افسوس؛ سوبرس گزرنے کے باوجود اردو لٹریچردنیا تک نہیں پہنچ سکا

اقبال خورشید / اشرف میمن  اتوار 22 مئ 2016
 انتہاپسندی پر قابو نہیں پایا گیا، تو اگلی نسل ترک وطن پر مجبور ہوجائے گی ، پروگریسو ہونے کے باعث ہمارے ادیبوں نے امریکی ادب پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔  فوٹو : فائل

انتہاپسندی پر قابو نہیں پایا گیا، تو اگلی نسل ترک وطن پر مجبور ہوجائے گی ، پروگریسو ہونے کے باعث ہمارے ادیبوں نے امریکی ادب پڑھنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔ فوٹو : فائل

جب سے باؤ وارث کی گم شدگی کا سنا ہے، مخمصے میں ہوں۔

ایک عام سی زندگی گزارنے والا عام سا شخص یوں اچانک، بنا کوئی نشان چھوڑے کیسے غائب ہوگیا؟ جیسے یک دم دھویں میں تبدیل ہوگیا ہو۔ تجسس آسیب کی طرح مجھ پر سوار ہے۔ سنا ہے، تفتیشی افسر کو چند شواہد ملے تھے، مگر وہ کچھ نہیں بتاتا ۔ بالکل خاموش ہے۔ بے خواب راتوں سے تھک کر میں نے اُس کہانی کار سے ملنے کا فیصلہ کیا، جس نے باؤ وارث کا کردار تشکیل دیا تھا۔ جب میں اس کے دروازے پر پہنچا، تو سامنا ایک خوبرو جوڑے سے ہوا۔ وہ شکیل اور نازلی تھے۔ اور دونوں سکتے میں تھے۔ اس ہول ناک انکشاف کے زیر اثرکہ اُن دونوں کا حقیقت کی دنیا سے کوئی سمبندھ نہیں۔ وہ فقط کردار ہیں، مصنف کے قلم کی جنبش کے محتاج۔ وہیں اپنے سیکیوریٹی اہل کاروں کے ساتھ خاور دکھائی دیا۔ خاور، افسانے ’’کراچی نامی قتل گاہ میں ایک دوپہر‘‘ کا مرکزی کردار۔

میں نے کمرے میں جھانک کر، میز کی دوسری طرف بیٹھے اُس شخص کی سمت دیکھا، جو اِن یادگار کرداروں کا خالق ہے، جو کتابوں پر ’’فلیپ‘‘ لکھوانے کا قائل نہیں۔ وہ کچھ اداس تھا کہ گذشتہ روز لاہور کے ایک پارک میں ہول ناک دھماکا ہوا تھا، بارود نے کئی معصوم زندگیوں کو نگل لیا تھا۔ وہ یوں بھی اداس تھا کہ اس کے آس پاس انتہاپسندی بڑھ رہی ہے، اب مذہبی گروہ اس بات پر احتجاج کرتے ہیں کہ میڈیا ہولی تو کور کرتا ہے، مگر اُن کی سرگرمیاں نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔ مصنف نے کرب ناک لہجے میں کہا:

’’یوں لگتا ہے، انتہاپسندی ایک روز ہمیں مار ڈالے گی۔ شہروں میں رہنے والوں کو اس کی شدت کا اندازہ نہیں۔ اگر انتہاپسندی پر قابو نہیں پایا گیا، تو ہماری اگلی نسل ترک وطن پر مجبور ہوجائے گی۔‘‘

یہ اخلاق احمد کا تذکرہ ہے۔ اخلاق احمد، جو کہانی کے ابلاغ پر یقین رکھنے والے قبیلے سے ہیں، جنھیں شکایت ہے کہ اب ہم بیرونی ادب نہیں پڑھتے۔ اس پختہ قلم کار کے چار مجموعے آچکے ہیں۔ کہانی کا وہ تعاقب نہیں کرتے۔ ان کے معاملے میں وہ خود کو ظاہر کرتی ہے۔ فقط مشاہدہ نہیں، بعض اوقات جکڑ لینے والی تحریریں بھی قلم اٹھانے پر مجبور کردیتی ہیں۔ کردار، کہانی لکھتے ہوئے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ عنوانات ان کے ہاں دل چسپ ہوتے ہیں۔

صحافت کاوہ وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ تین عشروں تک اِس دشت کی سیاحی کی۔ ’’اخبارجہاں‘‘ کے مدیر رہے، مگر اب صحافت سے کنارہ کش ہو چکے ہیں۔ سبب پوچھا، تو کہنے لگے،’’بس، ایک روز یوں لگا، ساری محنت لاحاصل ہے، جو کچھ کر رہا ہوں — سرخیاں، انٹرویوز، تحقیقی رپورٹس— ہر شے بھلا دی جائے گی۔ ساتھ ہی لکھنا پڑھنا، جو انسان کو تازہ دم کرتا ہے، دھیرے دھیرے ایک ناتمام آرزو کے قالب میں ڈھل گیا تھا۔ بس، وہ راہ چھوڑ دی۔‘‘

جو راہ اُنھوں نے چھوڑ دی، اُسی سے گفت گو کا آغاز ہوا۔ آئیں، آپ بھی اس میں شامل ہوجائیں۔

سوال: ایک عرصے آپ پرنٹ میڈیا سے وابستہ رہے، اس کا مستقبل کیا دکھائی دے رہا ہے؟
اخلاق احمد: پرنٹ میں اب Survival of the fittest والا معاملہ ہے۔ پرنٹ میڈیا ختم تو نہیں ہوگا، مگر محدود ہوجائے گا۔ فقط بڑے اخبارات رہ جائیں گے۔ آن لائن ایڈیشنز ہوں گے۔ دنیا بھر میں یہی ہورہا ہے۔ کچھ روز قبل برطانوی اخبار The Independent نے اپنا آخری ایڈیشن شایع کیا۔ اداریہ لکھا؛ سیاہی سوکھ گئی، کاغذ ختم ہوگیا، اخبار بند کیا جارہا ہے۔ یہ مسائل ہیں۔ البتہ پاکستان جیسے ممالک میں ابھی پرنٹ میڈیا کی ضرورت ہے۔ ایک تو عادت پڑی ہوئی ہے۔ پھر بڑی آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، جہاں انٹرنیٹ اور وائی فائی وغیرہ نہیں۔

سوال: ایک جانب پرنٹ میڈیا سکڑ رہا ہے، دوسری طرف الیکٹرانک میڈیا بے سمتی کا شکار ہے!
اخلاق احمد: میں اٹھائیس برس میڈیا سے وابستہ رہا، مگر آج الیکٹرانک میڈیا کی بدحالی دیکھ کر شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے صحافت چھوڑ دی۔ بدتہذیبی، شور، ڈراما، سنسنی خیزی یہ سب چیزیں شرط بن گئی ہیں۔ سوچ کر لرز جاتا ہوں کہ اگر میں اس ہجوم کا حصہ ہوتا، تو کیا کرتا۔ آج جو لوگ اینکر بنے ہوئے ہیں، ان کی اکثریت صحافی ہے ہی نہیں۔ جو حقیقی صحافی ہیں، ان کا لہجہ سنجیدہ اور دھیما ہے، مگر انھیں ریٹنگ نہیں ملتی۔ بس، یہ امید ہے کہ سنسنی خیز ی کا یہ دور پانچ سے دس سال میں ختم ہوجائے گا۔ ابھی نیا نیا کھلونا ملا ہے، تو ابھی کھیل رہے ہیں۔

سوال: آپ نے سنسنی خیزی کے ساتھ بڑھتی انتہاپسندی کا تذکرہ کیا، پاکستان میں اس کا بیج کب بویا گیا؟
اخلاق احمد: اس کی بنیاد تو ضیا الحق کے زمانے میں رکھی گئی تھی۔ اور پھر آنے والی ہر حکومت نے، چاہے وہ فوجی ہو یا سول، اسے بڑھایا۔ اب ریاست نے اپنا بیانیہ بدلا ہے۔ اور بدلنا ضروری بھی تھا۔ لازم ہے کہ اب اُس پر مضبوطی سے کھڑے رہیں۔ ڈٹے رہیں۔ کچھ عرصے قبل میں سری لنکا گیا۔ وہاں کبھی بہت بدامنی تھی۔ ایک روز انھوں نے فیصلہ کیا کہ بس، بہت ہوگیا۔ ایک پالیسی بنائی۔ اس پر جم گئے۔ وقت لگا، مگر اسے ختم کردیا۔

سوال: یوں لگتا ہے کہ روشن خیال طبقہ بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہا!
اخلاق احمد: بہ ظاہر تعداد کے اعتبار سے رجعت پسند، روشن خیال طبقے پر غالب ہیں، مگر یہ دونوں ہی طبقات معاشرے کا ڈیڑھ فی صد بھی نہیں۔ اکثریت وہ ہے، جو گھر بیٹھی ہے، جو عوام ہیں۔ جنھیں بم دھماکے پر بھی افسوس ہوتا ہے، اور ڈرون حملے پر بھی دکھ ہوتا ہے۔ اکثریت کو یہ دکھ بھی ہے کہ وہ بے بس ہیں۔ جو قوتیں لیڈ کر رہی ہیں، وہ تعداد میں قلیل ہیں۔ تو اس خاموش اکثریت کو اپنی اہمیت کا ادراک کرنا ہوگا۔ یہ ووٹ کے ذریعے بڑی تبدیلی لاسکتی ہے۔

سوال: کچھ ادب پر بات ہوجائے۔ اردو فکشن کی موجودہ صورت حال پر آپ کا کیا تبصرہ ہے؟
اخلاق احمد: یہ جائزہ عشروں کے لحاظ سے لیا جاسکتا ہے۔ کوئی عشرہ بہت زرخیز ہوتا ہے، کوئی کم زرخیز۔ اردو ادب میں دو عشرے بہت زرخیز گزرے۔ میں 50 اور 60 کی دہائی کی بات کر رہا ہوں۔ اب ہم دیگر عشروں کا ان سے موازنہ کرتے ہیں، تو تھوڑی مایوسی ہوتی ہے۔ ان عشروں میں جو دو ہزار ادیب لکھ رہے تھے، شاید بعد میں ان کی اکثریت گم نامی میں چلی گئی، مگر اُس زمانے میں ان کی کارکردگی بہت اچھی تھی۔ آج ہمیں ویسے دو ہزار افراد دکھائی نہیں دیتے۔ البتہ یہ یاد رکھیں کہ ان عشروں کے جن افراد کو ہم آجGiantsکہہ رہے ہیں، اس وقت وہ Giants نہیں تھے۔ ہماری طرح کے فکشن نگار تھے، جو توانائی سے لکھ رہے تھے۔ کل کے Giants، آج کے اچھے لکھنے والوں ہی میں سے نکلیں گے۔

سوال: ایسے کچھ ادیبوں کا نام لینا پسند کریں گے؟
اخلاق احمد: کئی نام ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ میں ابلاغ والے اسکول سے ہوں، تو بہت سے ایسے، جو اچھا لکھ رہے ہیں، جن کی میں کبھی کبھی تعریف کرتا ہوں، انھیں یوں اس فہرست سے نکال دیتا ہوں کہ ان کی کچھ چیزیں لوگوں کو سمجھ نہیں آتیں۔ تو کسی کا نام نہ لیا جائے، یہی بہتر ہے۔ البتہ کچھ بالکل نئی چیزیں ہوئی ہیں، جنھوں نے مجھے حیران کیا ۔ جیسے ژولیاں ہیں۔ ایک فرانسیسی اردو میں لکھنے لگا، اور اتنی گرفت کے ساتھ۔ پھر یہ بھی ہوا کہ کوئی پرانا لکھنے والا یک دم نئی چیزیں لکھنے لگتا ہے۔

سوال: ادب کی ترقی کے لیے کیا تجویز کرتے ہیں؟
اخلاق احمد: میرا فقط ایک مشورہ ہے۔ پڑھیں۔ فقط اپنی تحریریں نہ پڑھیں۔ صرف اردو ادب نہیں پڑھیں، اس سے آگے جائیں۔ اب تو یہ آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ بہت سی دیگر زبانوں کا ادب اردو میں دست یاب ہے۔ آپ ترجمے کے ناقص ہونے پر سوال اٹھا سکتے ہیں، مگر چیزیں دست یاب ہیں۔ انھیں پڑھنے سے آپ کا ویژن بڑھے گا۔ اندازہ ہوگا کہ دنیا کیسے لکھ رہی ہے۔ آپ انٹرویوز کے سلسلے میں فکشن نگاروں سے بات کرتے رہتے ہیں۔ لوگ ابھی تک چیخوف، ٹالسٹائی اور دوستوفسکی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بہت تیر مارلیا، تو مارکیز تک آگئے۔ اس زمین کی دیگر زبانوں کا ادب، ہمسایہ ممالک کی مقامی زبانوں کا ادب بہت پُرقوت ہے۔ پھر امریکی ادب ہے۔ یہ ایک عجیب بات ہے۔ امریکی ادب سے ہم بہت دور ہیں۔ برطانیہ تک تو جاتے ہیں، مگر امریکی ادب کی بات نہیں کرتے۔ حالاں کہ وہاں بہت اچھا کام ہو رہا ہے۔ آپ کسی کو مثال دیتے نہیں سنیں گے کہ فوکنر کو اور ایلس منرو کو پڑھیں۔ میرا تو عالمی ادب سے تعلق John Steinbeck کے ناول The Pearl سے قائم ہوا، جس کا ترجمہ ابن انشا نے کیا تھا۔ میں بڑا متاثر ہوا۔ ان کی دیگر چیزیں تلاش کر کے پڑھیں۔

سوال: اس رویے کا سبب کیا ہے؟
اخلاق احمد: میں محسوس کرتا ہوں، ہو سکتا ہے میں غلط ہوں کہ ہم ابتدا سے سیاسی طور پر امریکا سے Love–hate relationship میں رہے ہیں۔ ادیبوں کا بھی یہی معاملہ تھا۔ ہمارے نام ور ترین ادیبوں نے بھی off-and-on روس نواز اور امریکا مخالف موقف اپنایا۔ روسی ادب کی عظمت سے انکار نہیں۔ چار پانچ روسی مصنف بے شک عظیم تھے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر خطوں میں اچھا ادیب تخلیق نہیں ہوا۔ امریکی ادب بہت معیاری ہے۔ شاید سیاسی طور پر پروگریسو ہونے کے باعث ہم نے بہ طور ادیب امریکی ادب پڑھنے ہی کی کوشش نہیں کی۔

سوال: آج شہر شہر ادبی میلے ہورہے ہیں، کیا یہ مثبت نتائج مرتب کرتے ہیں؟ ایک رائے یہ بھی ہے کہ ان میلوں کا اصل محور سیاسی موضوعات اور انگریزی ادب ہوتا ہے؟
اخلاق احمد: یہ فائدہ تو ہوتا ہے کہ جن میں ادب کی پیاس ہے، وہ آتے ہیں، وہاں ادب کی بات ہوتی ہے، کتابیں خریدی جاتی ہیں، ادیبوں کو مل بیٹھنے کا موقع ملتا ہے، مگر اس رائے سے بالکل متفق ہوں، بیش تر ادبی میلوں میں اردو ادیبوں کو فقط نمک کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے کہ ذرا ذائقہ بن جائے گا۔ انگریزی ادیبوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، بل کہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ چند میلوں میں غیرمعروف انگریزی ادیب کو معروف اردو ادیبوں سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔

سوال: کچھ کا کہنا ہے کہ ان میلوں نے اردو ادب میں بھی اشرافیہ پیدا کردی؟
جواب: Genuine ادیب ہی اردو ادیب کی اشرافیہ بننے کا حق رکھتے ہیں۔ اور یہ لوگ کون ہیں؟ یہ وہ ہیں، جو مالی طور پر زیادہ مستحکم نہیں ہیں، جنھوں نے زندگی کو گراس روٹ لیول پر دیکھا، جنھوں نے تخلیقی صلاحیتوں کو اسی طرح برتا ہے، جسے دنیا بھر کے بڑے ادیب برتتے ہیں۔ ایک کیٹیگری ہوتی ہے show off ادیبوں کی۔ اردو میں وہ ہیں تو، مگر اتنے نمایاں نہیں۔

سوال: کیا کتابوں کی خرید و فروخت میں کمی آئی ہے؟
جواب: فروخت تو شاید کم نہیں ہوئی، مسئلہ یہ ہے کہ کوئی راستہ ایسا نہیں ہے، جس سے رائٹر جیت جائے۔ فائدہ ہمیشہ ناشر کا اور نقصان ہمیشہ ادیب کا ہوتا ہے۔ آٹھ دس بیسٹ سیلر ادیبوں کو چھوڑ کر باقیوں کے لیے کتاب چھپوانا نقصان کا سودا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ناشر کتابوں کے کچھ نسخے دے دیتا ہے۔ اگر کتاب کام یاب ہوجائے، تب بھی اسے مالی طور پر فائدہ نہیں ہوتا۔ ادیب اپنی کتاب کی اشاعت کا خود اہتمام کرتے ہیں۔ یہ زوال کی نشانی ہے۔ اگر کتاب چھپ رہی ہے، ناشر فائدہ میں ہے، تو پھر اس کی وجہ کیا ہے؟ یعنی کوئی کڑی ٹوٹی ہوئی ہے۔ برصغیر کی تاریخ ہے، لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس کا قاری کتاب خریدتا تھا، وہی مشاعروں میں آتا، وہی ادیبوں کو سر پر بٹھاتا تھا۔ ناخواندگی اور حالات نے سب سے زیادہ اسی طبقے کو نقصان پہنچایا۔ اب یہ طبقہ یا تو اپنے بچوں کو کم تعلیم دلواتا ہے، یا ایسی تعلیم ، جس میں ادب کی کوئی جگہ نہیں۔

سوال: ناشروں کی جانب سے ادیب کا استحصال اپنی انتہا کو چھو رہا ہے، کیا دونوں کے درمیان کوئی حکومتی باڈی ہونی چاہیے؟
اخلاق احمد: استحصال تو ہے، مگر میں نہیں سمجھتا کہ کوئی حکومتی ادارہ کارآمد ثابت ہوگا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ جب کوئی سرکاری باڈی درمیان میں آتی ہے، تو مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ ادیب کو تھوڑا سمجھ دار ہونا چاہیے۔ اُسے وہ طریقے آنا چاہییں کہ اپنی کتاب چھپوا لے، اور اس سے کچھ مالی فائدہ بھی حاصل کر ے۔

سوال: آپ کے لکھنے کا ڈھب کیا ہے، صبح لکھتے ہیں یا شام، ٹائپ کرتے ہیں کہ قلم سے لکھتے ہیں؟
اخلاق احمد: میں بہت سُست ادیب ہوں۔ بیش تر کہانیاں اس وقت مکمل کیں، جب ادبی پرچوں کے مدیروں نے میرا تعاقب کیا، فون کیا، مجھ پر دباؤ ڈالا۔ صحافت کی وجہ سے ڈیڈ لائن کی عادت ہوگئی ہے۔ ٹائپ کرنا تو سیکھ ہی نہیں سکا۔ لکھنے کا ٹائم شام اور رات کا ہے۔ صحافت body clock پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ابتدا میں مَیں نائٹ شفٹ میں تھا۔ رات تک ذہنی طور پر مستعد رہنے کی عادت ہوگئی۔ تکمیل میں تین چار نشستیں لگتی ہیں۔ روزگار کے لیے ایڈورٹائزنگ سے وابستہ ہوں، مصروفیات خاصی ہیں، تو ان نشستوں کے درمیان وقفے آتے ہیں۔ وہ کبھی ایک ہفتے پر محیط ہوتے ہیں، کبھی دو ہفتوں پر۔

سوال: کہانی کیسے خود کو لکھواتی ہے؟ کوئی منظر، کوئی خبر تحریک بنتی ہے؟
اخلاق احمد: کئی بار کوئی منظر کہانی لکھنے کی تحریک دیتا ہے۔ اس وقت سوچتا ہوں کہ کہانی اس طرح کی ہوگی، ایسے کردار، ایسے واقعات ہوں گے۔۔۔ اور پھر انھیں بھول جاتا ہوں۔ بیس واقعات میں سے فقط ایک ذہن میں رہ جاتا ہے۔ اسے کہیں نوٹ کر لیتا ہوں۔ پھر اس کی تفصیلات خود کو عیاں کرتی ہیں۔

سوال: آپ نے کچھ طویل افسانہ بھی لکھے، جیسے ’’ایک دو تین اور چار‘‘ ۔ تو ناول کی سمت آنے کا کیا ارادہ ہے؟
اخلاق احمد: کسی ادبی میلے میں مستنصر حسین تارڑ ملے تھے۔ ڈانٹتے ہوئے کہنے لگے: ’’تم تو کہتے تھے کہ تم ناول نہیں لکھ سکتے، مگر تمھاری یہ کہانی تو پورا ناول ہے۔ جنھیں میں اپنا فکشن دکھاتا ہوں (سلیم الرحمان صاحب) انھوں نے کہانی پڑھی ہے، اور اسے پسند کیا۔‘‘ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ خواہش ہے کہ لاہور جاؤں، تو سلیم الرحمان صاحب سے بھی ملوں۔ خیر، اصل بات یہ ہے کہ ناول کا سوچ کر میں تھوڑا ڈر جاتا ہوں۔ اس ڈر کی وجہ میری مصروفیات، میرے تخلیقی عمل میں آنے والے وقفے ہیں۔ ناول، میرے نزدیک کیفیت کے بغیر نہیں لکھا جاسکتا، اور مجھے لگتا ہے کہ ان وقفوں کی وجہ سے میں اُس کیفیت سے نکل جاؤں گا۔

سوال: ناول مشکل ترین فن، حالیہ برسوں میں جو ناول آئے، ان میں آپ کو گہرائی اور گیرائی نظر آتی ہے؟
اخلاق احمد: سورج نکلتا ہے، تو سب کو خبر ہوجاتی ہے۔ اسی طرح جب اچھا ناول آتا ہے، تو سب کو پتا چل جاتا ہے۔ ناول کم لکھے جارہے ہیں۔ پھر بیش تر میں گہرائی کا فقدان ہوتا ہے۔ وہ ایک افسانہ ہوتا ہے، جسے Casually ناول کی شکل دے دی جاتی ہے۔ جب (شمس الرحمٰن) فاروقی صاحب کا ناول ’’کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ آیا، تو سب نے اس پر بات کی۔ آپ فاروقی صاحب کی تنقیدی فکر سے اختلاف کرسکتے ہیں، مگر وہ ناول اپنی صنف کے تمام تقاضے پورے کرتا تھا۔ تو ایسے ناول نہیں لکھے جارہے۔ کیوں؟ اس کی وجہ ریسرچ کا فقدان ہے۔ ریسرچ کے بغیر ناول مکمل نہیں ہوسکتا۔

سوال: ادبی سفر کے دوران کن ادیبوں سے تعلق رہا، کن کے ساتھ اٹھے بیٹھے؟
اخلاق احمد: یہ عجیب بات ہے۔ میرے والد ادبی ذوق رکھتے تھے، بھائیوں کا بھی ادبی رجحان ہے، مگر میرا کبھی ادبی حلقوں سے تعلق نہیں رہا۔ جب صحافت میں آیا، تو انور سن رائے اور ان کے حلقے سے سلام دعا تھی، مگر ادبی حلقوں سے دور رہا۔ 38 برس کی عمر میں پہلی کتاب آئی، اس کے بعد ادب کو سنجیدگی سے لیا۔ اس زمانے تک بیش تر تحاریک دم توڑ چکی تھیں۔ کچھ مباحث، کچھ سلوگن تھے، مگر وہ غیراہم ہوچکے ہیں۔ ادیبوں میں اشفاق احمد نے مجھے حیران کیا۔ ان کے نقطۂ نظر سے میں متفق نہیں تھا، مگر میں ان کی نثر کا اسیر ہوں۔ ’’ایک محبت سو افسانے‘‘ میں شامل کچھ افسانے انھوں نے گریجویشن کے بعد لکھے تھے۔ انھیں پڑھ کر سوچتا ہوں؛گریجویشن کا کوئی طالب علم ایسا افسانہ لکھ سکتا ہے۔ جب ان سے ملا، تو انھیں ایک انتہائی سادہ اور ملنسار شخص پایا۔ ان کا فن اور شخصیت دونوں مجھے بہت اچھے لگے۔

سوال: بانو قدسیہ سے بھی ملے ہوں گے؟
جواب: جی ہاں۔ وہ بھی Equally Talented تھیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب زمانہ بدل گیا ہے، چیزوں پر بحث ہونے لگی ہے۔ کسی زمانے میں ’’راجہ گدھ‘‘ ہمیں ازبر تھا، مگر بعد میں ہم نے سوچا، اس میں کچھ ایسی چیزیں ہیں، جن سے ہم متفق نہیں۔ ویسے جس بڑے ادیب نے میری ادبی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے، وہ (مستنصر حسین) تارڑ صاحب ہیں۔ جب میں اخبار جہاں کا ایڈیٹر تھا، میں نے کوشش کی کہ وہ ہمارے لیے کالم لکھیں۔ وہ راضی ہوگئے۔ یوں ہمارا مستقل رابطہ رہنے لگا۔ ایک دن فون پر بات ہوئی، تو پوچھنے لگے: ’’یہ بتاؤ، کیا تم افسانے لکھتے ہو؟‘‘ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا: ’’جی ہاں کبھی کبھی۔‘‘ کچھ عرصے بعد میرا ایک اور افسانہ ان کی نظر سے گزرا، تو انھوں نے چھے سطر کا ایک خط لکھا کہ ’’دیکھو!یہ بڑی ذمے داری کی بات ہے۔ تم بہت کم لکھتے ہو، تمھیں لکھنا چاہیے۔ افسانہ لکھنے والے کو اپنی ڈیوٹی سمجھنی چاہیے، یہ ڈیوٹی قدرت لگاتی ہے، اِسے پورا کرو۔‘‘ I was moved، تارڑ صاحب نے ایسا کمنٹ کیا۔ ایک اور جگہ لکھ دیا کہ اخلاق احمد کو گوشہ نشین رہنے کا خبط ہے، تو یہ ان کی محبت ہے، جس نے مجھے متاثر کیا۔

سوال: آپ نے کہا کہ اچھے ناول نہیں لکھے جارہے، تارڑ صاحب کے ناولوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟
اخلاق احمد: اگر آپ مستنصر حسین تارڑ کی کتابیں پڑھیں، تو آپ کو ایک ادیب کا ارتقائی عمل نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں جو وہ لکھ رہے تھے، آج جو لکھ رہے ہیں، اس میں فرق ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ مطالعے کے شایق ہیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتے ہیں۔ ہم جیسے لوگوں کی چیزیں بھی پڑھتے ہیں، اوحان پاموک کو بھی پڑھتے ہیں۔ وہ چھے ایسے رائٹرز کا نام بتا دیں گے، جن کی ہمیں خبر ہی نہیں۔ تو ان کے ناولوں کے پس منظر میں ان کا وسیع مطالعہ اور مشاہدہ ہے۔ میں یہی کہتا ہوں کہ رائٹر کو بہت زیادہ پڑھنا چاہیے۔ ہمارے ہاں فکشن لکھے والے، بالخصوص ناول لکھنے والے کم ہیں۔ انتظار صاحب کو بکر پرائز کے لیے نام زد کیا گیا۔ وہ بہت بڑے ادیب تھے۔ ایک حلقے کا موقف یہ ہوسکتا ہے کہ ان کی تخلیقات ہمارے ادب کی اصل نمایندہ نہیں، مگر جب اتنے کم لوگوں ہوں گے، یہی پانچ چھے نام، تو ان ہی میں سے کوئی نمایندگی کے لیے سامنے آئے گا۔

سوال: آپ نے پاپولر لٹریچر بھی خوب پڑھا، مگر آپ کے ہم عصر شعوری طور پر پاپولر لٹریچر سے دور رہے!
اخلاق احمد: سنجیدہ تخلیق کاروں کو پاپولر لٹریچر ضرور پڑھنا چاہیے۔ کہیں کہیں تو ادب عالیہ اور پاپولر لٹریچر میں فرق کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ کچھ ادیب بالکل دہلیز پر ہوتے ہیں، جیسے جیک لنڈن۔ پھر سمرسٹ ماہم۔ ماہم اپنے دور میں پاپولر لٹریچر والوں میں شمار ہوتا تھا۔ بعد میں لوگوں کو اس کے قد کا اندازہ ہوا۔ وہ ایک ہی طریقے سے، سادہ کہانی لکھتا تھا۔ Plan کہانی کا وہ شہنشاہ تھا۔ وہ کوئی تیکنیک استعمال نہیں کرتا تھا، فلیش بیک ہو، اختتام پہلے بتادیں وغیرہ وغیرہ۔ کیا کیا آپ نے ایجاد کر رکھا ہے۔ اور اس سے ہم متاثر بھی ہوتے ہیں، مگر وہ اس کے بغیر کہانی لکھتا تھا، اور آپ کو پکڑ لیتا تھا۔

سوال: آپ کے افسانے ’’کہانی ایک کردار کی‘‘ میں ایک روز کرداروں کو علم ہوتا ہے کہ وہ فقط مصنف کی ذہنی اختراع ہیں۔ یہ ایک Risky کہانی ہے۔ پاپولر لٹریچر کا ڈھب ہے۔ شاید دیگر ادیب ایسے تجربوں سے یوں بھی دور رہے کہ انھیں خدشہ تھا، اس طرح کی کہانیاں ان کا قد گھٹا دیں گی!
اخلاق احمد: بالکل۔ وہ ایسا سوچتے ہیں۔ اسی طرح میری ایک کہانی تھی: ’’ایک عیار افسانے کی کہانی‘‘، جس میں افسانہ ناراض ہوجاتا ہے۔ البتہ یاد رکھیں، اس طرح کی کہانی لکھنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس کا ابلاغ ہو۔ آخری ادیب کیوں لکھتا ہے؟ اس لیے کہ وہ اس عمل سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ وہ تخلیق قاری کے سامنے رکھتا ہے۔ وہ بھی محظوظ ہوتا ہے۔ پھر نقاد اسے پڑھتا ہے، بیس ایسے نکتے نکال لیتا ہے، جن کا بے چارے ادیب کو علم نہیں ہوتا۔ ایک بحث شروع ہوجاتی ہے۔ میں کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ رائٹر اکثر کسی کام یابی کی خواہش کے بغیر، اپنے لطف کے لیے لکھ رہا ہوتا ہے۔ اِس سے قطع نظر کہ وہ کہانی قبول کی جائے گی یا رد کردی جائے گی۔ عام طور سے نئی چیز رد کر دی جاتی ہے، کیوں کہ ہمارے ہاں ایک پیٹرن چلا آتا ہے۔ خالد اختر نے سائنس فکشن لکھا۔ انھوں نے بڑی ہمت کا کام کیا۔ ان کا نام تھا۔ وہ پڑھا گیا۔ ہر معروف ادیب ایسا Risk نہیں لے سکتا۔

سوال: اپنے لطف کے لیے لکھنا ٹھیک ہے، تو ابلاغ کی شرط پر زور کیوں؟
اخلاق احمد: اگر میں کوئی چیز اپنے لطف کے لیے لکھ رہا ہوں، اور اپنی دراز میں رکھ لیتا ہوں، تو ٹھیک ہے، مگر اسے شایع کرواتا ہوں، تو اس قابل ہو کہ اس کا ابلاغ ہوسکے۔

سوال: ابلاغ کو آپ جو اہمیت دیتے ہیں، اس کی وجہ صحافت کا تجربہ ہے؟
اخلاق احمد: اس کی وجہ کچھ اور ہے۔ جب میں صحافت میں آیا، تو میں نے ترجمے شروع کیے۔ آٹھ دس سال ترجمے میں گزرے۔ جو چار پانچ سو کہانیوں کے ترجمے کیے، ان کے لیے تین چار ہزار کہانیاں پڑھیں۔ اس وقت یہ میرا روزگار تھا۔ ایسی کہانیاں منتخب کرنی ہوتی تھیں، جو قارئین تک پہنچیں، تو وہ کہیں؛ کیا عمدہ کہانی ہے۔ اچھی کہانی کی تلاش نے میری تربیت کی۔ میں نے سمجھ لیا کہ کہانی ایسی ہونی چاہیے، جو لوگوں کو سمجھ اور پسند آئے۔ یہی میرا پیمانہ ہے۔

سوال: آپ نے ترجمے کا ذکر کیا، اس صنف کے بارے میں کیا رائے ہے، کیا سوویت یونین کے مانند حکومتی سرپرستی میں یہ کام ہونا چاہیے؟
اخلاق احمد: ہمارے ہاں ترجمے تو ہوئے ہیں، مگر معیاری ترجمے کم ہیں۔ ایسٹرن بلاک کے بعض ممالک میں یہ کام حکومتی سطح پر ہوا، مغرب میں پرائیویٹ سیکٹر یہ کام کر رہا ہے۔ بڑے بڑے پبلشنگ ہاؤسز ہیں۔ میں گورنمنٹ سیکٹر کے حق میں ہوں۔ اس لیے نہیں ہوں کہ بیرونی ادب ہمارے ہاں آئے، وہ تو آہی رہا ہے، بل کہ اس وجہ سے کہ ہماری چیزیں بھی باہر جائیں۔ حکومتوں، اداروں اور ناشروں نے ہمارے ادیبوں سے بہت زیادتی کی۔ قرۃ العین حیدر کو اپنے ناول کا خود ترجمہ کرنا پڑا۔ عبداﷲ حسین نے خود ترجمہ کیا۔ جسے انگریزی نہیں آتی، مگر کمال کا کہانی کار ہے، آخر وہ کیا کرے۔

سوال: کیا ہمارا لٹریچر عالمی ادب کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ عام رائے ہے کہ ہم ابھی اس سطح پر نہیں؟
اخلاق احمد: یہ بہت اچھا ہوگا کہ ہمیں پتا چل جائے کہ ہم کس سطح پر ہیں۔ ہمیں اپنی حیثیت معلوم ہونی چاہیے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی چیز کلک کر جائے۔ لوگوں کو ادراک ہو کہ اردو میں اچھی چیزیں لکھی جارہی ہیں۔ ابھی تو لوگوں کو پتا ہی نہیں۔ آپ کے ادب کو ہندی ادب کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔

سوال: کیا یہ عجیب نہیں کہ انگریزی میں اس خطے کی کچی پکی کہانی بیان کرنے والے بین الاقوامی اعزازات حاصل کر لیتے ہیں، اور اردو میں معیاری فکشن لکھنے والوں کی کسی کو خبر نہیں!
اخلاق احمد: میں متفق ہوں۔ ایسا ہی ہورہا ہے۔ پتا نہیں یہ حکومت کی غلطی ہے، ناشر کی غلطی ہے یا ادیب کی۔ مگر افسوس ناک امر ہے کہ سو برس گزر گئے، مگر اردو لٹریچر باقی دنیا تک نہیں پہنچ سکا۔ اردو کے چھے سات ادیبوں ہی کی چیزیں ڈھنگ سے ترجمہ ہوئیں۔ ان میں بھی اکثریت ہندوستانی ادیبوں کی ہیں۔ پاکستانی ادیبوں میں شاید ایک آدھ کی تخلیقات کا مناسب ترجمہ ہوا ہو، مگر وہ بھی دنیا تک نہیں پہنچی۔

سوال: آج کل کیا پڑھ رہے ہیں؟
جواب: تامل، تیلگو اور ملیالم ادب بہت پُرقوت ہے، اس کے جو تھوڑے بہت اردو ترجمے پڑھے، وہ متاثر کن تھے۔ کوشش کر رہا ہوں کہ انگریزی میں ہونے والے ان کے کچھ تراجم حاصل کر لوں۔ پھر اطالوی ادیب ہے، Alberto Moravia۔ اس کی کہانیوں کا مجموعہ میں نے حاصل کیا تھا۔ وہ اٹلی میں موپساں جیسی حیثیت رکھتا ہے۔ میں تو اس سے شارٹ اسٹوری کی تیکنیک سیکھنا چاہتا تھا۔ وہ کیسے دو تین صفحوں میں کہانی جمادیتا ہے۔ نوجوانوں کو یہی کہتا ہوں کہ سب کچھ پڑھیں، چاہیے وہ ناقص پاپولر لٹریچر ہی کیوں نہ ہو۔ پہلے تو پڑھنے کا آرٹ سیکھیں، پھر اس سے فائدہ اٹھائیں۔

سوال: ناقدین کے کردار سے مطمئن ہیں؟
جواب: میری رائے آپ نہ ہی پوچھیں، تو بہتر ہے۔ دراصل میں سیدھی کہانی لکھنے والا ہوں۔ اپنے فکشن کے تعلق سے مجھے ناقدین کا کوئی خاص کردار نظر نہیں آتا۔ (ہنستے ہوئے) میں اپنی چیزوں میں خود کچھ تلاش نہیں کر پاتا، تو ناقدین کیا تلاش کریں گے۔ البتہ کچھ لوگ بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ جیسے ناصر عباس نیئر ہیں، محمد حمید شاہد ہیں۔ ناقد تو وہ ہے، جو میری راہ نمائی کرسکے۔ یہ مسلسل پڑھنے والے لوگ ہیں۔ اس سے پہلے ناقدین کی پوری ایک نسل ایسی گزری، جو سرے سے پڑھتی ہی نہیں تھی۔ ابھی آرٹس کونسل کی اردو کانفرنس میں ایک جید ہندوستانی نقاد نے افسانوی نشست میں اسٹیج پر کھڑے ہو کر پہلے یہ کہا کہ اردو میں ایک عرصے سے اچھا فکشن نہیں لکھا جارہا، پھر یہ کہہ دیا کہ انھوں نے کئی سال سے اردو فکشن پڑھا ہی نہیں۔ میں بھی پینل میں تھا۔ سامعین میں سے ایک صاحب کھڑے ہوکر پوچھنے لگے؛ کیا آپ نے اخلاق احمد کی کہانیاں پڑھی ہیں؟ بڑی پریشان کن صورت حال پیدا ہوگئی۔ انھیں اپنے موقف سے تھوڑا پیچھے ہٹنا پڑا۔ اس وقت اسٹیج پر زاہدہ حنا اور حمید شاہد جیسے فکشن نگار موجود تھے۔ اجمل کمال تھے۔ پھر اس اجلاس کی صدارت حسن منظر جیسے سنیئر فکشن نگار کر رہے تھے۔ میرا کہنا فقط یہ ہے کہ اگر نقاد میری راہ نمائی کرسکتا ہے، میری سوچ کا در کھول سکتا ہے، تو خوش آمدید۔ ورنہ نہ تو مجھے اپنی، نہ ہی کسی اور کی تحریر کا پوسٹ مارٹم درکار ہے۔ نہ تو مجھے درکار ہے، اور نہ ہی کہانی اس کا تقاضا کرتی ہے۔

سوال: من پسند تخلیق کاروں کا تذکرہ ہوجائے؟
اخلاق احمد: فیض صاحب بہت پسند ہیں۔ نوجوانی میں ان کے اشعار زبانی یاد تھے۔ ان کے انتقال سے ایک ڈیڑھ برس پہلے کراچی میں ان سے ایک یادگار ملاقات ہوئی۔ پھر مصطفیٰ زیدی ہیں۔ فکشن میں میں اسد محمد خان، بیدی اور کرشن چندر کا نام لوں گا۔ کرشن سے متعلق تو اپنی رائے سے رجوع کیا۔ کبھی وہ مجھے بہت پسند تھے۔ ایک وقت ایسا آیا، جب میں نے کہا؛ بھلا یہ کیسا ادب ہے، مگر پھر ان کی چیزیں دوبارہ پڑھیں، تو رائے تبدیل کرلی۔

سوال: کراچی آپ کا شہر ہے، یہیں جیون گزرا، اس کے بارے میں کچھ بتائیں؟
اخلاق احمد: کراچی سے ویسا ہی تعلق ہے، جیسے اولاد کا ماں باپ سے ہوتا ہے۔ یہ ہماری جڑوں میں بس گیا ہے۔ مجھ جیسے دو کروڑ لوگ ہیں، جو بدامنی کے باوجود یہاں سے جانے کو، ہجرت کرنے کو تیار نہیں۔ ہم یہیں رہ کر لڑیں گے، لڑ رہے ہیں۔ یہ دنیا کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ بڑے شہروں میں خاص طرح کی تیزی، گہماگہمی، پاگل پن اور مسابقت ہوتی ہے۔ یہی عوامل شہر کو بڑا شہر بناتے ہیں، یہ شہریوں کی تربیت کرتے ہیں۔ مجھے دیگر شہروں کے مقابلے میں کراچی کے بچے بچیوں میں یہ تربیت نظر آتی ہے۔

سوال: آخری سوال، عام رائے ہے کہ کراچی اپنے انفرااسٹرکچر اور اپنے ادب، دونوں معاملوں میں لاہور سے پیچھے رہ گیا ہے!
اخلاق احمد: انفرااسٹرکچر کے معاملے میں شاید پیچھے رہ گیا ہو، مگر لٹریچر کے معاملے میں دونوں ایک جیسے ہیں، بل کہ مجھے لگتا ہے کہ لاہور کی رفتار میں کمی آئی ہے، کیوں کہ ایک زمانے میں پورے ہندوستان میں لاہور فنون لطیفہ کا مرکز تھا۔ اب وہاں ادبی گہماگہمی کم ہوئی ہے۔ کراچی اور دیگر شہروں میں سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں۔

جیون کی ایک جھلک
اخلاق احمد 20 اکتوبر 1957 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ والد، شمیم نعمانی ڈیفینس آڈٹ کے محکمے سے وابستہ تھے۔ شعور کی دہلیز کراچی میں عبور کی۔ گرین وڈ اسکول، جمشید روڈ سے میٹرک کر کے نیشنل کالج کا حصہ بن گئے۔ 75ء میں گریجویشن کیا۔ اُسی برس والد کے انتقال کا سانحہ پیش آیا۔ گھرانے کو معاشی مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لیے عملی زندگی میں قدم رکھ دیا۔ ڈائجسٹوں کے لیے ترجمے کرنے لگے۔

فی صفحہ 5 روپے ملا کرتے۔ جلد تعلیمی سلسلہ بحال ہوا، 80ء میں جامعہ کراچی سے صحافت میں ایم اے کیا۔ بہ طور Apprentice ’’نوائے وقت‘‘ کا حصہ بن گئے۔ نثار زبیری سے ملاقات ’’اخبارجہاں‘‘ لے گئی۔ 85ء تا 86ء ماہ نامہ رابطہ کے سنیئر اسسٹنٹ ایڈیٹر رہے۔ کچھ عرصے پندرہ روزہ ’’الجمہوریہ‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ پھر ’’اخبارجہاں‘‘ لوٹ گئے۔ فیچر نگاری کے شعبے میں اے پی این ایس ایوارڈ اپنے نام کیا۔

90ء میں اس پرچے کا چارج سنبھالا۔ 96ء میں ایڈیٹر کی حیثیت سے نام چھپنے لگا۔ 2008 تک اُس عہدے رہے۔ پھر مین ہل ایڈورٹائزنگ کا حصہ بن گئے، جہاں اِس وقت مینیجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ 84ء میں شادی ہوئی۔ خدا نے ایک بیٹی، دو بیٹوں سے نوازا۔ ان کے افسانوی مجموعے ’’خیال زنجیر‘‘، ’’خواب ساتھ رہنے دو‘‘، ’’ہم کہ خود تماشائی‘‘ اور ’’ابھی کچھ دیر باقی ہے‘‘ کے عنوان سے شایع ہوئے۔ پانچویں مجموعے اور تراجم کی اشاعت جلد متوقع ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔