کپتان؛ نعمت یا زحمت؟

اقبال خورشید  منگل 24 مئ 2016
عمران کے متوالے اس کا الزام ن لیگ کودیتے ہیں، مگر دشمن کو وارکرنے کا موقع تب ہی ملتا ہے حضور، جب آپ کمزور ہوں۔ فوٹو: فائل

عمران کے متوالے اس کا الزام ن لیگ کودیتے ہیں، مگر دشمن کو وارکرنے کا موقع تب ہی ملتا ہے حضور، جب آپ کمزور ہوں۔ فوٹو: فائل

اگرکوئی کہے کہ عمران خان خود سے وابستہ امیدوں پر پورے نہیں اترے، تو غلط نہیں ہوگا۔

سچ یہی ہے کہ تحریک انصاف کے پلیٹ فورم سے انھوں نے تبدیلی کا جو نعرہ بلند کیا تھا، وہ اس سے انصاف نہیں کرسکے۔ عوام نے جو توقعات باندھ لی تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں۔ بدلاؤ کے خواہش مندوں کے ہاتھ فقط وعدے آئے۔کپتان نے اپنے انقلاب کو سندھ سے دوررکھنے کی شعوری کوشش کی، بلوچستان کی انھیں زیادہ پروا نہیں۔کراچی کے آٹھ لاکھ ووٹرزکے وہ مقروض۔خیبر پختون خوا میں بھی نئے پاکستان کا ظہور نہیںہوا۔ ادھر پنجاب میں انھیں ووٹ دینے والوں کو بھی دھرنوں پر اکتفا کرنا پڑا۔

تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست عوام کے لیے زحمت ثابت ہوئی؟

یہ سچ ہے کہ انھوں نے عوام کو تین ماہ ہیجان میں مبتلا رکھا۔ ڈی چوک سے نشر ہونے والی یومیہ تقاریر نے فقط تذبذب میں اضافہ کیا۔ عوام کے لیے صحیح اور غلط میں فرق کرنا دشوار ہوگیا۔ وہ احتجاج اور انتشارکو شناخت کرنے سے قاصر تھے۔ ان کے شب وروزکا محور اسلام آباد میں بیٹھے وہ صاحبان تھے، جو انقلاب کی نوید سنا رہے تھے،رائے عامہ میڈیا کے رحم وکرم پر تھی، کالم نگار پیش گوئی کے ریلے بہا رہے تھے، الزامات کی برسات تھی،دشنام طرازی عروج پر۔۔۔ مگر یہ دھرنا بے نتیجہ رہا۔ کچھ حاصل نہیں ہوا۔ پوری مشق بے مقصد نکلی۔

تو کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست عوام کے لیے زحمت ثابت ہوئی؟

یہ بھی سچ کہ گزشتہ کچھ عرصے سے پی ٹی آئی کے جلسوں میں بدنظمی کے واقعات تسلسل سے رونما ہورہے ہیں۔ عمران کے متوالے اس کا الزام ن لیگ کودیتے ہیں، مگر دشمن کو وارکرنے کا موقع تب ہی ملتا ہے حضور، جب آپ کمزور ہوں۔ تسلیم کرلیجیے کہ بدنظمی کے پیچھے آپ کی اپنی غفلت۔ خواتین کے ساتھ بدتمیزی اور بدسلوکی کے شرمناک واقعات بھی رونما ہوئے۔

پدرسری معاشرے کا وہ روپ نظرآیا، جو کبھی نابینا عورت کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی صورت ظاہر ہوتا ہے، کبھی تیزاب گردی کی صورت اورکبھی جرگے کے حکم پر جلائی جانے والی حوا کی بیٹی کی صورت۔پی ٹی آئی کے ملتان میں ہونے والے جلسے کو بھی نہیں بھولنا چاہیے، جہاں معاملہ بدنظمی، تشدد سے آگے بڑھ کر ہلاکتوں تک جا پہنچا تھا۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست عوام کے لیے زحمت ثابت ہوئی؟

عمران خان کی سیاست کا ایک منفی پہلو وہ سخت لفظی حملے بھی ہیں، جو انھوں نے مخالفین پر کیے۔اردو محاورے کا انھیں کوئی خاص ادراک نہیں،الفاظ کے انتخاب ، خیالات کے اظہارمیں بھی غیرمحتاط، بڑھکیں مارنے میں اوروں جیسے۔ پھر ایسی طرزسیاست اختیار کی، جوجمہوریت کے لیے خطرہ۔ ان ہی لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کیا، جو فرسودہ سیاست کے علم بردار۔کسی پر کرپشن کے الزامات، کسی نے قرضے معاف کروا رکھے ہیں،کسی نے آف شورکمپنیاں بنا رکھی ہیں۔ دعوے بھی خوب کیے، بیش ترکھوکھلے نکلے۔۔۔تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی طرز سیاست عوام کے لیے زحمت ثابت ہوئی؟

شاید نہیں۔۔۔معاملہ الٹ ہے۔ شاید عمران خان اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود، جذباتیت، غیردانش مندانہ فیصلوں، موقع پرست ساتھیوں کے باوجود، غیرجمہوری اپروچ کے باوجود پاکستانی سیاست کے لیے زحمت نہیں۔لاحاصل دھرنوں کے باوجود، وزیراعظم سے استعفے کے اکتا دینے والے مطالبے ، ان کے جلسوں میں خواتین سے ہونے والی بدتمیزی اور خیبرپختون خوا کو نیا پاکستان بنانے میں ناکامی کے باوجود، سندھ اور بلوچستان کو نظرانداز کرنے اورکراچی کے آٹھ لاکھ ووٹرز کا مقروض ہونے کے باوجود۔۔۔ عمران خان عوام کے لیے زحمت نہیں۔

شاید معاملہ الٹ ہے۔مک مکا کی سیاست کے سیاہ دور میں، فرینڈلی اپوزیشن کے کریہہ عہد میں، پی پی اور ن لیگ کے ایک دوسرے کی خامیوں پر پردہ ڈالنے کی مشق میں، مفادات کے لیے حکمرانوں کا ساتھ دینے والی اے این پی، ایم کیو ایم اور مولانا فضل الرحمان کی موجودگی میں۔۔۔ عمران خان کسی نعمت سے کم نہیں۔۔۔بے شک عمران خان میں لاکھ خامیاں ، مگرہمارے مفاد پرست سیاست دانوں کے درمیان، عسکری ونگ چلانے والی جماعتوں میں، کرپشن کوآرٹ کا درجہ دینے والے حکمرانوں کے دور میں، گلوبٹوں، فرقہ ورانہ جماعتوں کی سرپرستی کرنے والی پارٹیوں کے ہوتے ہوئے عمران خان۔۔۔ کسی نعمت سے کم نہیں۔

یہ عمران خان ہی ہیں، جنھوں نے گزشتہ تین برس میں حکمرانوں کی غفلتوں پر آواز اٹھائی، اُن کی خامیوں کی نشاندہی کی، سقم کی جانب اشارہ کیا۔۔۔ یہ عمران خان ہی ہیں، جنھوں نے ن لیگ کو وہ آزادی دینے سے انکار کر دیا، جو گزشتہ دور میںاپوزیشن پارٹی ہونے کے باوجود ن لیگ نے پی پی کو دی تھی اور اب پی پی ن لیگ کوفراہم کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔

یہ عمران خان ہی ہیں، جو لولی لنگڑی ہی سہی، عوام کی آواز بنے، جنھوں نے کڑے سوال اٹھائے۔ یہ عمران خان ہی ہیں، جنھوں نے اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ ن لیگ اور پی پی کا معاملہ تو یہ کہ ذرا گرمی بڑھے،اختلافات پیدا ہوں، تو معاملہ نمٹانے کے لیے ایک دوسرے کوکرپشن کی کہانیاں، ماضی کی غفلتیں یاد دلائی جاتی ہیں،کچھ آئینہ دکھایاجاتا ہے کہ’’ جناب آپ بھی ہم جیسے کرپٹ، اختیارات سے تجاوز کرنے والے، چھوڑیں جانے دیں۔آئیں، گلے ملیں!‘‘ دونوں مسکراتے ہیں، ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔

صاحبو، عزیزو، عمران خان آئیڈیل سیاست داں نہیں ، وہ بھٹو جیسے ذہن لیڈر نہیں ، ان میںنواز شریف جیسا تحمل نہیں، ویژن بے نظیر بھٹو جیسا نہیں ، وہ ان قائدین جیسے مخلص بھی نہیں، جنھوں نے تحریک پاکستان میں قربانیاں دیں، مگر گٹھ جوڑ کے اس مکروہ دور میں، جہاں مفادات کے لیے ایک دوسرے سے ہاتھ ملایا جاتا ہے، مفادات کے لیے تعلقات توڑدیے جاتے ہیں، جہاں عسکری ونگ اورگلو بٹ رکھے جاتے ہیں، اوروں کی کرپشن برداشت کی جاتی ہے کہ اپنے دامن پر داغ ہے، جہاںسیاست کا مقصد زیادہ سے زیادہ دولت کمانا ہے۔۔۔ وہاںعمران خان کی سیاست کسی نعمت سے کم نہیں۔

بدترین کے اس ہجوم میں شاید عمران خان ہی بہتر ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔