سماہنی وادی کی خوبصورت پوشیدہ آبشار

محمد کاشف علی  منگل 3 جنوری 2017
 شہر سے تھوڑی دوری کے سفر کے بعد چیڑ کے درختوں کی سوندھی سوندھی خوشبو آپ کا والہانہ استقبال کرتی ہیں اور آپ جنڈی سے آگے بل کھاتی سڑک پر چیڑ کی چھاؤں میں سفر کرتے ہیں

شہر سے تھوڑی دوری کے سفر کے بعد چیڑ کے درختوں کی سوندھی سوندھی خوشبو آپ کا والہانہ استقبال کرتی ہیں اور آپ جنڈی سے آگے بل کھاتی سڑک پر چیڑ کی چھاؤں میں سفر کرتے ہیں

ہمالیہ کو دنیا کا ’نوجوان‘ پہاڑی سلسلہ کہا جاتا ہے جو بلا شُبہ عمر میں کم ہے پر جسامت و ضخامت میں دنیا بھر کے پہاڑی سلسلوں سے طویل القامت ہے، جو مغرب میں بونجی (گلگت کا جنوبی نواحی علاقہ) سے شروع ہوتا ہے تو پھر مشرق کو چلتا ہی جاتا ہے، نہ یہاں سیاسی سرحد بندی نظر آتی نہ پاسپورٹ کا بکھیڑا اور نہ ہی کوئی اِس کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔ پاکستان سے کشمیر (پاکستانی و بھارتی)، بھارت، نیپال اور بھوٹان تک ہمالیہ نے اپنے کوہستانی بازو پھیلا رکھے ہیں۔

ہمالیہ کی ہی گود میں دنیا کی خوبصورت وادیاں ہیں۔ وادیاں کیا ہیں، بس اپسراؤں کی راجدھانیاں ہیں۔ پاکستانی کشمیر کے ضلع بھمبر کی سماہنی وادی بھی انہی میں سے ایک ہے۔ سماہنی وادی پائین ہمالیائی زون میں ہے تو بہت زیادہ بلندی پر نہ ہونے کی وجہ سے اتنی سرسبز نہیں جتنی وادیِ نیلم یا پونچھ و باغ کی وادیاں ہیں اور اسی وجہ سے سیاحوں کی دلچسپی وادی سماہنی میں ثانوی حیثیت رکھتی ہے، لیکن یہی تو اِس وادی کی خوبصورتی ہے کہ بے ہنگم و بے ترتیب سیاحوں کی دست بُرد سے مکمل طور پر محفوظ ہے اور اِسی بناء پر خالص ہے۔

سماہنی وادی کا دل موہ لینے والا ایک منظر، فوٹو: محمد کاشف علی

سیاحوں کی کم توجہ کی وجہ سے سماہنی وادی کے نشیب و فراز کافی حد تک پوشیدہ ہیں اور انہی نشیب و فراز میں سماہنی وادی کی اپسرا جنڈالہ آبشار نے خود کو پہاڑی کنگرے کی اوٹ میں چھپا رکھا ہے۔ بھمبر شہر کے شمال میں آپ کو کوئی تیس، پینتس کلومیٹر کا سفر طے کرکے سماہنی چوکی بازار پہنچنا ہے، خیال رہے آپ نے سماہنی نہیں سماہنی چوکی بازار پہنچنا ہے۔

سماہنی وادی کے چیڑ کے سائے، فوٹو: محمد کاشف علی

جیسے ہی آپ بھمبر شہر کو چھوڑتے ہیں تو پہاڑ اپنا رنگ ڈھنگ بدلتے جاتے ہیں، یکلخت اوپر کو اٹھتے ہیں اور شہر سے تھوڑی دوری کے سفر کے بعد چیڑ کے درختوں کی سوندھی سوندھی خوشبو آپ کا والہانہ استقبال کرتی ہیں اور آپ جنڈی سے آگے بل کھاتی سڑک پر چیڑ کی چھاؤں میں سفر کرتے ہیں، یہاں فطرت نے آپ کے لئے موسیقی کا بھی خیال رکھا ہے کہ پکھیرو، چیڑ اور ہواؤں کا تال میل کسی بھی موسیقی سے کہیں بہتر ہے۔

چیڑ کا جنگل، فوٹو: محمد کاشف علی

سماہنی چوکی بازار سے بس آٹھ ، دس کلومیٹر کی مسافت پر جنڈالہ نامی گاؤں پر لبِ سڑک ہی ہے اور وہاں اگر آپ ذاتی سواری پر آئے ہیں تو پارک کرنا پڑے گی، کیونکہ تقریباً دو کلومیٹر کی ٹریکنگ آپ کو جنڈالہ آبشار سے ملوا دیتی ہے۔ آپ سڑک سے دائیں (مشرقی) طرف بنے سنگی زینوں سے نیچے وادی کو اترے ہیں اور برجاہ پنیاری کے 1993 کے بنے پُل پر جھولا جھولتے وادی سے اتصال کرتے ہیں۔

بھمبر سماہنی بل کھاتی سڑک، فوٹو: محمد کاشف علی

یہاں آپ اکیلے نہیں چلتے بلکہ آپ کے ساتھ ساتھ کشمیر کی وادیوں کا ٹھنڈا اور شفاف پانی بصورتِ ندی آپ کا ساتھ دیتا ہے۔

آبشار سے گرتا پانی، فوٹو: محمد کاشف علی

یہاں پہنچ کر منرل پانی کی بوتل بہت ہی حقیر لگتی ہے۔ ایک بار پانی کیا پیا جائے بس پھر دل ہی نہیں بھرتا۔ داغستان کے لوک شاعر حمزہ سدا نے کہہ رکھا ہے،

’’زندگی میں جُھکو تو بس دو بار، شاخ پر کِھلا پھول توڑنے کے لئے یا پھر چشمے کا پانی پینے کے لئے وگرنہ جُھکنا بے مقصد و بیکار ہے‘‘۔

ندی کو یا تو آپ پتھروں پر پاؤں جما کر عبور کرتے ہیں یا اُس کو مکمل محسوس کرنے کے لئے اُس میں اُتر کو اُس کو عبور کرتے ہیں۔ یہ بڑی بیبی سی ندی ہے خوف کی کوئی بات نہیں۔ نہ اُس کی گہرائی ہے نہ چوڑائی۔ بس یہ سمجھ لیجئے کہ یہ ندی ہونے کا مان ہی پورا کرتی ہے۔

برجاہ پنیاری کا معلق پل، فوٹو: محمد کاشف علی

تھوڑا آگے چل کرندی کے بائیں (مغربی) طرف ایک کٹی پہاڑی اپنی ہئیت کی وجہ سے خود بخود نظر میں اُتر سی جاتی ہے، اور بس یوں لگتا ہے کسی بیتے زمانے کے پرانے قلعے کی بوسیدہ ڈھے جانے والی دیوار ہو۔ بس اِسی فصیل نما دیوار کے سائے سے مغربی جانب مڑ جائیں۔ یہاں وادی تنگ ہوجاتی ہے اور آپ ایک پہاڑی درے میں چلتے ہیں اور چند قدموں کے بعد آپ جنڈالہ آبشار کو اپنے سامنے پاتے ہیں۔ اوپر پہاڑی کنگرے سے نیچے گرتی آبشار کا منظر ہی الگ ہے۔ اگرچہ آبشار بہت زیادہ بلندی سے نہیں گرتی مگر اسکا محلِ وقوع اسے عام سے خاص بناتا ہے۔

جنڈالہ آبشار، فوٹو: محمد کاشف علی

 

یہاں کی ایک اور خاص بات یہ کہ یہاں کیمپنگ بھی کی جاسکتی ہے، کیونکہ یہ جگہ آبادی سے دور اور پہاڑ کی اوٹ میں ہے۔

پیر پہاڑ بادشاہ سے سماہنی وادی کا ایک نظارہ، فوٹو: محمد کاشف علی

کھانا پکانا بھی کوئی مسئلہ نہیں کہ پانی وافر مقدار میں موجود ہے۔ جس فصیل نما کٹی پہاڑی کا اوپر تذکرہ ہوا وہاں سے ابھرتے یا غروب ہوتے سورج کا نظارہ اور عکاسی بھی کی جاسکتی ہے۔

جنڈالہ سے غروبِ آفتاب کا نظارہ، فوٹو: محمد کاشف علی

خشک سالی کہ وجہ سے آبشار میں پانی کا بہاؤ ہمیں تو کم ملا مگر مقامی راہنما سیف اللہ کشمیری کا کہنا تھا کہ گرما میں خاص طور مون سون میں آبشار اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ جنڈالہ آبشار کی دریافت کا سہرا سماہنی چوک بازار کے سیف اللہ کشمیری کے سر جاتا ہے جو بِنا کسی اداراتی مدد کے گزشتہ کئی برسوں سے سماہنی کی سیاحت کے فروغ کا نہ صرف خواب دیکھ رہے ہیں بلکہ اپنا مقدور بھر حصہ بھی ڈال رہے ہیں۔ وہ سماہنی کے پوشیدہ مقامات کو پہلے خود میلوں میل چل کر دریافت کرتے ہیں پھر پاکستان بھر سے اپنے دوستوں کو راغب کرتے ہیں اور پھر خود ہی رہنما بن کر ساتھ چل پڑتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ سیف اللہ کشمیری سماہنی کا ابنِ بطوطہ ہے اور ان سے زیادہ شاید ہی کوئی سماہنی کو جانتا ہو۔

جنڈالہ آبشار کی راہ میں ایک ننھی ٹریکر، فوٹو: محمد کاشف علی

یوگی بابا نے کہا تھا کہ پہاڑ انسان کے اندر تک بڑی خاموشی سے اتر تو جاتے ہیں مگر ہر دو، تین ماہ بعد اندر وہ بلا کا شور مچاتے ہیں کہ ایک اصیل نسل کے خانہ بدوش کو پہاڑوں سے ملنا ہی پڑتا ہے، تو سماہنی سے میرا ملنا اصل میں میرے اندر کا شور تھا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
محمد کاشف علی

محمد کاشف علی

محمد کاشف علی یونیورسٹی آف گجرات ، پنجاب میں شعبہ تاریخ سے بحیثیت لیکچرار منسلک ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔