ہم کو ٹرمپ نے خط لکھا   (آخری حصہ)

نادر شاہ عادل  بدھ 23 نومبر 2016

ڈیئر جرنلسٹ! اب میری کابینہ کی تشکیل بھی زیر بحث ہے، میں نے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر، اٹارنی جنرل اور دیگر اہم عہدوں پر اپنے آدمی رکھنا شروع کردیے ہیں، اتنا تو میرا حق ہے۔

میڈیا بے پر کی اڑا رہا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں افراتفری ہے، ٹرمپ کا برادر نسبتی جارڈکشنر اور ٹرمپ کے تین بچے وہی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں جو تیسری دنیا کے حکمرانوں کے اہل خانہ عموماً کھیلتے ہیں۔ لیکن میری کابینہ سکون کے ساتھ بنے گی، اطمینان رکھیں، میرے تعاقب میں اپنے ہی ری پبلکنز خنجر بدست ہیں، مجھ سے بات کرنے والے سربراہان مملکت و حکومت میں دوڑ لگی ہوئی ہے، جاپان کے وزیراعظم سے بات ہوئی ہے، پوتن سے ہوگی، سعودی عرب کے حرمین شریفین کا قرب حاصل کروں گا۔

اگرچہ وہ دھمکی دے چکے ہیں، مگر ٹرمپ خود ایک بین الاقوامی دھمکی ہے۔ مجھ سے برا پھڈے باز کون؟ ایم آئی رائٹ؟ کشمیر کے قاتل مودی کو گلے لگاؤں گا، اس کی چمّی لوں گا۔ میرا پاکستان سے کیا ٹاکرا ہو گا، اس راز کو ابھی رہنے دو۔ پاکستان ہمارا بااعتماد حلیف اور جگری یار ہے، یہ میں سنتا رہا ہوں، اب دیکھوں گا، پرکھوں گا، اس کے بشیر ساربان سے نہ مل سکا، آیندہ کسی ٹرک ڈرائیور سے ملاقات کروں گا، لیکن ایک بات پاکستانی حکمراں یاد رکھیں کہ ٹرمپ سے ڈبل گیم نہیں چلے گا، دہشتگردی کو مل کر ختم کرنا ہوگا۔

یورپین رفقا سے کھلی بات چیت ہوگی، چین تعاون کی بات کررہا ہے، یوکرین کے پیٹرو شنکو نے بات کرتے ہوئے فریاد کی کہ ہمیں پوتن سے بچاؤ۔ سب سے مکالمہ ہوگا۔ شام میرے ایجنڈہ میں ٹاپ پر ہے، بشارالاسد کو ساتھ لے کر چلوں گا، داعش کے دن گنے جاچکے۔ کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔

اب آیے۔ میڈیا کے کچھ برہم و بیزار دوستوں کی سنتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ نے اپنا طرز سخن اچانک بدلا ہے، وہ طائر شیریں دہن بننے کے چکر میں ہے، اسے اپنی انتظامیہ کے تقریباً 4 ہزار افراد کی تقرری کا فیصلہ کرنا ہے اور ابھی سے پریشان ہے، کچھ ساتھی ٹرمپ کی آمریت سے تنگ آکر چلے گئے، کچھ جانے کو تیار بیٹھے ہیں، یہاں بھی ٹرمپ لیکس کا معاملہ لگتا ہے، ڈونٹ وری، مسٹر شاہ! نظام میں شیک اپ کروں گا، نائب صدر مائیک پنس میرا ساتھی اور ہم خیال ہے، اوباما ایڈمنسٹریشن سے ٹرانزیشن میں اس کا کردار اہم ہے، عقابی نظر رکھتا ہے۔

صحافی حضرات و خواتین اور الیکٹرانک میڈیم والے مجھ سے سخت ناراض ہیں، ان کا مطالبہ ہے کہ اپنی نقل و حرکت کا ہمیں پہلے بتادو، چھپ چھپ کے وارداتیں نہیں کرنے دیں گے۔ یو ایس اے ٹوڈے کی ایک اشاعت میں انکشاف ہوا کہ ٹرمپ کو ایک اخلاقی مسئلہ درپیش ہے، اور وہ اس کے مالی اور بزنس مفادات ہیں۔ امریکی فیڈرل قوانین کے تحت کسی صدر پر کاروبار کرنے کی بندش نہیں مگر اندیشہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ صدر آئین کے تحت کاروباری تنازع میں الجھنے سے باز رہیں تو بہتر ہے، بزنس انٹرسٹس کبھی بھی مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔ ایسا آج کی سیاسی دنیا میں کئی بار ہوا ہے، حکمراں گھر بھیجے جا چکے ہیں، بعض نے استعفیٰ دیا ہے۔

کرپشن کے خلاف جو کچھ ہورہا ہے، میں اس سے واقف ہوں، بھولا بادشاہ نہیں ہوں۔ ویسا ہی امریکی و یورپی بازار سیاست گرم ہے، قدم قدم پر دہشتگرد موجود ہیں، پھونک پھونک کر قدم رکھنا ضروری ہے، آپ کے پاکستان میں دہشتگردی ہے، مجھے معلوم ہے، نواز شریف پھنسے ہیں، کیس چل رہا ہے، میری ٹرمپ یونیورسٹی کا ٹرائل چل رہا ہے، یار لوگ اسے جعلی یونیورسٹی کہتے ہیں، اخبارات شور مچاتے ہیں کہ ٹرمپ کی جامعہ کا کوئی ذکر نہیں کرتا، یہ بھی ایگزیکٹ کی جعلی ڈگری کی طرح کا واقعہ ہے، ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ صدر بننے کے بعد کوئی آئینی گیم کھیل کر اپنی جان چھڑا لے گا۔

میرے دوست! نکتہ چین حلقوں سے ہٹ کر بعض نظروں پہ میرا سوز حکیمانہ بھی کھلا ہے، وہ حرف محرمانہ جو مجھ خاکسار کے لیے ادا ہوئے ہیں، ان کا مشکور ہوں، ذرا ان کی گونج سنیے۔ کسی نے کہا کہ الیکشن کے بعد ٹرمپ کی جیت سے سفید فام اکثریت معذرت خواہانہ گوشۂ گمنامی اور ہچکچاہٹ کے خول سے باہر آئی ہے، اس نے سیاہ فاموں سے زیادتی کے الزامات سن سن کر جس اعتراف جرم کے ساتھ صدارتی انتخابات میں ووٹ دیے، اب ٹرمپ نے انھیں اس احساس کی اذیت سے آزاد کردیا ہے، ان میں خیالات کی تازگی آئی ہے، وہ خود کو امریکی فاتح سمجھتے ہیں، تنگ نظر قوم پرستی کے دھارے سے نکل آئے ہیں۔

یہی میری جیت ہے، میں نے امریکی قوم کی یاسیت زدہ اکثریت کی نبض پر ہاتھ رکھا، اس سے کہا کہیے کہیے مجھے برا کہیے، لیکن اپنے غم مجھے دے دو۔ اور اس اکثریت نے سارے ووٹ مجھے دے دیے، یہ غمزدہ ووٹ امریکی سٹیبلشمنٹ کی سفاکی اور بے حسی کے خلاف برہم و بے روزگار امریکیوں کے اجتماعی اضطراب کی پرچیاں ہیں۔

گزشتہ روز مجھے ایک بیان نظر آیا کہ ٹرمپ کی جیت امریکی شناخت کا سنگ میل ہے جب کہ میرے مخالفین کی سوچ یہ ہے کہ مجھے ملنے والا ووٹ تعصب، نفرت، لسانی گراوٹ اور اخلاقی پستیوں کے زہر میں بجھا ہوا ووٹ ہے۔ ایک طبقہ کہتا ہے اب امریکا میں دائیں بازو کے سفید فامی امتیاز کا دور آگیا ہے، جب کہ امریکی مدبرین کا کہنا ہے کہ سفید فام لوگوں کا خود سے نفرت کا احساس ایک بیماری ہے۔ اس کا ذمے دار میں نہیں ہوں۔

دیکھیے کو کلس کلاں (kkk) نامی نسل پرست تنظیم میری جیت کی خوشی کا جشن منانے کا اعلان کرچکی ہے، کچھ کا خیال یہی ہوگا کہ ٹرمپ کا ’’پیسہ‘‘ بول رہا ہے۔ ایک ناقد نے کیا شاندار طمانچہ مجھے رسید کیا ہے کہ ٹرمپ کا آنا ایسا ہے جیسے پرامن نسلی صفائی ’’ریشئل کلینسنگ‘‘ اور تارکین وطن کے خلاف پراکسی وار کا طبل بجنے والا ہے۔ کوئی اس بات کا حامی ہے کہ آیندہ چار سال میں تشخص کی سیاست ہوگی۔

نیشنل پالیسی انسٹیٹیوٹ کے سربراہ رچرڈ اسپنسر نے کہا ہے کہ سیاست دانوں اور میڈیا نے امریکی سیاہ فام کو فریب کارانہ انداز میں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنی غلطی پر نادم ہوں، جب کہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی وجہ سے نسلی رعونت کا سیاہ فاموں، ایشیائی اور مسلم کمیونٹیز میں احساس جاگ اٹھا ہے۔ ٹرمپ کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے یاد دلایا کہ سفید فام نسلی تفاوت اور عدم مساوات کے ستم رسیدہ تھے، اب وہ کثرت پسندی کے نئے مفاہیم کے احساس کو اجاگر کرنے کے لیے نئی توانائی کے ساتھ سامنے آئے ہیں۔

کیلیفورنیا والے مجھ سے سخت ناراض ہیں، ان کی ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ایک صدارتی انتخاب سے ہم اپنی اقدار کو ملیامیٹ نہیں ہونے دیں گے، کیلیفورنیا ٹیکساس نہیں بنے گا، ہم فائٹ کریں گے، ٹرمپ کیا چیز ہے۔ کہیں سے یہ صدا بھی سنی کہ ٹرمپ پرلے درجے کا بد تمیز سہی مگر اس نے امریکیوں کو ’’چانس‘‘ دیا ہے۔ ایک دوشیزہ کرسٹین بولان نے اچھی بات کی کہ میں نسلی حوالہ سے کول cool ہوں، مگر اوباما کو ووٹ دے کر پچھتا رہی ہوں کہ اس چمتکار نے ہمیں دھتکار کر کالوں کو دل سے لگالیا۔

میرے پاکستانی دوست! اس طرح کے ہزاروں ہیں شکوے، کیا کیا بتاؤں، یار زندہ صحبت باقی۔ اگر زندگی نے وفا کی اور وائٹ ہاؤس کی فضا اور اس کی بیوروکریسی نے تعاون کیا تو دنیا ٹرمپ کے کام دیکھ لے گی، ورنہ کیا۔ آنکھ سے دور دل سے دور۔

آپ کا ڈونلڈ ٹرمپ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔