے درپے ہیں۔

دوسرا قابل افسوس پہلو مسلم لیگ (ن) کی جانب سے پرائیویٹائزیشن کمیشن کے ذریعے ان اداروں کی بندر بانٹ جو حکومت اور عوام کے لیے سونے کی چڑیا تھے، ان لوگوں کو سستے داموں ان اداروں کی فروخت ہوئی، ان اداروں کا حشر تو دیکھیے، اب لوگ پرائیویٹائزیشن کے نام سے خوف کھانے لگے ہیں۔ کے ای ایس سی کی فروخت جس نے عوام کا جینا حرام کیا ہوا ہے اور شہر میں کوئی ایسا شخص نہیں جو اس کے مظالم کا ڈسا ہوا نہ ہو جب کہ پولیس اور ایف آئی اے جیسے ادارے اس کے سامنے کچھ نہیں بیچتے، اسی لیے قومی ایئر لائن اور پاکستان اسٹیل کے معاملات التوا کا شکار ہیں۔

ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ ہم نے لاہور بورڈ سے سیکنڈری کے سالانہ کمپوزٹ (Composite) امتحان (نویں اور دسویں مشترکہ) کی تیاری مٹی کے تیل کے لیمپ کی روشنی میں کی تھی۔ گھوڑا بردار سوار تانگے چلا کرتے تھے جس کو چلانے والے کو کوچوان کہا جاتا تھا، ہاں البتہ ہمارے علاقے سے سرکاری تحویل میں ڈبل ڈیکر بسیں مال سے ہوتی ہوئی ایئرپورٹ تک جاتی تھیں۔ آج جو آپ لاہور کا جدید نقشہ دیکھ رہے ہیں اسی شخصیت کی مرہون منت ہے۔ تنقید کرنا دنیا کا سہل ترین کام ہے اور تنقید زبان سے کی جاتی ہے جس میں کسی قسم کا کوئی خرچہ نہیں ہوتا، جیسے چاہو زبان ہلاتے رہو۔

اصلاحی اور تعمیری تنقید سے ملک و ملت کی ترقی ضرور ممکن ہوجاتی ہے مگرذاتی عناد رکھتے ہوئے منفی تنقید ملک کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمیں وطن عزیز کا ایک ایک گوشہ جان سے زیادہ عزیز ہے۔ کام کرنے ہی سے غلطیاں ہوسکتی ہیں مگر ان غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔میاں صاحب آپ لاہور کی ایسی تعلیمی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہیں جس نے ملک کو ورکرز کے بجائے ذہین اور قابل ایڈمنسٹریٹر مہیا کیے ہیں۔ آپ کے پاس محمد رفیق کے فرزند ارجمند سعد رفیق ہیں جنھوں نے ریلوے کی پھنسی ہوئی کشتی کو کامیابی کی راہ پر گامزن کردیا، مجھے اس بات پر فخر ہے کہ موصوف وزیر کا تعلق میری ہی درسگاہ سے رہا ہے۔ کچھ ٹرینیں پرائیوٹ سیکٹر میں چلانے کا تجربہ بھی اچھا رہا اور اس طرح ریلوے کے اثاثوں کی فروخت سے بھی محفوظ رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔