عوام،ایک کا نہیں، سب کا احتساب چاہتے ہیں

ذوالفقار احمد چیمہ  ہفتہ 17 جون 2017
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

وزارتِ عظمیٰ کے خواہشمندچند سیاسی یتیم یا کچھ اور سازشی عناصر صرف ایک فرد کا احتساب چاہتے ہونگے۔ مگر قوم کی واضح اکثریت چاہتی ہے کہ ایک کا نہیں سب کا احتساب ہو۔ پہلے پارلیمنٹ میں موجود سب پارٹیوں کے بڑے لیڈروں کا احتساب ہو اور پھر بیوروکریسی، فوج اور عدلیہ میں موجود مشکوک عناصر کا!

پچھلے چند روز میں پنجاب کے دیہات اور خیرپختونخوا کے شہروں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ پانامہ لیکس اور جے آئی ٹی کے سامنے وزیرِ اعظم نوازشریف کی پیشی پر بات چھڑی۔ دیہاتی مجھ سے اسطرح کے سوال پوچھتے رہے۔ س۔نواز شریف اُتّے کِنّی رشوت لَین دا الزام اے؟ پنامہ شہر وچ جاکے رشوت لئی سُو؟۔ (نوازشریف پر کتنی رشوت لینے کا الزام ہے ، کیا پانامہ شہرمیں جاکر رشوت لی تھی؟)

ج۔ رشوت لینے کا الزام تونہیں ہے۔

س۔کئی وڈے لوگ ٹھیکیاں وچ کمیشن کھاندے نیں۔کمیشن کھان دا کیس اے؟ (کوئی کمیشن کھانے کا کیس ہے؟)ج۔ وہ بھی الزام نہیں ہے۔

س۔ تے فیر نواز شریف دے خلاف مقدمہ کیہہ اے؟ (پھر نوازشریف کے خلاف مقدمہ کیا ہے؟)ج۔ پوچھ گچھ یہ ہورہی ہے کہ ان کے بیٹوں کے لندن والے فلیٹس جس پیسے سے خریدے گئے ہیں وہ کس طریقے سے باہر گیا ہے؟۔

س۔ اوہ فلیٹ ایسے سال یا پِشلے سال خریدے گئے سن؟(وہ فلیٹ اِس سال یا پچھلے سال خریدے گئے تھے؟) ج۔ نہیں وہ تو بیس بائیس سال سے بھی پہلے کی بات ہے۔

س۔ تے ویہہ سال پرانی گل نوں ہون رغڑرَے نیں! (بیس سال پرانی بات کو اب رگڑ رہے ہیں)ایہہ تے کوئی ویہار دی گل نئیں۔ ویہہ سال پرانی گل تے ۔کلّے نواز شریف نوں رَغڑا لان تے وڈے وڈے ڈاکو کچھّاں مارن (یہ کوئی انصاف نہیں ہے کہ اتنی پرانی بات پر اکیلے نواز شریف کو رگڑا ملے اور بڑے بڑے وارداتئے بغلیں بجائیں)۔

پختونوں نے بھی سوال جواب کے بعد اسی طرح کی بات کی کہ’’ یاراجی یہ تو انصاف نہیں ہے۔ پوچھ گچھ اکیلے نوازشریف کی ہی کیوں ہورہی ہے باقیوں کو کیو ں نہیں پوچھا جارہا؟ ہمارے صوبے کے موجودہ اور سابق حکمرانوں سے تفتیش کیوں نہیں ہورہی؟‘‘اسی طرح کی بات شہباز شریف نے کی تھی۔ عوام کی اکثریت کی یہی سوچ ہے اور ان کی یہ سوچ اور تشویش آہستہ آہستہ اس مطالبے کا رُوپ دھار رہی ہے ‘ ’احتساب سب کا ہو‘۔

پارلیمنٹ میں موجود چار بڑی پارٹیاں (مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، تحریکِ انصاف، جمیعت علماء اسلام)اسوقت برسرِ اقتدار ہیں اور تین پارٹیاں (ق لیگ، اے این پی  اور ایم کیو ایم) پچھلے دور میں برسرِ اقتدار رہی ہیں۔کوئی بھی پچھلے پندرہ سال  میں حکومت سے باہر نہیں رہا۔کرپشن کے الزامات (صحیح یا غلط) سب پر ہیں مگر باقیوں کو چھوڑ کر صرف ایک سیاستدان اور اس کی اولاد کی تفتیش کی جائے

۔ یہ کسی ادارے کے چند ارکان یا وزیرِ اعظم سے بغض رکھنے والے چند سیاستدانوں کا ایجنڈا تو ہوسکتا ہے قوم کی خواہش ہرگز نہیں۔ قوم کی واضح اکثریت چاہتی ہے کہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کاروائی کے ذریعے تمام کرپٹ عناصر کا احتساب ہو۔  احتساب کے اس عمل کو منصفانہ رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کارروائی کا دائرہ ایک سیاستدان تک محدود نہ رکھے۔ صرف ایک سیاستدان اور ایک فیمیلی کی تفتیش ہوگی تو اس سے انتقام اور جانبداری کی بُو آئیگی۔ عوام چاہتے ہیں کہ اسی جے آئی ٹی کے ذریعے پارلیمنٹ میں موجود ساتوں پارٹیوں کے صفِ اوّل کے کم از کم پانچ پانچ رہنماؤں کے بارے میں تحقیق کروائی جائے جو اس سال دسمبر تک (الیکشن سے پہلے) مکمل ہوجائے۔ اس کے بعد اسی جے آئی ٹی کے ذریعے فوج اور عدلیہ کے مشکوک ارکان کے بارے میں بھی تفتیش کروائی جائے اور نتائج قوم کے سامنے پیش کردیے جائیں۔  اسی سے انصاف کے تقاضے پورے ہونگے اور اسی سے کرپشن کا تدارک ہوسکے گا۔

موجودہ کیس کی مدعی پارٹیوں کا جائزہ لیں تو صورتِ حال انتہائی مایوس کن اور تشویشناک ہے۔کرپشن کے خلاف سب سے بلند آواز میں نعرے لگانے والے اپوزیشن راہنما ناجائزذرایع سے مال بنانے میں بدنام لوگوں کو دھڑا دھڑ اپنی پارٹی میں شامل کررہے ہیں۔کرپشن کے سرخیلوں کے درمیان کھڑے ہوکر کرپشن کے خلاف ان کی باتیں اب مضحکہ خیز لگتی ہیں۔ صدیوں کی دانش کا نچوڑ ہے کہ انسان اپنے قریبی ساتھیوںسے پہچاناجاتاہے (A man is known by the company he keeps) لیڈر اور کمانڈر اپنی ٹیم سے پرکھا جاتا ہے۔ اگر ضلع یا ڈویژن کا پولیس کمانڈر مخلوقِ خدا پر بدنام اور حرام خور SHOsمسلّط کردے تو کرپشن کے خلاف اس کی تقریریں کون سنے گا؟ یہ صرف اﷲکے فضل اور خاص کرم سے ہی ہوا کہ ناچیز نے اپنی ٹیم میں کبھی کرپٹ افسروں کو قبول نہیں کیا۔ موٹروے پولیس کا انسپکٹر جنرل بن کر پہلے ہفتے میں ہی ڈی آئی جی رینک کے پانچ سینئر افسروں کو نکالنا پڑا۔ ایک بڑے محترم ریٹائرڈ آئی جی نے ایک کی سفارش کی تو معذرت کرتے ہوئے کہا “سر ! ایسا نہیں کرونگا تو ادارے کی ساکھ قائم نہیں رہیگی۔

ادارے کے سربراہ کی حیثیّت سے اس کی ساکھ اور عزّت کا محافظ اور کسٹوڈین میں ہوں، ادارے کی ساکھ اور شہرت قائم رکھنے کی خاطر ایسے غیر مقبول فیصلے کرنے پڑیں گے‘‘۔ عمران خان صاحب نذر گوندلوں اور فردوس عاشق اعوانوں کی ٹیم کے ساتھ کرپشن کے خلاف کو نسا جہاد کرنا چاہتے ہیں؟ اگر وہ بدنام سیاستدانوں کی اپنی پارٹی میں شمولیت کی درخواست مسترد کردیتے تو یہ کرپشن پر ایک کاری وار ہوتا اور مال بنانے والے سیاسی عناصر کے لیے بڑا سخت میسج جاتا کہ بدعنوان سیاستدانوں کا مستقبل تاریک بھی ہوسکتا ہے اور ان کا سیاسی کیرئر ختم بھی ہو سکتا ہے مگر افسوس ہے کہ وہ کرپشن کے تدارک کے لیے اتنا بھی نہ کرسکے۔

دارلحکومت کے باخبر حلقے سازشوں کی بُو سونگھ رہے ہیں۔ وزیرِ اعظم نے بھی پیشی کے بعد سازشوں اور کٹھ پتلی تماشوں کا ذکر کیا ہے۔ ہمیں پوری  امید ہے کہ اب پاک فوج اور عدالت ِعظمیٰ منتخب وزیرِ اعظم کو غیر آئینی طریقے سے ہٹانے کی کسی سازش کا حصّہ نہیں بنیں گے۔ شاید یہ قارئین کے لیے انکشاف ہومگر یہ حقیقت ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنی مقبولیت کے زعم میں 2016ء کے آغاز میں وزیرِاعظم نواز شریف سے استعفیٰ طلب کیا تھا۔ مگر ان کی خواہش پوری نہ ہوسکی۔ا گر راحیل شریف جیسا مقبول ترین سپہ سالار نواز شریف کو غیر آئینی طریقے سے نہ ہٹا سکا تو اس سے واضح طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔

سیاسی قوتّیں پہلے سے زیادہ مضبوط اور توانا ہیں، ملکی اور بین الاقوامی حالات جمہوریت کے لیے موافق اور آمریّت کے لیے ناموافق ہیں۔   لہٰذا اب غیر جمہوری قوتوںکے لیے منتخب حکومت کو ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ ویسے بھی موجودہ آرمی چیف سسٹم کا استحکام چاہتے ہیں اور اسے غیر مستحکم کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ یہی سوچ چیف جسٹس آف پاکستان کی ہے، کچھ دیگرعناصر اگر سازش میں ملوّث ہیں تو یہ بات یقیناً باعث ِتشویش ہے ۔ مگر سوال ہے کہ کہ منتخب وزیرِاعظم کو سازشوں سے ہٹانے کی ضرورت کیا ہے؟

اس وقت جب کہ نئے انتخابات میں صرف ایک سال باقی رہ گیا ہے۔ اور صورتحال یہ ہے کہ وطنِ عزیزکے بارے میں بھارتی حکمرانوں کے مکروہ عزائم مخفی نہیں ہیں۔ افغان حکومت بھارت کی کٹھ پتلی بن چکی ہے۔ ہمارے ایک اور اہم ہمسائے ایران کا رویہّ ہم سے مخاصمانہ اور بھارت سے دوستانہ ہے۔ عالمِ اسلام میں سخت کشیدگی کی صورتِحال ہے بلکہ جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں، ہمارے دشمن سی پیک کے منصوبے کو ہر قیمت پر ناکام بنانا چاہتے ہیں۔کیا ان حالات میں ایک تجربہ کار وزیرِ اعظم کو  ہٹاکر ملک کو عدمِ استحکام کا شکار کرنا ملک کے لیے مفید ہے یا نقصان دہ ہے؟

اسوقت ملک میں تین فریق ہیں۔ایک فریق (مسلم لیگ کی منتخب حکومت) کا کہنا ہے کہ آخری سال پورا کرنا ہمارا آئینی حق ہے اور اسی سال ہم بجلی کی کمی پوری کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور قوم کو اس بحران کے خاتمے کی خوشخبری سنائیں گے۔  دوسرا فریق (اپوزیشن کے وہ لیڈر جو وزیرِ اعظم بننے کے خواہشمند ہیں) سمجھتا ہے کہ بجلی کا مسئلہ حل ہونے یعنی ملک میںاُجالا ہونے سے ان کا مستقبل تاریک ہوجائیگا اسلیے وہ چاہتے ہیں وزیرِ اعظم کسی بھی صورت میں یہ سال پورا نہ کرسکے۔ ایک تیسرا فریق بھی ہے اور وہ ہیں عوام جن میں اب  Maturity بھی آچکی ہے اور جو دونوں فریقوں سے زیادہ محّبِ وطن بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب زرداری صاحب کی بدنام حکومت نے اپنی ٹرم پو ری کرلی تو نواز شریف کو اس حق سے محروم کیوں کیا جائے! عوام چاہتے ہیں کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے اور اس سال بجلی سمیت تمام وعدے پورے کرے۔اگر وہ ایسا نہ کرسکی تو اس کی سزا عوام خود دیں گے۔ پہلے بھی حکمرانوں کی غلط کاریوں پر سزا۔  نہ کبھی  فوج نے دی ہے اور نہ عدالتوں نے۔ سزا صرف عوام نے ہی دی ہے۔ یہ حق عوام کا ہی ہے اور یہ انھی کے پاس رہنا چاہیے۔

کسی بھی حکومت کی بُری گورننس اور غلط پالیسیوں پر اعتراض بجا۔ لیکن منتخب پارلیمنٹ اورپارلیمنٹ کے منتخب قائد کی  Sanctity تسلیم کی جانی چاہیے۔ مگر سیاسی قیادت کو بھی یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ غیر معیاری گورننس اور غیر جمہوری روّیوں کے ساتھ   سویلین بالادستی کا خواب تو دیکھ سکتے ہیں۔ جمہوریت کے قلعے کی حفاطت نہیں کرسکتے۔  حکمرانوں کا بے داغ کردار، شفاف گورننس اور قانون کی حکمرانی ہی وہ بَیرئر ہیں جن سے جمہوریّت کے قلعے کا تحفّظ ہوسکتا ہے۔ اگراہلِ سیاست کے پاس یہ “محافظ” موجود ہیں تو کوئی مہم جو آئین شکن یا سازشی عناصر جمہوریت پر شب خون مارنے کی کبھی جرأت نہیں کرینگے۔ پھر اس قلعے کی حفاظت عوام خود کریں گے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔