روح کی ہریالی

شبنم گل  جمعرات 29 دسمبر 2016
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

دنیا بھر میں دسمبر میں مذہبی و ثقافتی تہوار منائے جاتے ہیں۔ مل بیٹھنے اور خوشی منانے کا اچھا موقع مل جاتا ہے۔ موسم کی مناسبت سے کھانے ہوں یا جشن، تمام سال کی تھکن اتار دیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں خاص طور پر صوفی شاعروں اور بزرگوں کے مزاروں پر میلے لگائے جاتے ہیں۔ جس کا مقصد میل ملاپ، یا سیرسپاٹا ہے۔ ہجوم نے ہمیشہ سماجی روابط، مذہبی معلومات، ذہنی ہم آہنگی، ماضی کی آگہی و ثقافتی شعور کو فروغ دیا ہے۔ آج کل ادبی میلوں کا رجحان بڑھا ہے۔

کراچی لٹریچر فیسٹیول، لاہوت میلہ، شیخ ایاز میلہ، حیدرآباد لٹریچر فیسٹیول اور سندھ لٹریچر فیسٹیول وغیرہ۔ اس سال بھی خانہ بدوش کیفے رائٹرز کی روح رواں امر سندھو اور ان کی فعال ٹیم نے شیخ ایاز میلے کا انعقاد کیا۔ مختلف ادبی نشستوں میں شیخ ایاز کے فن و فکر و شخصیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی۔ آج پروگرام کی آخری رات ہے۔ لمحے رات کی رانی کی طرح مہک رہے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔

اس محفل موسیقی میں سندھ کے معروف فنکار شرکت کر رہے ہیں۔ سندھ کے فن و فکر اور ذہنی آگہی میں شاعری کا اہم کردار رہا ہے۔ چاہے صوفی مکتبہ فکر ہو یا دور جدید کے شاعر اپنی دھرتی سے جڑے ہوئے ہیں جو اپنی زبان اور تہذیبی ورثے کو تخیل کے سفر میں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ شیخ ایاز نے بائیس سال کی عمر میں انگریز سامراج کے خلاف بامعنی اشعار لکھ کر، سندھ کے شعور میں ہلچل مچا کے رکھ دی۔ شیخ ایاز کو مزاحمتی شاعری کے جواب میں جیل بھی جانا پڑا۔ شیخ ایاز کا شمار سندھ کے ممتاز وکیلوں میں تھا۔ یہ سندھ کا ایک ایسا پڑھا لکھا شاعر ہے جس نے غیر ملکی ادب کے حوالے دے کر باہر کی دنیا کی طرف کھڑکی کھول دی۔

یہ سندھ کی فکری ارتقا کا ایک ایسا دور تھا، جس نے ون یونٹ کے پس منظر میں خوب فن و فکر کے دیپ جلائے۔ جی ایم سید، رسول بخش پلیجو، ابراہیم جویو، سوبھوگیان چندانی، حیدر بخش جتوئی، قاضی فیض محمد، شیخ ایاز، حفیظ قریشی، امر جلیل اور تنویر عباسی کا شمار ان دانشوروں میں ہوتا ہے جن کے علم و افکار نے ترقی پسند سوچ کا بیج ذہنوں میں بویا۔ جو آگے چل کر ادب کے گلستان میں تبدیل ہو گیا۔ جدید سندھ کے دانش کدے میں آج روح کی ہریالی محسوس کی جاسکتی ہے۔

دنیائے ادب سے استفادہ کرنے کے ساتھ شیخ ایاز نے سندھ کے مختلف خطوں کا رومانوی تاثر خوبصورتی سے بیان کیا۔ سندھ کی مخفی حسن کو کسی مصور کی آنکھ کی طرح دریافت کیا۔ اس احساس کا جوہر قاری کی روح کو سرشار کر دیتا۔

یہ حقیقت ہے کہ شیخ ایاز کا مطالعہ وسیع تھا۔ ان کے تخیل میں صوفی شعرا و قدیم ورثے کی منفرد جھلک آتی ہے۔ حالانکہ جدت ہمیشہ اپنے راستے کا انتخاب خود کرتی ہے۔ لیکن ماضی بنیاد فراہم کرتا ہے، جس سے انحراف ناممکن ہے۔ فن و فکر میں جدت کے ساتھ، انفرادیت اس وقت آتی ہے جب آپ اپنی خالص قدروں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ ابراہیم جویو کے حوالے سے شیخ ایاز لکھتے ہیں ’’ابراہیم جویو نے مجھ پر ایک نئی دنیا کے دریچے وا کر دیے تھے۔ پرانی دنیا کے سارے بام و در گر کر ڈھیر ہو چکے تھے اور میرے لیے ماضی کی ہر زنجیر کو توڑ کر آگے بڑھنے کے لیے راستہ نکل چکا تھا۔ میری اور اس کی دوستی رومی اور شمس تبریز والی تھی، جس نے رومی کی کتابوں پر نگاہ ڈالی تھی تو ان میں آگ لگ گئی تھی۔‘‘

شیخ ایاز نے مختلف موضوعات پر طبع آزمائی کی۔ یہ مختلف موضوع شاعر کو سفر کے دوران ملتے۔ شاعر کی آنکھیں ہر پل خوبصورتی کو کھوجتی ہیں۔ عام مناظر کو چھو کر، لفظوں میں امر کردیتی ہیں۔ ایک عام منظر بھی اچھوتا خیال بن جاتا ہے۔ جیسے یہ اچھوتا خیال:

’’چاند کو چکور کی نظر سے دیکھو گے

تو تمہیں چاند کے چہرے کے داغ نظر نہیں آئیں گے‘‘

شاعر کے دل کی دنیا عجب ہے۔ اس کی حساسیت اور پرکھ کا انداز جداگانہ ہے۔ خوبصورتی باہر کمال کی ہے، یا تو شاعر کا دل اس قدر خوبصورت ہے کہ اسے ہر سو حسن کے مختلف زاویے دکھائی دیتے ہیں۔ آنکھوں کے حسن کو بیان کرتے ہوئے ایاز کہتے ہیں:

’’میں نے اس جیسی خوبصورت آنکھیں نہیں دیکھیں۔ کوہ ندا کی صدا جیسی آنکھیں، فنا فی الوجود جیسی آنکھیں، سرمد کے کلمے جیسی آنکھیں۔‘‘

رات کے پچھلے پہر کی شیخ ایاز کی زندگی میں بڑی اہمیت تھی۔ شاعر رات کے تین بجے اٹھتا اور صبح تک کہیں بھی اس کا قلم نہ تھکتا۔ عمر کے آخری حصے میں شیخ ایاز نے دل کی بیماری کا مقابلہ کرتے ہوئے مستقل لکھا۔

شیخ ایاز نے عمر کے آخری حصے میں موت کا بہت ذکر کیا ہے۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو زندگی سے متعلق کئی سوالات شاعر نے اٹھائے ہیں۔ لفظ، راز ازل کو کھوجتے رہے تمام عمر۔ صوفیوں کا مطالعہ کیا مگر تصوف کو کارآمد نہیں سمجھتے تھے۔ کائنات کے حسن کے آگے سرنگوں تھے مگر خالق کا تصور مبہم تھا۔ مگر مشاہدے، تجربے نے عمر کے آخری حصے میں، خالق کی خالی تصویر میں یقین کے رنگ بھرنے شروع کیے۔ یہ بھی فرمایا کہ ’’رات کے پچھلے پہر کائنات کسی ازلی شاعر کے گیت سے گونجتی ہے۔‘‘ مگر شاعر کو عمر بھر ان کے الفاظ ڈھونڈتے رہے۔ ایک جگہ یہ بھی کہا ’’اگر میں تم سے کہوں کہ میں نے خدا کو دیکھا بھی ہے اور نہیں بھی دیکھا تو تم مجھ کو پاگل سمجھو گے، مگر میں بھی تمہیں عقل مند نہیں سمجھوں گا۔‘‘

عمر کے آخری دور میں ہونے اور نہ ہونے کا گمان رہا۔ پھر نفی میں اثبات کو سوچتا رہا شاعر کا دل۔

ہر تخیل کا کوئی نہ کوئی خالق ہے۔ ہر خواب کی کوئی نہ کوئی تعبیر ہے۔ ہر خیال اپنے محور کے گرد گھومتا ہے۔

آنکھیں بند کرلینے سے روشنی کا وجود ختم نہیں ہوتا بلکہ ذہنی کیفیت بدل جاتی ہے۔ لہٰذا ہر خیال، ذہنی کیفیت کا ترجمان ہے۔ ذہنی کیفیات بدل جاتی ہیں، سوچ کا ہر زینہ اہم ہے، خیال کا زینہ نکالتے ہی تصور ہواؤں میں معلق ہوجاتا ہے۔ آپ ایک خیال کو رد کریں اور نیا زاویہ اپنالیں۔ واہمہ بھی بدل جاتا ہے اور حقیقت بھی ایک سی نہیں رہتی۔ لیکن شاعر ان سب کے درمیان رہتے ہوئے اپنے ادراک کی قوت سے منزل کے نشان ڈھونڈ نکالتا ہے۔

موت بھی زندگی میں سانس لیتی ہے

آج آخری دن ہے ایاز میلے کا۔ موسیقی کی باری ہے۔ حیدرآباد کی رات، رانی کی طرح مہک رہی ہے۔ شاعری براہ راست زندگی کے ساتھ رابطہ کرتی ہے اور موسیقی مزاج پر اثرانداز ہوتی ہے۔ تحلیل نفسی جیسا اثر موسیقی کی دنیا کے حوالے سے سندھ کو کئی معتبر نام ملے۔ استاد منظور علی خان، استاد فتح علی خان، محمد جمن، محمد یوسف، عابد، پروین، علن فقیر، مظہر علی حسین، ذوالفقار علی وغیرہ۔

اس وقت فنکار راشد حیدری نے سماں سا باندھ دیا ہے۔ کلاسیکی رنگ ماحول پر چھا گیا۔ نوجوان نسل بھی کلاسیکل موسیقی کو سمجھتی ہے۔ رفیق فقیر، ستارنواز شاہد حسین، فرح دیبا اور بیدل مسرور نے سماں باندھ دیا۔ شیخ ایاز کے کلام کو ان فنکاروں نے جذبے کے تحت گایا۔ سامنے شیخ ایاز کی بیٹی ڈاکٹر روحی بھی موجود تھیں۔ ان کی آنکھوں میں آخر تک آنسو جھلملاتے رہے۔

شاعر، مشاعرے، مچ کچہری میں سگھڑ لوگوں (اہل ہنر) کا شعر پڑھنا۔ جنھیں برزبانی صوفی کلام یاد ہوتا ہے اور میلے سندھ کے فن و فکر اور اجتماعی سوچ پر مستقل اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ سندھ کے مزاج کو تبدیل کرنے میں موسیقی کے خالص رنگ کا بھی اہم حصہ ہے۔ یہ پانچ ہزار سال پرانی گہری اور پراسرار زمین اپنے اندر فن و فکر کا انمول ورثہ سمیٹے ہوئے ہے۔ جس کی سمجھ، ذہن کو جلابخشتی ہے۔ روح کا چراغ روشن رکھتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔