میری ماں چلی گئی، اب مجھے سڑکوں سے کوئی سروکار نہیں!

قیصر اعوان  بدھ 4 جنوری 2017
اب میں آپ کے مریض کے لئے اپنے گھر سے تو بستر لاکر بچھانے سے رہا۔ آپ کو یہاں زیادہ پریشانی ہو رہی ہے تو آپ کسی پرائیویٹ اسپتال میں کیوں نہیں چلے جاتے؟ فوٹو: ایکسپریس

اب میں آپ کے مریض کے لئے اپنے گھر سے تو بستر لاکر بچھانے سے رہا۔ آپ کو یہاں زیادہ پریشانی ہو رہی ہے تو آپ کسی پرائیویٹ اسپتال میں کیوں نہیں چلے جاتے؟ فوٹو: ایکسپریس

’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو اللہ کا واسطہ ہے میری ماں کو اندر وارڈ میں شفٹ کردیں، یہاں زمین پر لیٹی لیٹی تو یہ ویسے ہی ٹھنڈ سے مرجائے گی۔‘‘ ہاجرہ نے سرکاری اسپتال کی راہداری میں لیٹی اپنی ماں کی طرف ڈاکٹر کی توجہ دلاتے ہوئے مِنت کی۔

’’اوہ بی بی! میں آپ کو سو بار بتا چُکا ہوں کہ وارڈ میں بالکل بھی جگہ نہیں ہے، پہلے ہی ایک بیڈ پر دو دو مریض پڑے ہیں آپ کے مریض کو کہاں سے بیڈ لاکر دے دیں؟‘ ڈاکٹر صاحب نے جھلّا کر کہا۔

’’مگر ڈاکٹر صاحب! میری ماں بہت بیمار ہے اور پچھلے چار گھنٹے سے ٹھنڈے فرش پر لیٹی ہوئی ہے، آپ اُسے کسی دوسری مریضہ کے ساتھ ہی لِٹا کر اُس کا علاج شروع کردیں ورنہ یہ مرجائے گی۔‘‘ وہ بڑی مشکل سے آنسو ضبط کرتے ہوئے بولی۔

’’اُن کا علاج جاری ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو نرس نے اُنہیں درد کا انجکشن دیا ہے، تھوڑا وقت تو لگے گا ناں طبیعت سنبھلنے میں۔‘‘

’’مگر ٹھنڈ کی وجہ سے اُن کی طبیعت مزید بگڑ رہی ہے، آپ اُن کے لئے کسی بیڈ کا بندوبست کردیں۔‘‘ وہ ڈاکٹر کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔

’’بی بی! میں آپ کو کس زبان میں سمجھاؤں کہ بیڈ نہیں ہے، اب میں آپ کے مریض کے لئے اپنے گھر سے تو بستر لاکر بچھانے سے رہا۔ آپ کو یہاں زیادہ پریشانی ہو رہی ہے تو آپ کسی نجی اسپتال میں کیوں نہیں چلے جاتے؟ وہاں آپ کوبیڈ بھی ملے گا اور پروٹوکول بھی۔‘‘ ڈاکٹرصاحب نے تلخ لہجے میں طنز کیا۔

’’ہم غریبوں کے پاس اتنے پیسے ہوتے تو اتنا لمبا سفر کرکے یہاں کیوں آتے، ڈاکٹر صاحب؟ یہ اتنا بڑا اسپتال ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پورے اسپتال میں کوئی خالی بیڈ موجود نہ ہو، آپ کوشش تو کرکے ۔۔۔‘‘ ڈاکٹر صاحب اُس کا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے ہی وارڈ میں داخل ہوگئے اور ہاجرہ بیچاری بے بسی سے اپنی ماں کے پاس ہی فرش پر دوبارہ بیٹھ گئی جو نیم بے ہوشی کی حالت میں سردی سے کانپ رہی تھی۔

’’کس کے پاس جاؤں، امّاں! یہاں کوئی سُنتا بھی تو نہیں ہے، نرسیں کہتی ہیں کہ ڈاکٹرسے بات کرو یہ ہماری ڈیوٹی نہیں ہے اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہم کیا کریں۔ میں اب تمہیں کہاں لے جاؤں، میرے پاس بیسے بھی تو نہیں ہیں۔‘‘ وہ اپنی ماں کی تکلیف اور اپنی بے بسی پر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔

’’ڈاکٹر صاحب! کیا ہوا کوئی بیڈ کا بندوبست؟‘‘ جیسے ہی ڈاکٹر صاحب وارڈ سے باہر نکلے وہ دوبارہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے کھڑی ہوگئی مگر ڈاکٹر صاحب نے اِس بار اُس کی بات کا جواب دینا بھی گوارا نہ کیا اور وہاں سے چلے گئے۔ ہاجرہ بیچاری کیا کرتی، اپنی ماں کی تکلیف اُس سے برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ اپنی بے عزتی کی پرواہ کئے بغیر وہ بار بار کبھی نرسوں کی منتیں کرتی تو کبھی ڈاکٹروں کی، اُس نے ہر اُس شخص کے آگے فریاد کی جس کا اسپتال سے کوئی تعلق تھا، یہاں تک کہ اُس نے اسپتال میں صفائی پر مامور عملے کے افراد کے آگے بھی ہاتھ جوڑے مگر کچھ نہ ہوا۔

اب وہ اپنے گاؤں واپس جارہی تھی۔ بس میں بیٹھا کوئی شخص لاہور شہر کی کشادہ سڑکوں کی تعریف کررہا تھا تو کوئی میٹرو بس سروس کو سراہ رہا تھا۔ کوئی پنجاب میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا معترف تھا تو کوئی اورنج لائن ٹرین کو ترقی کا ضامن قرار دے رہا تھا۔ کسی کو اِس بات کی خوشی تھی کہ جگہ جگہ بننے والے فلائی اوورز اور انڈر پاسز نے ٹریفک کے مسائل حل کر دیئے ہیں تو کوئی شہر میں ہونے والے صفائی ستھرائی کے انتظام کو حکومت کی سب سے بڑی کامیابی قرار دے رہا تھا، مگر ہاجرہ کو اِن سب باتوں سے کوئی غرض نہیں تھی، کیونکہ اُس کی ماں کی تابوت میں بند لاش تو بس کی چھت پر پڑی تھی جو صوبائی دارالحکومت کے ایک بڑے اسپتال میں صرف بیڈ نہ ملنے کی وجہ سے سخت سردی میں ٹھنڈے فرش پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرگئی تھی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔