وحشت کی فصل اور قومی بیانیہ

مبین مرزا  اتوار 5 مارچ 2017
آج کا ایک چھوٹا سا واقعہ گزرے ہوئے کل کی بڑی بڑی باتوں کو عوامی ذہن سے محو کردیتا ہے۔ فوٹو : فائل

آج کا ایک چھوٹا سا واقعہ گزرے ہوئے کل کی بڑی بڑی باتوں کو عوامی ذہن سے محو کردیتا ہے۔ فوٹو : فائل

دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے واقعات نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔

کراچی سے خیبر تک ان واقعات پر جس عوامی کیفیت اور احساس کا اظہار ہوا ہے، اُس میں دُکھ اور تشویش کے ساتھ ساتھ بے یقینی اور اس کا پیدا کردہ خوف بھی نمایاں طور سے شامل ہے۔ دُکھ اور تشویش تو خیر فطری چیزیں ہیں۔ بدامنی کے واقعات اور انسانی جانوں کے زیاں پر باقی سب چیزوں سے پہلے انسانی فطرت ملال کے احساس ہی سے مغلوب ہوتی ہے۔

یہ تو خیر اپنی قوم کو پیش آنے والے سانحات ہیں، ان پر بھلا ملال اور افسردگی کیوں نہ ہو، لیکن ایسے واقعات اگر کسی دوسرے ملک اور کسی دوسری قوم کو پیش آئیں تو بھی اُن پر ہمارا ردِعمل لگ بھگ ایسا ہی ہوگا اور یقیناً ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ اس لیے کہ ہماری تو تعلیم کے لازمی اور اسباق میں سے ایک بہت بنیادی اور اہم ترین سبق یہ ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔

جی ہاں، اِس سبق میں ایک مسلمان کے نہیں، بلکہ ایک انسان کے قتل کی بات کی گئی ہے۔ گویا جو نکتہ یہاں تعلیم کیا گیا ہے، اس کے مطابق انسانی زندگی باقی تمام حوالوں سے قطعِ نظر، اپنی جگہ خود بڑی قیمتی اور قابلِ قدر شے ہے۔ دوسرے حوالے زندگی کی قدر و قیمت میں اضافہ تو ضرور کرتے ہیں، لیکن وہ سب بعد میں آتے ہیں۔ اس لیے انسانی جان کے نقصان پر دکھ کا اظہار انسان کی سادہ اور خالص فطرت کے عین مطابق ہے۔ البتہ ہماری اجتماعی بے یقینی اور خوف کا پہلو کچھ اور شے ہے، اس لیے یہ ذرا الگ سے قابلِ غور ہے۔

دیکھا جائے تو ہمارے یہاں بے یقینی اور خوف کا مسئلہ قدرے گہرا ہے اور گمبھیر بھی، کیوںکہ ایک نہیں، بلکہ اس کے کئی ایک محرکات ہیں۔ ان میں سے بعض محرکات اس دور کے پیدا کردہ بھی نہیں ہیں، بلکہ ان کی جڑیں ہماری قومی تاریخ کے مختلف ادوار میں پیوست ہیں اور خاصی گہری اُتری ہوئی ہیں۔ حالیہ واقعات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس ضمن میں پہلی بات تو یہی ہے کہ دہشت کی یہ لہر جس طرح آئی اور جیسے اوپر تلے دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا، اور ان دھماکوں میں جتنی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، خاص طور پر لال شہباز قلندرؒ کے مزار پر اُس نے سراسیمگی کی شدید کیفیت پیدا کی۔

دوسری بات ان دھماکوں میں پولیس، فوج یا رینجرز کے جتنے سپاہی نشانہ بنے، وہ خود بڑی تشویش کا معاملہ ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ جب محافظ خود نشانہ بننے لگیں تو عدم تحفظ کا احساس بہت شدت ہوجاتا ہے اور تیزی سے پھیلتا ہے۔ ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشت گردی مکمل طور پر تو بے شک ختم نہیں ہوئی تھی، لیکن یہ سچ ہے کہ اس پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا تھا۔ چناںچہ امنِ عامہ کی بہتر ہوتی ہوئی صورتِ حال نے عوام کو باور کرا دیا تھا کہ وہ ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں ہیں۔

محفوظ ہاتھوں کے اس تصور میں سب سے نمایاں شبیہ جنرل راحیل شریف کی تھی۔ حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کی ساری خبروں، مسلسل فعال، ہمہ وقت سرگرم اور پرجوش نظر آنے والی شخصیت کے باوجود جنرل راحیل شریف نے جس طرح اپنی اعلیٰ قیادت کا دورانیہ پورا کیا اور بہت سے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے جس اطمینان سے اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش اور رخصت ہوئے، اُس نے بھی عوامی سائیکی کو امن کی مکمل بحالی کا گہرا تأثر دیا۔ اس تأثر کو دہشت گردی کی حالیہ لہر نے ایک دم زائل کردیا۔

اس کے نتیجے میں عوامی تحفظ اور امن و امان کے بارے میں ریاستی اداروں کے لیے ہی نہیں خود عوام کے لیے بھی کئی ایک سوالات یک لخت اٹھ کھڑے ہوئے۔ عوامی سطح پر جن سوالوں کی گونج سب سے زیادہ سنی گئی، ان میں دو اپنی جگہ خاص طور سے غور طلب ہیں۔ ایک یہ کہ کیا جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد قومی تحفظ کی پالیسی بدل گئی ہے یا غیر مؤثر ہوگئی ہے؟ کیا ہمارے یہاں امن و تحفظ کی صورتِ حال ایک بار پھر ۴۱۰۲ اور ۵۱۰۲ والی کیفیت کی طرف لوٹ کر جارہی ہے؟

ان دونوں سوالوں سے جو بات سب سے پہلے اور نمایاں طور سے سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ ہمارے قومی مزاج میں اس وقت تشکیک کا عنصر بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اتنا زیادہ کہ چند دن کے دباؤ میں ہم لوگ مہینوں، بلکہ برسوں کے یقین و اطمینان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے، لیکن یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ ایسا آخر کیوں ہوا ہے؟ اہلِ دانش کا یہ خیال غلط نہیں کہ دنیا کی سب سے کم زور اور ناپائیدار شے عوامی حافظہ ہوتا ہے۔ آج کا ایک چھوٹا سا واقعہ گزرے ہوئے کل کی بڑی بڑی باتوں کو عوامی ذہن سے محو کردیتا ہے۔

ایسا صرف ہمارے ساتھ نہیں ہے، بلکہ بہت ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ معاشروں میں بھی کچھ اسی طرح ہوتا ہے۔ گو کہ اس کا تناسب ذرا کم ہوتا ہے اور اس کے اثرات بھی زیادہ گہرے نہیں ہوتے۔ یہ بات اپنی جگہ، لیکن ہماری قومی سائیکی میں تشکیک کا عنصر صرف اسی وجہ سے نمایاں نہیں ہے۔ ذرا غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی متعدد وجوہ ہیں اور اُن میں سے ایک اہم اور اس کا بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ادارے مستحکم نہیں ہوسکے۔

اس لیے قومی سطح پر اُن کا کردار جب بھی نمایاں ہوا، وہ افراد ہی کا مرہونِ منّت رہا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ادارے افراد ہی چلاتے ہیں اور وہ قومی پالیسی اور ملکی مفاد کے اصولوں کو وہی بہ روے کار لاتے ہیں، لیکن ہمارا اجتماعی تجربہ کہتا ہے کہ اداروں کی کمان سنبھالنے والے افراد بدلتے ہیں تو ایسے اداروں کی پالیسی بھی بدل جاتی ہے۔ اگر بدلتی نہیں تو غیر اہم یا غیرمؤثر ضرور ہوجاتی ہے۔

قائداعظم، لیاقت علی خاں اور ان کے ساتھیوں کو تو چلیے بہ وجوہ رہنے دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایوب خاں کے عہد سے لے کر اس وقت تک کی لگ بھگ ساڑھے پانچ دہائیوں کو ذرا دیکھیے۔ ایوب خاں کے زمانے کی انڈسٹریلائزیشن، بھٹو کے زمانے کی اشتراکیت، ضیاء الحق کے زمانے کی اسلامیت سے لے کر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالتِ عظمی کا سماجی کردار اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے دور میں افواجِ پاکستان کی کارگزاری تک جو نقشہ ہمارے سامنے آیا ہے، وہ کیا ہے۔

اس کو دیکھتے ہوئے کیا ہم اس حقیقت کی نفی کرسکتے ہیں کہ ہماری قومی صورتِ حال اور قومی بیانیے کی تشکیل فرد مرکز وہی ہے۔ فی الحال ہم اس سے کوئی بحث نہیں کررہے کہ ان افراد نے جو کردار ادا کیا، وہ قومی فلاح کے زمرے میں کس سطح کا شمار ہوگا اور اس کے نتیجے میں ہمیں قوم کی حیثیت سے کیا قیمت چکانی پڑی اور کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تو ایک الگ اور تفصیل طلب بحث ہے، لہٰذا اس کو تو ابھی رہنے دیجیے۔ البتہ یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ مختلف ادوار میں ہمارے قومی بیانیے کی تشکیل میں جن افراد نے مرکزی کردار ادا کیا، اُن کے منظر سے ہٹنے کے بعد قومی بیانیہ وہی رہا یا تبدیل ہوگیا؟

یقیناً ہم سب کی مشترک رائے یہ ہے کہ ایسے افراد کے رخصت ہونے کے بعد بیانیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ سوچنا چاہیے اور پوچھنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ بہت سی ضمنی اور ذیلی تفصیلات سے قطعِ نظر، اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ اکثر و بیشتر نازک اور آزمائش کے حالات میں سامنے آنے والا قومی بیانیہ مرکزی اہمیت اور اثر و رسوخ رکھنے والے دراصل افراد کے ذاتی شعور و احساس کے زیرِاثر تھا۔ اجتماعی قومی قوت اس کے عقب میں متحرک اور مؤثر نہیں تھی۔ سوال کیا جانا چاہیے، کیوں نہیں تھی؟ چاہے یہ جواب ہمارے لیے شرمندگی اور افسوس کا باعث ہو، لیکن ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے مقتدر افراد پر داخلی قومی قوت کا اثر اتنا نہیں ہوتا جتنا اثر خارجی قوتوں کا ہوتا ہے۔

ظاہر ہے، یہ خارجی قوتیں اپنے مفادات کو مقدم جانتی ہیں اور زیرنگیں افراد، قوتوں اور قوموں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم اپنی سیاسی و سماجی تاریخ کے ایسے مواقع پر عام طور سے ان قوتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے آئے ہیں۔ اس کے لیے عوامی جذبات کے جھولے کو ہمیشہ بہت مہارت سے استعمال کیا گیا۔ لہٰذا ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے موقعے پر انسانیت، مذہب، ملت اور بقا کے بڑے بڑے اور خون گرمانے والے نعرے استعمال کیے گئے۔ ہمیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرنا چاہیے کہ ایسے مراحل پر ان قوتوں کی طرف سے ہر بار مالی امداد بھی ہمارے استحصال کا ایک اہم محرک بنتی رہی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ یہ امداد تو اکثر اور زیادہ تر عوام کے بجائے اہلِ اقتدار کے کام میں آئی، اور قیمت ساری صرف اور صرف عوام نے چکائی۔

اگر ہم ذمے داری اور ہوش مندی سے اس مسئلے پر غور کریں تو یہ سب باتیں ہمارے لیے ملال اور ندامت کا باعث ہوں گی— لیکن! اب ہمیں اِس ملال اور ندامت کا سامنا کر ہی لینا چاہیے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، ہم حقیقتِ حال کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے اور جب تک سمجھ نہیں سکتے اُس وقت تک ہمارا حقیقی شعور بروے کار نہیں آسکتا۔ ظاہر ہے، اس کے بغیر ہم اپنا اصل قومی بیانیہ تشکیل نہیں دے سکتے۔

باشعور لوگ اور زندہ قومیں صرف اپنے واقعات اور تجربات ہی سے سبق حاصل نہیں کرتے، دونوں ہی دوسروں سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ابتلا اور آزمائش کا زمانہ کسی نہ کسی عنوان ہر قوم پر گزرتا ہے۔ جب اس زمانے سے وہ سرخ رو اور ثابت قدم نکلتی ہے تو تعمیر و ترقی کی منزلوں سے ہم کنار ہوتی ہے۔ تاریخ کے اوراق ایسے حقائق سے بھرے ہوئے ہیں۔

آپ بہت زیادہ دور نہ جائیے، گذشتہ صدی کی سات آٹھ دہائیوں کے منظرنامے پر نگاہ کیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ جاپان، چین، ایران، ملائیشیا، سنگاپور ایسے کتنے ہی ملکوں کا احوال سامنے ہے۔ یہ سب قومیں اپنے اپنے انداز میں آزمائش کے کڑے مرحلوں سے گزری ہیں۔

یہ آزمائشیں اخلاقی، معاشی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی پہلو رکھتی ہیں۔ ہر قوم کے لیے یہ مرحلہ جاں گسل اور اعصاب شکن تھا۔ اس وقت میں سروں پر خوف کے بادل منڈلاتے تھے، بے یقینی کی تندوتیز ہوائیں چلتی تھیں۔ کہیں دو وقت تو کیا، ایک وقت کی روٹی فراہم ہونا ہی سب سے بڑا مسئلہ تھا اور کہیں اپنا ہی سایہ بیگانہ نظر آتا تھا۔ وجود اور روح کا رشتہ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ قدم قدم پر زندگی کی آرزو ماند پڑتی تھی۔ یہ سب قصہ کہانی نہیں ہے۔ حقیقتِ احوال ہے۔

آج یہ قومیں اس لیے قامت کشیدہ اور مستحکم ہیں کہ انھوں نے ابتلا کے اس دور میں خود کو بے آسرا نہیں ہونے دیا۔ حالات کا مقابلہ کیا۔ یہ مقابلہ داخلی قوت کے سہارے کیا جاتا ہے۔ اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود پر اعتبار کرکے کیا جاتا ہے۔ اس دور میں کسی فرد کے یا قوم کے لیے اثباتی رویہ قوت فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ آج ہمیں اس رویے کی اشد ضرورت ہے۔

ہمارے یہاں افواہیں بہت جلد پھیلتی ہیں۔ منفی باتیں تیزی کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ ہم کسی ایک مسئلے سے دوچار ہوں تو فوراً خود کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ہماری آنکھیں روشنی کے مرکز کی طرف جانے کے بجائے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگتی ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے یہاں مثبت کام بھی ہورہے ہیں۔ ہماری صفوں میں سچے، مخلص اور محبت کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ سچ پوچھیے تو ایسے لوگ اکثریت میں ہیں اور وہ بے دست و پا بھی نہیں ہیں۔ وہ بے کار نہیں بیٹھے ہوئے۔ ہم مسائل کے دباؤ میں آکر اپنی صلاحیتوں سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ کہ کم زوری غالب آجاتی ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے بعد ہمیں اس حقیقت کو بھی ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اس سے محض ہماری کم زوری کا اظہار نہیں ہوتا۔ بے شک یہ کم زوری تو ہے لیکن حالات کے دباؤ میں یہ فطری انسانی کیفیت اور اس کے ردِعمل کا اظہار بھی ہے۔ ہماری قومی سائیکی اس وقت اُسی طرح کام کررہی ہے جس طرح ایسے حالات اور تجربات سے دوچار کسی بھی قوم کی سائیکی کرسکتی ہے۔ اس مرحلے پر اس سچائی کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ ہم واقعی ایک زندہ اور باہمت قوم ہیں۔ بار بار وحشت کی فصل کاٹنے کے باوجود ہمارا قومی جذبہ مرا نہیں ہے۔ زندہ ہے اور جب ضرورت پڑتی ہے تو وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے اور بروے کار آتا ہے۔

اس کا ثبوت ہمیں قرض اتارو ملک سنوارو، کینسر ہسپتالوں کی تعمیر ایسی مہمات سے لے کر، ایدھی، چھیپا، سیلانی اور عالمگیر ایسے اداروں، کشمیری، افغانی، صومالی، فلسطینی بھائیوں کے لیے کیے جانے والے بے لوث اور ولولہ انگیز اقدامات اور ان کے ساتھ ساتھ ملک کے طول و عرض میں سیلاب اور زلزلہ زدگان کی امداد ایسے کاموں سے بار بار ملتا ہے۔ یہ ہماری قومی حمیت اور زندہ انسانی جذبوں کا بے پایاں اور قابلِ رشک منظرنامہ ہے۔ یہ بہت قابلِ قدر چیز ہے۔ اس کی توقیر کی جانی چاہیے۔ اس کا کھلے لفظوں میں اور بار بار اعتراف کیا جانا چاہیے۔ ہمارے یہاں منفی احساسات بہت پھیلتے ہیں، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بہت پھیلائے جاتے ہیں۔ یہ احساسات قومی اضمحلال کا سبب بنتے ہیں۔

اب ہمیں انھیں رد کرنا سیکھ لینا چاہیے۔ ہمیں اپنی قوم اور اس کے جذبہ و شعور کے بارے میں پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈے کو مسترد کرنا چاہیے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ایسی منفی سوچ کا پھیلایا جانا خود کسی ایجنڈے کا حصہ ہوتا ہے۔ ایسے اقدامات سے شر انگیز قوتوں کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہم اس وقت ایک بار پھر قومی سطح پر ابتلا اور تکلیف کے مرحلے میں ہیں۔ ہمارے مسائل گمبھیر اور پیچیدہ ہیں۔ صورتِ حال اعصاب شکن ہے۔ تاہم یہ بات بھی تو یاد رکھنے کی ہے کہ ہم اس سے پہلے ایسے کتنے ہی جان لیوا آزمائشوں سے سرخ رو ہوکر نکلے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ ہم اس مرحلے سے بھی ثابت قدمی سے نکلیں گے۔

ہمارا آج مشکل ضرور ہے، لیکن ہمیں اعتبار ہونا چاہیے کہ ہمارا آئندہ خوش گوار اور روشن ہوگا۔ ہم اپنے بچوں کو اپنے سے بہتر دنیا دینے میں ضرور کامیاب رہیں گے۔ اس لیے کہ اب ہم آنکھیں کھول کر حالات کو دیکھنے لگے ہیں۔ ہم نے اپنی رائے اور داخلی قوت کے ساتھ خود اپنا رویہ بنانے کا عمل شروع کردیا ہے۔

چناںچہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بارے میں ہر منفی پروپیگنڈے کو مسترد کردیں، تاکہ ہم اپنی توانائی کو زائل ہونے اور قومی سائیکی کو مجروح ہونے سے بچاسکیں۔ اس صورتِ حال کی تبدیلی میں عام آدمی کو اپنے کردار کی ضرورت اور اہمیت کا احساس دلانا ہوگا اور پھر ایک نیا اور مستحکم قومی بیانیہ تشکیل پائے گا۔ یہ بیانیہ ہماری آئندہ نسل کے لیے خوش حالی، استحکام اور وقار کی ضمانت ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔